ریاستی ادارے اور اہلکار کوئی غیرآئینی اقدام نہ اٹھائیں،سپریم کورٹ ، تمام ریاستی ادارے اور اہل کار آئین کے مطابق کام کریں،کسی ریاستی ادارے یا اہلکار نے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی تو اس کو آئین سے غداری تصور کیاجائے گا ،عدالت کا ملک میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام روکنے سے متعلق درخواست پر عبوری فیصلہ، عدالت نے درخواست باضابطہ سماعت کیلئے بھی منظور کرلی، وفاق اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹسز جاری،مقدمے کی سماعت اٹھارہ اگست کو ہوگی

ہفتہ 16 اگست 2014 09:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16اگست۔2014ء) ملک میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام روکنے سے متعلق درخواست پرسپریم کورٹ نے عبوری حکم میں کہا ہے کہ ریاستی ادارے اور اہل کار کوئی غیر آئینی اقدام نہ اٹھائیں، تمام ریاستی ادارے اور اہل کار آئین کے مطابق کام کریں۔عدالت نے درخواست باضابطہ سماعت کیلئے بھی منظور کرلی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 4رکنی لارجر بنچ درخواست کی سماعت کررہاہے۔

درخواست سپریم کورٹ بار کے صدر کامران مرتضیٰ نے درخواست دائر کی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال میں عوام کے حقوق معطل ہورہے ہیں ،اگر اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تو امور مملکت متاثر ہوں گے۔ جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا ہے کہ درخواست گزارکاموقف ہے کہ کہیں 3 نومبر 2007جیسااقدام نہ ہو۔

(جاری ہے)

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ، کسی ریاستی ادارے یا اہلکار نے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی تو اس کو آئین سے غداری تصور کیاجائے گا ۔

عدالت اکتیس جولائی کے فیصلے میں پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ ملک میں کوئی ماورائے آئین اقدام نہیں کیاجاسکتا ، عدالت نے وفاق اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹسز جاری کئے ہیں ۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے جمعہ کے روز سپریم کورٹ بار صدر کے درخواست کی سماعت کی اس دوران اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملک میں موجودہ حکومت کیخلاف احتجاجوں کا ایک سلسلہ جاری ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں ، اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور نئے انتخابات کرائے جائیں اس طرح کی ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک میں ماورائے آئین اقدام چاہتے ہیں اس لئے اس کیخلاف حکم امتناعی جاری کیا جائے ۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے تو صرف مطالبات کئے ہیں مطالبات سے یہ بات کیسے ظاہر ہوگئی ویسے بھی اکتیس جولائی کا فیصلہ محفوظ ہے اور لاہور ہائی کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے تو پھر ہمارے فیصلے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے

اس پر درخواست گزار کامران مرتضیٰ نے کہا کہ احتجاجی مارچوں میں شریک رہنما اور افراد بضد ہیں کہ وہ اس حکومت کیخلاف اقدام کرینگے اور آئین اور قانون کے مطابق اگر اقدام کیا جاتا تو اور بات تھی اس کیلئے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے یا دوسری صورت میں وزیراعظم خود اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائز کریں تب ہی اسمبلیاں توڑی جاسکتی ہے ۔

لوگوں کے حقوق متاثر ہورہے ہیں جگہ جگہ کنٹینرز لگے ہوئے ہیں وسائل پیدا ہورہے ہیں لوگوں کو کافی پریشانی ہےاس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دفعہ 144 کے نفاذ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق ہی ختم ہوگئے ہیں ۔ پولیس لوگوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اکتیس جولائی کا فیصلہ ہر قسم کے ماورائے آئین اقدام کے خلاف موجود ہے اس کی کیسے خلاف ورزی ہوسکتی ہے بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تمام معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس جائزے کے بعد اس پر عبوری حکم جاری کرینگے عدالت نے پہلے گیارہ بجے کا وقت دیا بعد ازاں ساڑھے گیارہ بجے تاہم فیصلہ بارہ بجے کے بعد سنایا گیا جس کے بعد عدالت نے سماعت اٹھارہ اگست تک ملتوی کرتے ہوئے تمام ریاستی اداروں اور اہلکاروں کی جانب سے کسی بھی ماورائے آئین اقدام کیخلاف حکم امتناعی جاری کردیا ہے ۔

وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز بھی جاری کئے گئے ہیں مقدمے کی سماعت اٹھارہ اگست کو ہوگی

متعلقہ عنوان :