لاہور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کو اسلام آباد میں کسی بھی غیر آئینی آزادی مارچ اور انقلاب مارچ یا دھرنے کے انعقاد سے روک دیا ، ملک کی غیر یقینی صورتحال ، ملک میں انتشار اور یوم آزادی کے تقدس پیش نظر فاضل عدالت نے یہ فیصلہ دیاہے،مختصر فیصلے میں ریمارکس

جمعرات 14 اگست 2014 08:56

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14اگست۔2014ء) لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کو اسلام آباد میں کسی بھی غیر آئینی آزادی مارچ اور انقلاب مارچ یا دھرنے کے انعقاد سے روک دیا ہے۔مسٹر جسٹس خالد محمود خان،مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار اور مسٹر جسٹس انوار الحق پر مشتمل فل بنچ نے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ ملک کی غیر یقینی صورتحال ، ملک میں انتشار اور یوم آزادی کے تقدس پیش نظر فاضل عدالت نے یہ فیصلہ دیا۔

گزشتہ روز فل بنچ نے سماعت کا آغاز کیا تو تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ اگر عمران خان کو اسلام آباد میں مخصوص مقام پراحتجاج کے لئے دس یوم دے کر پولیس کو کاروائی سے روک دیا جائے تو کیاوہ اس پیش کش سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔

(جاری ہے)

عدالت نے عمران خان کے وکیل کو ہدایات لے کرعدالت میں دوبارہ پیش ہونے کی ہدائت کر دی۔احمد اویس نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انکی عمران خان سے بات ہوئی ہے وہ بیان حلفی دینے کو تیار ہیں کہ زیرو پوائنٹ سے کشمیر چوک تک جانے دیا جائے آزادی مارچ میں امن و امان کے مسائل پیدا نہیں کریں گے۔

جعلی مینڈیٹ سے آنے والی حکومت کو تسلیم نہیں کر تے وزیر اعظم کے استعفی کے بغیر شفاف انکوائری ممکن نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے ان حالات میں آزادی مارچ ملکی سلامتی کو داو پر لگا سکتا ہے۔عمران خان نے وزیر اعظم کے خطاب کے بعدمیڈیا سے گفتگو میں باغیانہ خیالات کا اظہار کیا،تحریک انصاف کسی الیکشن کمیشن،سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ پر یقین نہیں رکھتی،عمران خان کہتے ہیں جو میں کہتا ہوں بس وہی ٹھیک ہے۔

جس پرعدالت نے عمران خان کی تین مئی کونجی چینل پر نشر ہونے والے انٹرویو کا ریکارڈ اور گذشتہ روز میڈیا سے ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔اے کے ڈ وگر نے کہا کہ لندن میں ہائڈ پارک میں لوگ احتجاج کرتے ہیں مگر ہمارے یہاں احتجاج کے نام پر سڑکیں بند کر دی جاتیں ہیں۔مسٹرجسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت آزادی مارچ کے شرکا کو لاہور یا راولپنڈی کے کسی سٹیڈیم میں جگہ فراہم کر سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے تحریک انصاف نے حکومت کو کوئی درخواست نہیں دی۔بنچ کے فاضل رکن مسٹرجسٹس شاہد حمید ڈار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کمیشن بنانے کی اتنی بڑی پیش کش کی اس سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔عمران خان کے وکیل احمد اویس نے کہا کہ دھاندلی کے ذریعے آنے والی حکومت جب تک موجود ہے کسی کمیشن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

مسٹرجسٹس خالد محمود خان نے کہا کہ عمران خان یہ تو بتائیں کہ اسلام آباد میں کتنے دن اور کہاں پڑاو کرنا ہے۔ اگر مارچ میں طالبان گھس گئے تو کون ذمہ دار ہے۔فل بنچ نے عوامی تحریک پر پابندی عائد کرنے کے لئے دائر درخواست پر طاہر القادری کی یوم شہدا کی تقریر کا ریکارڈ بھی طلب کیا۔عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج ضرور کریں مگر اسے وزیر اعظم اور پارلیمنٹ ختم کرنے سے مشروط نہ کیا جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آزادی مارچ کو روکنے کا حتمی حکم صادر کرئے،حکومت کا آدھا بجٹ اس وقت حفاظتی اور انتظامی معاملات پر خرچ ہو رہا ہے۔تحریک انصاف مصر کی طرح ملک میں خون خرابہ کرنا چاہتی ہے۔

عدالتی کے حکم پر وزیر اعظم کے گذشتہ روز قوم سے ہونے والی تقریر اور عمران خان کے نجی چینل پر نشر ہونے والے انٹرویو کو پروجیکٹر کے ذریعے فل بنچ کو دکھایا گیا۔

۔اے کے ڈوگر نے کہا کہ انہیں راولپنڈی یا اسلام آباد کے سپورٹس سٹیڈیم تک جانے کی اجازت دے دی جائے۔فل بنچ کے سربراہ مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسے تسلیم نہیں کیا جاتا یہ سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کے مترداف ہے۔بنچ کے فاضل رکن مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار نے کہا کہ اگر تحریک انصاف کو وزیر اعظم پر اعتماد نہیں تو اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کیوں نہیں لاتے،ایک طرف آپ آزادی مارچ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اسمبلیوں سے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں مگر استعفے تک دینے کو تیار نہیں ہیں۔

مصر میں بھی آزادی مارچ والے تحریر چوک کو اب خونی چوک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد آزادی مارچ روکنے کے لئے دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔فاضل عدالت نے شام چھ بجے کے بعد فیصلے کیلئے آئے تو تحریک انصاف کے وکیل نے کہاکہ میڈیا پر خبر نشر ہو رہی ہے کہ وزیر اعظم نے جماعت اسلامی کے امیر کے کہنے پر لانگ مارچ کی اجازت دے دی ہے۔فاضل عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ تصدیق کر کے بتاتے ہیں۔فاضل ججز اپنے چیمبرز میں چلے گئے اور پھر کچھ دیر بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو غیر آئنی مارچ اور دھرنے سے روک دیا۔