اسلام آباد میں بلا اجازت سیاسی جلسے و مارچ پر پابندی،کسی کو ضلعی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی ،وفاقی حکومت ، لانگ و آزادی مارچ یا نام نہاد انقلاب کی آڑ میں ملک کا امن خراب کرنے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی،منتخب وزیر اعظم کسی سیاسی یلغار ، تشدد اور دھرنوں سے مستعفی ہونگے، اسمبلی توڑی جائیں گی اور نہ ہی پاکستان کے آئین وقانون میں ٹیکنو کریٹ حکومت کی گنجائش موجود ہے، موجودہ سیاسی بحران اور لانگ مارچ کے پیچھے آرمی کا کوئی ہاتھ نہیں ، پاکستان کی بہادر افواج تاریخ کی مشکل ترین جنگ لڑ رہی ہیں انہیں مشکوک نہ بنایا جائے، موجودہ سیاسی بحران میں تمام سیاسی جماعتوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا جس کے لئے ان کے مشکور ہیں،سپریم کورٹ ججز پر مشتمل تین رکنی کمیشن کے اعلان کے بعد عمران خان کے آزادی مارچ کا کوئی جواز باقی نہیں،آرمی چیف سے ملاقاتیں معمول کے مطابق ہوتی رہتی ہیں ان پر ابہام پیدا نہ کیا جائے،وفاقی وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس

جمعرات 14 اگست 2014 08:54

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14اگست۔2014ء) وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں بلا اجازت سیاسی جلسے و مارچ پر پابندی لگا تے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو اسلام آبادضلعی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے واضح کیا ہے کہ لانگ و آزادی مارچ یا نام نہاد انقلاب کی آڑ میں ملک کا امن خراب کرنے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی اور منتخب وزیر اعظم کسی سیاسی یلغار ، تشدد اور دھرنوں سے مستعفی ہونگے نہ اسمبلی توڑی جائیں گی اور نہ ہی پاکستان کے آئین وقانون میں ٹیکنو کریٹ حکومت کی گنجائش موجود ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو کسی بھی ضلعے میں مروجے قانون کے تحت جلسے کی اجازت کی درخواست دینے کے بعد اجازت دے دی جائے گی۔

(جاری ہے)

پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور باوقار جمہوری ملک ہے جہاں آزاد عدلیہ و میڈیا ،مضبوط ادارے اور جمہوریت موجود ہے،موجودہ سیاسی بحران اور لانگ مارچ کے پیچھے آرمی کا کوئی ہاتھ نہیں ، پاکستان کی بہادر افواج تاریخ کی مشکل ترین جنگ لڑ رہی ہیں انہیں مشکوک نہ بنایا جائے، موجودہ سیاسی بحران میں تمام سیاسی جماعتوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا جس کے لئے ان کے مشکور ہیں،سپریم کورٹ ججز پر مشتمل تین رکنی کمیشن کے اعلان کے بعد عمران خان کے آزادی مارچ کا کوئی جواز باقی نہیں،آرمی چیف سے ملاقاتیں معمول کے مطابق ہوتی رہتی ہیں ان پر ابہام پیدا نہ کیا جائے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کی شام پنجاب ہاوٴس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کی منتظر تھی مگر ہائی کورٹ کا فیصلہ حکومت کے فیصلے سے مختلف نہیں ہے۔ان کاکہناتھاکہ حکومت کاروزاول سے یہ موٴقف ہے کہ کسی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اوراس کااحترام کیاجائیگا،جس کی مثال گزشتہ چندہفتے پہلے تحریک انصاف کی اسلام آبادجلسے کی سب کے سامنے موجودہے ،مگرایک بات واضح کردیناچاہتے ہیں کہ کسی سیاسی یلغارسے حکومت کونہیں گہرایاجاسکتا،کسی جمہوری ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی جس طرح کی باتیں آج کل ہمارے ملک میں ہورہی ہیں یاجوقوتیں سرگرم عمل ہیں ۔

ان کاکہناتھاکہ حکومت نے تحریک انصاف اورعوامی تحریک کوبہت سارے جلسوں پراس سے پہلے بھی پابندی نہیں لگائی اوریہ جلسے مختلف شہروں میں ہوتے رہتے ہیں ،مگرمروجہ قانون کے تحت جلسوں کی اجازت اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ تاکہ عام شہریوں کی سیکورٹی کویقینی بنایاجاسکے جوحکومت کافرض ہے ،پاکستان کواس وقت سیکورٹی کے حوالے سے ایک گھمبیرصورتحال کاسامناہے اورافواج پاکستان اس وقت تاریخ کی مشکل ترین جنگ لڑرہی ہے جس میں اسے قوم کی سپورٹ کی ضرورت ہے ،مگرگزشتہ کئی ہفتوں سے ملک میں ایک عجیب سی صورتحال پیداکردی گئی ہے ،ایک طرف افواج پاکستان دہشتگردی کے خلاف اندرونی اوربیرونی سطح پرجنگ لڑرہے ہیں ،بارڈرکی صورتحال سب کے سامنے ہے اوردوسری طرف ملک کے اندرایک عجیب سیاسی ماحول پیداکیاہواہے ایسے ماحول میں فوج کوعملاًتنہاکرنے کی کوشش کی گئی ہے ہونایہ چاہئے تھاکہ اس وقت پوری قوم اورتمام سیاسی جماعتیں اتفاق واتحادکامظاہرہ کرتیں ،

ان کاکہناتھاکہ پاکستان کوعراق ،صومالیہ ،شام یاافغانستان نہیں بننے دیں گے جس طرح کاماحول یہاں بنایاگیاہے یاجومطالبات کئے جارہے ہیں وہ عراق ،شام صومالیہ یاافغانستان میں توپورے ہوتے رہے ہیں مگراس کایہاں کوئی جوازنہیں ۔

گزشتہ روزوزیراعظم پاکستان نے دھاندلی کی تحقیقات کیلئے جس کمیشن کااعلان کیاہے اس کے بعدکسی لانگ مارچ کی گنجائش باقی نہیں ،اگرعمران خان اورتحریک انصاف کی جدوجہد دھاندلی کے خلاف تھی اوراگران کی تحریک دھاندلی کے خلاف نہیں تواس کااس پرکچھ نہیں کہہ سکتے ۔ان کاکہناتھاکہ سپریم کورٹ کے تین رکنی کمیشن کے حوالے سے بارہاانہوں نے خودبھی ماضی میں مطالبات پیش کئے ،ماضی میں انہوں نے خودبھی ایسے مطالبات پیش کئے ۔

اب سپریم کورٹ ناتووزیراعظم کے ماتحت اورزیراثرہے اورنہ ہی وزیراعظم سے پوچھ کرفیصلے کرتی ہے ،اگرعمران خان کوسپریم کورٹ پربھی اعتمادنہیں ،توکیافرشتے آئیں گے یااقوام متحدہ کوبلایاجائیگا۔نگران حکومت کے مرکزی اورصوبائی لیول پرمسلم لیگ ن کاکوئی نمائندہ شامل نہیں تھا،نگران حکومتیں پیپلزپارٹی نے قائم کی تھیں اورچیف الیکشن کمشنرکی پروپوزل عمران خان نے خوددی تھی ۔

فخرالدین جی ابراہیم یہ عہدہ لینے کیلئے تیارنہیں تھے مگرانہیں میں نے راضی کیا،دوران نگران سیٹ اپ میں نے اورشہبازشریف نے نجم سیٹھی کے خلاف پریس کانفرنسیں بھی کیں اوروہ پی ایم ایل این کے خلاف امتیازی سلوک روارکھ رہے ہیں ،الیکشن کے دوران مسلم لیگ ن زیرعتاب پارٹی تھی اس کے باوجوداگرہم پردھاندلی کاالزام لگایاجارہاہے تواس پرافسوس کے سواکچھ نہیں کہاجاسکتاکیونکہ مسلم لیگ ن نے دھاندلی نہیں کروائی وہ بھی آپ کے ساتھ انتخابات لڑرہی تھی ۔

چوہدری نثارعلی خان کاکہناتھاکہ وزیراعظم کسی سیاسی ہجوم اورتشددسیاسی تحریک یایلغارسے ہرگزمستعفی نہیں ہوں گے اورنہ ہی اسمبلیاں توڑی جائیں گی جبکہ آئین پاکستان میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش موجودنہیں ۔ان کاکہناتھاکہ طاہرالقادری کے حوالے سے وہ کسی کوشک وشہبہ نہیں تھاکہ ان کاایجنڈاکیاہے ایسے شخص کے بارے میں کیاکہاجاسکتاہے توبچوں اورخواتین کواپنی ڈھال بناکراندرباہرآتاجاتاہو،اگروہ پورے نظام کومفلو ج کردے توپھربھی حکومت ذمہ داراوراگرغیرآئینی کام کرے توبھی حکومت ذمہ دار۔

ان کاکہناتھاکہ پنجاب پولیس کی گزشتہ ایک ہفتے کی کارکردگی قابل ستائش ہے ،دس اگست کوایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پرتشددکارروائیاں کی جانی تھیں مگرپولیس نے اسے ناکام بنایا۔ان کاکہناتھاکہ اس پورے معاملے کے دوران سیاسی جماعتوں نے جس اتحاداورجمہوریت کے بچاوٴکیلئے تعمیری کردارکامظاہرہ کیاوہ قابل ستائش ہے ،ان میں بہت سی ایسی جماعتیں ہیں جن کے ساتھ ہمارابہت سے معاملات پراختلاف ہے اورآئندہ بھی رہے گا،مگران سیاسی جماعتوں نے اختلافات کوایک طرف رکھ کراہم کرداراداکیا،باالخصوص جماعت اسلامی جوخیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت میں تحریک انصاف کی اتحادی بھی ہے اس جماعت نے اہم کرداراداکیا،سراج الحق ،لیاقت بلوچ اورمیاں اسلم نے جمہوریت کی مضبوطی میں اپنابھرپورحصہ ڈالا،جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اوراس عمل سے عالمی سطح پربھی کوئی مثبت پیغام نہیں گیا،ہمیں کئی دوست ممالک نے فون کرکے بتایاکہ آپ کیاکرنے جارہے ہیں ،موجودہ آپریشن کے بعدپاکستان پرسرمایہ کاری کیلئے اعتمادپربحال ہواہے ،مگراس کے باوجودسیاسی صورتحال کی وجہ سے سٹاک مارکیٹس سے لیکرمعاشرتی زندگی تک تباہ ہوئی ہے ،مزدوربے روزگارہوگیا۔

ان کاکہناتھاکہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنی ذمہ داریوں کوبھرپورطریقے سے نبھایاہے۔آزادی مارچ نام نہادانقلاب اورلانگ مارچ کے حوالے سے کسی بھی جماعت کواسلام آبادمیں جلسے کی اسی صورت اجازت دی جاسکتی ہے جب وہ مروجہ قانون کے تحت اسلام آبادمیں جلسے کیلئے ضلعی انتظامیہ کودرخواست دیگی ۔ایک سوال کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ فوج کااس معاملے کے ساتھ دوردورتک کوئی تعلق نہیں ،فوج اس وقت ملکی بقاء کی جنگ لڑرہی ہے ،انہیں اس معاملات سے دوررکھاجائے توبہترہوگا۔

ان کاکہناتھاکہ اس صورتحال کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ کریش ہوگئی ہے اورمسائل میں اضافہ ہوگیاہے صرف سیکورٹی مسائل پراب تک کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں اوردوسری جانب پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے علاوہ بین الاقوامی ایجنسیوں نے رپورٹ دی ہے کہ اس مارچ کے دوران شدیدخطرات موجودہیں جبکہ بدھ کے روزصرف آدھے گھنٹے کے دوران پندرہ سے زائدتھرٹ رپورٹس انہیں موصول ہوئی ہیں ایسے میں تمام لیڈرزکی سیکورٹی کویقینی بناناحکومت کی ذمہ داری ہے مگرسیاسی جماعتوں کوخودبھی ذمہ داری کامظاہرہ کرناچاہئے ۔

ایک سوال کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ اسلام آبادمیں جلسے کے حوالے سے لاہورہائیکورٹ کے فیصلے پرعملدرآمدکیاجائیگاجبکہ آرمی چیف سے ملاقات کے سوال پران کاکہناتھاکہ آرمی چیف سے ملاقاتیں معمول کاحصہ ہیں اس میں ابہام پیدانہ کیاجائے وہ آرمی چیف سے بہت سے زیادہ ملاقاتیں کرتے ہیں اوران کامقصدادارہ جاتی مسائل اوراندرونی سیکورٹی سمیت پیشہ وارانہ امورہوتے ہیں ،پرویزمشرف کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ پرویزمشرف کیس کااس حوالے سے کوئی پس منظرنہیں تاہم چندگروہ ضرورہیں جنہیں جمہوریت ہضم نہیں ہورہی ۔