ملک سیاسی محاذآرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا،انقلاب کے نام پر کسی کو رخنہ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے، وزیراعظم نواز شریف،اگر کسی کو آپریشن پر تحفظات ہیں تو سننے کیلئے تیار ہیں، اس وقت ملک کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، اگر کسی سیاسی جماعت کے کوئی جائر مطالبات ہیں اور وہ حکومت اور آئین کے زمرے میں آتے ہیں تو ان سے بات ہو سکتی ہے،ہم عمران خان سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں،وہ ہمارے ساتھ بیٹھیں، کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر ان کی بات سنیں گے،مسائل کے حل کے لئے سب کو دست تعاون بڑھانا چاہئے، قومی سلامتی کانفرنس سے خطاب

اتوار 10 اگست 2014 09:05

اسلام آ باد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10اگست۔2014ء) وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ انقلاب کے نام پر کسی کو رخنہ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے، اس وقت ملک کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں اور یہ کسی بھی لانگ مارچ کا متحمل نہیں ہو سکتا، اگر کسی سیاسی جماعت کے کوئی جائر مطالبات ہیں اور وہ حکومت اور آئین کے زمرے میں آتے ہیں تو ان سے بات ہو سکتی ہے ۔

کہیں سے بھی آپریشن کے خلاف کوئی بات نہیں سنی گئی، اگر کسی کو آپریشن پر تحفظات ہیں تو سننے کیلیے تیار ہیں، آج کھل کر بات ہوگی۔عمران خان آئیں اور آ کر بیٹھیں،ہم عمران خان سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔عمران خان ہمارے ساتھ بیٹھیں، کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر ان کی بات سنیں گے۔ موجودہ حالات میں ملک اندرونی اور بیرونی سازشوں اورسیاسی محاذآرائی کامتحمل نہیں ہوسکتا،مسائل کے حل کے لئے سب کو دست ِ تعاون بڑھانا چاہئے۔

(جاری ہے)

ہفتہ کے روز قومی سلامتی کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے قومی سلامتی کانفرنس کے شرکاء کو خوش آمدیدکہا۔وزیر اعظم ہا ؤس میں ہونے والی قومی سلامتی کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ کوئی مسئلہ عدالت کا ہے تو اس کے لئے عدالت سے رجوع کیاجاناچاہئے۔ انہوں نے کہاکہ آئین اور قانون کی بالادستی پرکوئی آنچ نہیں آنے دینگے۔

وزیراعظم نے کہاکہ ہم نے 2013کے انتخابات کامینڈیٹ کھلے دل سے تسلیم کیا۔ تحریک انصاف نے 10نشستوں پر دوبارہ گنتی کامطالبہ کیاہے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے گزشتہ دورحکومت میں بطورا پوزیشن ذمہ داری کا ثبوت دیا اور مجھے امیدہے کہ موجودہ حکومت بھی ذمہ داری کاثبوت دیگی۔وزیراعظم نے کہاکہ امن کے ذریعے ملکی ترقی ممکن ہے، عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو فراخدلی سے تسلیم کیا، ہم نے تمام صوبوں میں دوسری جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا، انھیں حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا اور وہ حکومتیں آج بھی قائم ہیں۔

وفاقی حکومت نے ہرصوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔پاکستان کی معیشت کو بہتربنانے کی کوشش کررہے ہیں۔تمام جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ایسے حالات میں کوئی عیش وعشرت کے لیے وزیراعظم بننے کے لیے نہیں آتا۔کسی کی بھی جائز شکایت ہے تو سننے کے لیے تیارہیں۔ ہمیں سمجھائیں کہ کون سا اور کس طرح سے انقلاب لائیں گے؟۔اگرصرف فساد کے لیے انقلاب لانا چاہتے ہیں توایسا انقلاب قبول نہیں۔

عمران صاحب آئیں،اپنے مطالبات لے کربات کریں۔ہمیں دوبارہ گنتی کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔کسی ہچکچاہٹ کے بغیربات کرنے کو تیار ہیں۔پاکستان کی ترقی کیلیے حکومت آگے بڑھے۔اپوزیشن کو محاذ آرائی کی شکل اختیار نہیں کرنی چاہیے، پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ہم سیاست کرنے نہیں، پاکستان کو مسائل سے باہر نکالنے آئے ہیں۔حکومت ہر کسی کے مسائل سننے کے لیے تیار ہے۔

پاکستان میں کون سا انقلاب اور کیسا انقلاب؟۔پاکستان میں کوئی انقلاب کی بات کرتا ہے تو وہ کسی قیمت پر قابل قبول نہیں۔آج کوئی ملک اندرونی اور بیرونی سازشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔لانگ مارچ کرنے والوں سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ کانفرنس کے مقاصد بھی یہی تھے اور اس میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی رائے لی گئی تاہم بدقسمتی سے مذاکرات کامیاب نہیں ہوپائے۔

اس کے بعد دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کارروائی کا فیصلہ بھی اتفاق رائے سے کیاگیا۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔دہشت گردی کے واقعات میں جوانوں سمیت ہزاروں افراد شہید ہوئے۔گزشتہ جماعتی کانفرنس کے مقاصد بھی یہ ہی تھے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی طرف بڑھے، مگرکوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ہرمکتبہ فکربڑھتی ہوئی دہشت گردی سے پریشان تھا۔

دہشت گردوں نے کراچی ایئرپورٹ پرحملہ کیا۔دہشت گردوں نے میجرجنرل سمیت دیگرافسران اور جوانوں کو شہید کیا۔ہمیں ان تمام شہادتوں کی دل سے قدر ہے۔گزشتہ کانفرنس میں تمام جماعتوں نے مخلص رائے دی۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کارروائی کا فیصلہ بھی اتفاق رائے سے کیا۔آج تمام معاملات پرکھل کربات کی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ناگزیرہوگیا تھا۔

پاکستان کو اس وقت امن کی ضرورت ہے۔نواز شریف نے کہا کہ آرمی چیف نے بتایا کہ اگردہشت گردی کا واقعہ ہوا تو اس کی شدت کم ہوگی۔جن کے پیارے دہشت گردی میں شہید ہوئے اس پرہمیں دکھ ہے۔ملک کو بے تہاشا مسائل کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں شہادتوں کا بہت زیادہ احساس ہے۔ہماری دعا ہے کہ اللہ شہادت پانے والوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔پاکستان کو امن کی ضرورت ہے اورامن سے ہی ترقی کر سکتے ہیں۔

سال 2013 کے الیکشن کے بعد نئی شروعات ہوئی ہے ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو ملک میں آپریشن صرب عضب جاری ہے، دوسری جانب ملک کو توانائی بحران کا سامنا ہے اور تیسری جانب پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے کوئی جائر مطالبات ہیں اور وہ حکومت اور آئین کے زمرے میں آتے ہیں تو ان سے بات ہو سکتی ہے لیکن ان حالات میں طاہر القادری کس قسم کے انقلاب کی بات کر رہے ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں، کسی کو بھی انقلاب کے نام پر ملکی ترقی کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔

وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کو اس وقت امن کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے سیاست میں نئی ابتداء کی اور ماضی کی سیاست کو دفن کردیا۔ سیاسی اختلافات کو محاذ آرائی کی شکل اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ لانگ مارچ ضرور کریں لیکن یہ مناسب وقت نہیں ہے۔انقلاب کے نام پر فساد اور رخنہ اندازی قابل قبول نہیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت توانائی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کیلئے کوششیں کررہی ہے۔

امید ہے آئندہ تین چا ر سالوں میں توانائی بحران پر قابو پالیں گے۔نواز شریف نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور لیاقت بلوچ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان سے ملاقات کے بعد ہمیں بتایا کہ خان صاحب کا مطالبہ ہے کہ اگر حکومت 10 حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرا لے تو لانگ مارچ ختم کیا جا سکتا ہے، عمران خان کے مطالبے کے حل کے لئے ان کے پاس جانے کو بھی تیار ہوں لیکن اس وقت ملک کسی بھی لانگ مارچ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات اتنے اچھے نہیں، نئی افغان حکومت کے ساتھ بہترتعلقات چاہتے ہیں۔چین کے علاوہ ایساکوئی ہمسایہ نہیں جس کے ساتھ تعلقات قابل فخرہو۔میری خواہش ہے کہ ہم سب ملک کر پاکستان کو مضبوط کریں۔ایک پارٹی نے ہمیشہ حکومت میں نہیں بیٹھے رہنا۔ہماری سلامتی کا دارومدار ہے کہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان کو مضبوط کریں۔

لانگ مارچ اور آادی مارچ کی باتیں کرنے والے آئیں اور پاکستان کو مضبوط کریں۔پاکستان مضبوط ہو جائے تو لانگ مارچ بھی کر لیں۔ایک سال بعد ایسی باتیں کرنے کا وقت نہیں۔ایک سال بعد آپ کن باتوں پر آگئے ہیں۔کانفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار ،غلام احمد بلور ، وزیر اعلی بلوچستان عبدالمالک بلوچ، حاصل بزنجو، وزیر دفاع خواجہ آصف ، بی این پی ( عوامی) کی سینیٹر کلثوم پروین جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام شریک ہیں۔ اس کے علاوہ خورشید شاہ، رضا ربانی،وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ، افراسیاب خٹک، محمود خان اچکزئی بھی موجود ہیں۔