قومی اسمبلی میں غزہ پراسرائیلی جارحیت کے خلاف قراردادمتفقہ طورپرمنظور،فلسطینیوں کی بھرپوراخلاقی سفارتی وہرطرح کی حمایت جاری رکھنے کااعادہ ،اسرائیل کو الٹی میٹم نہ دیا گیا تو درندے دیگر مسلم ممالک کا رخ کریں گے، اراکین اسمبلی ،وزیراعظم نواز شریف نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو نسل کشی کا نام دیا ہے،سرتاج عزیز،پاکستان اقوام متحدہ اوراسلامی سربراہی کانفرنس ودیگر عالمی فورمزپر فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کر رہا ہے، جمہوری حکومت کا رد عمل عوامی احساسات اور جذبات کا آئینہ دار ہے،رمضان کے مبارک مہینے میں غزہ کو جارحیت کا نشانہ بنایا گیا،جن حالات میں اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوا اس کو بلا اشتعال جارحیت کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا، مشیرامورخارجہ کا قومی اسمبلی میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے پالیسی بیان

منگل 5 اگست 2014 08:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5اگست۔2014ء)قومی اسمبلی میں غزہ پراسرائیلی جارحیت کے حوالے سے حکومت کی جانب سے پیش کردہ قراردادمتفقہ طورپررائے شماری کے بعدمنظورکرلی گئی ،قراردادمیں اسرائیلی جارحیت کی بھرپورمذمت اورفلسطینیوں کی بھرپوراخلاقی سفارتی وہرطرح کی حمایت جاری رکھنے کااعادہ کیاگیاہے ،قراردادپربحث کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین نے بھی اسرائیل کوغاصب قراردیتے ہوئے نہ صرف فلسطینیوں کی بھرپورحمایت کی بلکہ اس حوالے سے پاکستان کواپناکرداراداکرنے پرزوردیا۔

پیرکے روزقومی اسمبلی کے اجلاس میں غزہ پراسرائیلی جارحیت کے خلاف پیش کردہ قراردادپربحث کے دوران جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈرصاحبزادہ طارق اللہ نے کہاکہ تمام مسلم ممالک فلسطین کی حمایت میں اس طرح آوازنہیں اٹھارہے کہ جس طرح اٹھانی چاہئے تاہم مسلم ممالک میں فلسطین کے حق میں گزشتہ جمعہ کے روزاسرائیل کی جارحیت کے خلاف بھرپورمظاہرے کئے گئے ۔

(جاری ہے)

طارق اللہ نے سعودی فرمانرواکی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت اورمسلمانوں کے اتحادکے حوالے سے دیئے گئے بیان کاخیرمقدم کرتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ اس وقت امت مسلمہ کی تمام نگاہیں پاکستان پرہیں کہ وہ آگے بڑھ کرکوئی اقدام کریں ۔انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کواس بات کاعلم ہوناچاہئے کہ اسرائیلی درندے فلسطین اورفلسطینی مسلمانوں کے خاتمے کے بعددیگرمسلمان ممالک کارخ کریں گے ۔

ان کاکہناتھاکہ بجائے خاموشی سے فلسطینیوں کی لاشوں کانظارہ کرنے کے اسرائیل کوایسے بھی حالات سے دوچارکرناچاہئے ۔جماعت اسلامی کے راہنماکاکہناتھاکہ تمام مسلم ممالک کواسرائیل کوچوبیس گھنٹے کاالٹی میٹم دیناچاہئے اوربصورت دیگرقرون وسطیٰ کے مسلمانوں اورصلاح الدین ایوبی بن کرآگے بڑھناچاہئے ،

جمعیت علماء اسلام (ف)کی راہنمانعیمہ کشورکاکہناتھاکہ جمعیت علماء اسلام (ف)نے غزہ پررمضان میں بھی ایک قراردادجمع کروائی تھی ۔

رمضان کامہینہ اورعیدکے لمحات بھی فلسطینیوں نے اسرائیلی بمباری تلے گزاری ۔انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کے بیشترممالک نے اسرائیل کے مظالم کی روک تھام صرف مخالفت کرکے کی ہے ۔انہوں نے زوردیاکہ پاکستان کوآگے بڑھ کربطورایک ایٹمی طاقت اپناکرداراداکرناچاہئے کیونکہ وہ امت مسلمہ کی تمام نگاہوں کامرکزہے ،پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے میاں عبدالمنان نے غزہ پراسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ مسلمان اپنے دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ان کوکچھ نظرنہیں آتا،مسلم لیگ ن کے رہنماکاکہناتھاکہ غزہ کے سکول پربمباری پینے کے پانی کی عدم فراہمی اورفلسطینی عوام پرظلم ناقابل برداشت ہے ۔

انہوں نے کہاکہ غزہ پراسرائیلی جارحیت وسازش کے تانے بانے کچھ پاکستانیوں سے ملتے ہیں کیونکہ غزہ پراسرائیلی حملہ سے قبل ہی پاکستان میں کچھ لوگوں نے قوم اورملک کوتقسیم کرناشروع کردیاتھا۔نفیسہ شاہ کاکہناتھاکہ غزہ پرگزشتہ کئی برس سے ناکہ بندکی گئی ہے ،عوام کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے ،حتیٰ کہ فلسطینی عوام کوخصوصی شناختی کارڈجاری کئے ہوئے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ غزہ کودنیاکی سب سے بڑی اوپن ایزجیل میں تبدیل کردیاہے ،پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنماکاکہناتھاکہ پاکستان کاموٴقف یہ ہوناچاہئے کہ غزہ کی ناکہ بندی ختم ہواورفلسطینیوں کودرپیش ذلت کم ہو۔انہوں نے زوردیاکہ پاکستان کواس قراردادسے آگے بڑھناہوگا۔انہوں نے کہاکہ غزہ کے ساتھ ساتھ عراق کوبھی تقسیم کیاجارہاہے کیونکہ مسلم امہ میں کوئی قیادت موجودنہیں ہے ۔

پاکستان تحریک انصاف کے غلام سرورخان کاکہناتھاکہ تمام غیرمسلم دنیامیں توفلسطین کے حق میں جلسے جلوس نکلے تاہم کسی اسلامی ملک میں اس طرح سے جلسے جلوس نہیں منعقدہوئے ۔

انہوں نے کہاکہ سرتاج عزیزنے ایوان کوبتایاکہ اوآئی سی کااجلاس بارہ اگست کوہوگااگرایساہے توہمیں اوآئی سی سے جان چھڑادیناچاہئے ۔انہوں نے کہاکہ مسئلہ فلسطین پرمسلم ممالک ،پاکستانی قیادت ،وزیراعظم کسی نے بھی کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے مطالبہ کیاکہ غزہ پراسرائیلی جارحیت مخالف قراردادمیں داعش اوران کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کی بھی مذمت کی جائے جوکہ عراق میں انبیاء واولیاء کرام کے مزارات کوتباہ وبربادکررہی ہے ۔متحدہ قومی موومنٹ کے شیخ صلاح الدین نے کہاکہ اگرحکمران جماعت اسلامی سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکے نقش قدم پرچلتے ہوئے کسی اسلامی سربراہی کانفرنس کاانعقادکرتی توشایدیہ بہتراقدام ہوتا۔

انہوں نے اپنی جماعت کی جانب سے غزہ پراسرائیلی جارحیت کی بھرپورمذمت کی ۔اس موقع پروزیراعظم کے مشیربرائے امورخارجہ سرتاج عزیزنے ایوان میں غزہ پراسرائیلی جارحیت کی مذمت ،فلسطینیوں کی بھرپورحمایت ،اسرائیلی جارحیت کوروکنے کیلئے اقدامات کرے ،سلامتی کونسل کی جانب سے متحدہ کااجلاس طلب کرنے کے نکات پرمبنی ایک مذمتی قراردادپیش کی جس کوایوان نے رائے شماری کے بعدمنظورکرلیااورکسی رکن نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پورا عالم اسلام ایک کرب سے گزر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی نیا مسئلہ ہوتا ہے تو پاکستانی پارلیمان اس پر بات کرتی ہے،دنیا کی نگاہیں پاکستان اور پاکستان کی نمائندگی یہ پارلیمان کرتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آج فلسطینی تنظیموں کو دہشتگرد کہا جارہا ہے،2001ء کے بعد دہشتگردی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے عنوان بھی بدل دئیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جن دہشتگرد تنظیموں کی کارروائیوں کی دنیا بھر نے مذمت کی انہی تنظیموں کے سربراہان اسرائیل کے وزیراعظم بنے۔مولانا فضل الرحمان نے زور دیا کہ پاکستان کو خود ہی یہاں او آئی سی کا اجلاس طلب کرکے اسکی میزبانی کرنی چاہئے تھی۔

انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی داخلی صورتحال کا حل بھی مسلم امہ نے ہی کرنا ہے۔جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کو فوری طور پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کرنا چاہئے تاکہ اس قتل عام کو روکا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ان حالات میں جو توانائیاں ہم پاکستان میں مارچوں میں ضائع کر رہے ہیں ان کو غزہ کی حمایت میں ریلیوں میں تبدیل کردینا چاہئے۔

ادھروزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں غزہ کو جارحیت کا نشانہ بنایا گیا،جن حالات میں اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوا اس کو بلا اشتعال جارحیت کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا،وزیراعظم محمد نواز شریف نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو نسل کشی کا نام دیا ہے،پاکستان اقوام متحدہ اوراسلامی سربراہی کانفرنس ودیگر عالمی فورموں پر بھی فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کر رہا ہے، جمہوری حکومت کا رد عمل عوامی احساسات اور جذبات کا آئینہ دار ہے۔

پیر کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے پالیسی بیان دیتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افسوس اس بات پر ہے کہ آج عالم اسلام کے محتلف حصوں میں زیادہ تر لوگ نہ ہماری طرح رمضان کا مہینہ گزار سکے اور نہ ہی ہماری طرح عید منا سکے،عالم اسلام کادل،مشرق وسطیٰ آج بدقسمتی سے گوناگوں پریشانیوں اور اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت مسلمان ہمارے دل ان تمام بھائیوں اور بہنوں کے دکھ اور درد میں تڑپ رہے ہیں جو خوف،افلاس اور خانہ جنگی کے حالات سے دوچار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سب نے وہ دل خراش مناظردیکھے ہیں کہ رمضان المبارک کہ پورے مہینے کے دوران معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رہا۔اسرائیل کے ہوائی اور زمینی افواج کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں کی تعداد میں نہتے فلسطینی شہری جن میں عورتوں اور بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے،جام شہادت نوش کرتے رہے،حتی کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں جس سکول میں سینکڑ وں خاندانوں اور بچوں نے پناہ لے رکھی تھی اسے بھی تباہ کردیا۔

غزہ کے واحد بجلی گھرکو مسمار کردیا تاکہ پانی کے ٹیوب ویل سارے بند ہوجائیں اور لوگ پانی کو بھی ترسنے لگیں۔اب غزہ میں نہ خوراک ہے،نہ دوائی،نہ پانی، نہ بجلی بلکہ اب تو کوئی محفوظ جگہ بھی نہیں جہاں عورتیں اور بچے پناہ لے سکیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ جمہوری حکومت کا رد عمل عوامی احساسات اور جذبات کا آئینہ دار ہے۔وزیراعظم نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اسرائیلی حملوں کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا،دفتر خارجہ نے اپنے بیانات میں تواتر کے ساتھ اسرائیلی بربریت کی پرزور الفاظ میں مذمت کی،اقوام متحدہ کی بشری حقوق کی کونسل جنیوا میں ہمارے مستقل مندوب نے اسلامی تنظیم او آئی سی کی طرف سے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی،اس طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نیویارک میں بھی ہمارے مندوب بھرپور انداز میں یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں ،حکومت حملے شروع ہونے سے لیکر آج تک غزہ کی صورتحال پر مسلسل توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔

25جولائی کو جمعة الوداع کے موقع پر پاکستان بھر میں یوم احتجاج منایا گیا،ہر شہر میں فلسطینیوں کی حمایت میں جلوس نکالے گئے اور قومی پرچم سرنگوں رہا۔اسی روز وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اقوام متحدہ کی اپیل پر 10کروڑ روپے کا عطیہ دیا جائے گا،خوراک اور ادویات کیلئے اس سلسلے میں حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ہر سطح پر رابطے میں ہے۔ان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل،سلامتی کونسل کے مستقل ارکان،سیکرٹری جنرل او آئی سی اوراہماسلامی ممالک شامل ہیں،ہم اقوام متحدہ غیر وابستہ تنظیم،اسلامی تنظیم سمیت ہر فورم پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

غزہ پر اسرائیلی جارحیت رکوانے کے حوالے سے مسقبل کے اہداف کی نشاندہی کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے ایوان کو بتایا کہ ہماری کوششوں کے اہداف کا لب لباب یہ ہے،اسرائیلی جارحیت کی بھرپور انداز میں مذمت کی جائے،فوری جنگ بندی کیلئے اقدام کیا جائے،متاثرین کیلئے فوری امداد فراہم کی جائے،اس سلسلے میں سب سے اہم قدم غزہ کے محاصرے کا خاتمہ کرانا ہے،مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اور فلسطین کے مسئلے کے منصفانہ حل کیلئے سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کرایا جائے تاکہ دو ریاستوں کے اصول پر خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام جلد از جلد ہوسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 23جولائی کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان نے او آئی سی کی طرف سے ایک قرارداد پیش کی ہے جسے متفقہ طور پر منظور کیا کہ مقبوضہ فلسطین میں بین الاقوامی قوانین کی پابندی کی جائے ،ایک اور قرارداد میں انسانی حقوق کی کونسل نے انسانی حقوق کی مسلسل اور شدید خلاف ورزیوں کی مذمت کی اورکونسل کو ان تمام خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرانے کا حکم بھی دیا گیا۔

46 کونسل کے ممبران میں سے 29 نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے،16 نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور صرف ایک ووٹ مخالفت میں پڑا۔سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے مسئلے خصوصاً فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور بیت المقدس کی آزادی کے بارے میں پاکستان کا مؤقف ہمیشہ واضح رہا ہے،پاکستان نے فلسطین کے مسئلے کو ہمیشہ اپنا مسئلہ سمجھا ہے،پاکستان ان تمام عالمی کوششوں کی حمایت کرتا رہے گا جو مسئلہ فلسطین کے پرامن اور منصفانہ حل کے متلاشی ہیں۔

آج اس معزز ایوان میں جو قرارداد پیش کی جارہی ہے یہ ہمارے بنیادی اہداف کے عین مطابق ہے،ساتھ ساتھ یہ مسئلہ فلسطین پر ہمارے تاریخی اوراصولی مؤقف کا آئینہ دار بھی ہے۔مجھے امید ہے کہ یہ معزز ایوان اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرکے اس اہم بین الاقوامی مسئلے پر ہماری یکجہتی کا مظاہرہ کرے گا۔