طالبان کے مختلف دھڑوں میں بٹنے سے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا،امریکی اخبار،دہشت گرد اپنی سرگرمیوں کے لئے مجرمانہ انداز کارروائیوں کے ذریعے فنڈز اکھٹا کر رہے ہیں،کراچی ، اسلام آباد سمیت دیگر علاقوں میں ایسی کارروائیوں میں اضافہ ہوا،رپورٹ

جمعہ 1 اگست 2014 05:53

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔یکم اگست۔2014ء) طالبان کے مختلف دھڑوں میں بٹنے سے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہواہے،دہشت گرد اپنی سرگرمیوں کے لئے مجرمانہ انداز کارروائیوں کے ذریعے فنڈز اکھٹا کر رہے ہیں،کراچی اور اسلام آباد سمیت دیگر علاقوں میں ایسی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔امریکی اخباروال اسٹریٹ جرنل میں شائع رپورٹ ک مطابق سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبان میں بڑھتی گروہ بندی سے امیر تاجروں اور بااثر شخصیات کے اغوا میں اضافہ ہو گیا ہے۔

پاکستانی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق مختلف دھڑوں میں بٹی تحریک طالبان پاکستان گزشتہ دو سال سے اس طرح کے زیادہ جرائم کر رہی ہے۔عسکریت پسند گروپ اس طرح کی کارروائیوں کے لئے زیادہ فعال ہیں۔

(جاری ہے)

متاثرہ خاندان پولیس پر بد اعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ ہی درج نہیں کراتے بلکہ نجی طور پر اغوا کاروں سے مذاکرات کرکے تاوان اداکرتے ہیں۔

سیکورٹی حکام نے خبردار کیا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے مضبوط ٹھکانوں کے خلاف فوجی آپریشن سے شہروں میں عسکریت پسندوں کی ایک نئی لہر آئی ہے اور اس کے نتیجے میں مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کراچی عسکریت پسندوں کے لئے ایک اہم مالیاتی ذریعے میں تبدیل ہو چکا ہے۔کراچی پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ کے سربراہ نیاز کھوسو کا کہنا ہے کہ طالبان زیادہ تر شہر کے نسلی پشتون علاقوں کو نشانہ بنا تے ہیں عسکریت پسندوں کی قیادت میں زیادہ تر پشتون ہیں اور پشتون تاجر پشتون ڈرائیوروں، باورچیوں اور گارڈز کو رکھتے ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف نے ستمبر میں کراچی میں سیکورٹی آپریشن اس امید سے شروع کیا کہ ملک کے مالیاتی مرکز اور اہم بندرگاہ میں امن و امان قائم کیا جاسکے لیکن پولیس کے مطابق آپریشن طالبان کے اغوا کی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہاہے۔ کراچی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ فاروق اعوان کا کہنا ہے کہ یہ عناصر کنٹرول سے باہر ہیں

۔

پنجاب پولیس افسر کا کہنا ہے کہ طالبان آمدنی کے ایک حصے کے بدلے اغوا کاروں کے گروہوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں ان کی پناہ گاہوں تک رسائی رکھتے ہیں کچھ کیسز میں عام جرائم پیشہ افراد مغوی افراد کو طالبان سے منسلک گروہوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں جو متاثرین کے خاندانوں سے بہت زیادہ تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

جنوری میں ایک ہائی پروفائل کیس میں طالبان سے منسلک ایک گروپ نے ملتان سے پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکرمعظم کالرو کواغوا کر لیا جسے تین ماہ تک کوہاٹ میں رکھا گیا، اس کیس کی تحقیق سے وابستہ دو پولیس حکام کے مطابق اس کے خاندان والوں کی طرف سے50لاکھ روپے(پانچ لاکھ ڈالر) کی ادائیگی کے بعد معظم کالروں کی رہائی ممکن ہو ئی۔تاوان کی اتنی ہی رقم دیگر مغوی کی رہائی میں طالبان کوتاوان میں ادا کی گئی۔

طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ا س بات کی تردید کی کہ طالبان اغوا کار گروہوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام اپنے دشمنوں کے اغوا اور قتل کا جواز فراہم کرتا ہے ہم دوسرے دشمنوں کی رقم لے سکتے ہیں، لیکن ہم بے گناہ مسلمانوں کو نشانہ نہیں بناتے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کاتجارتی مرکز کراچی طویل عرصے سے اغوا کی وارداتوں کا مرکز ہے، لیکن طالبان اور اس کے دیگر دھڑوں کے ملوث ہونے سے ان جرائم میں اب تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔طالبان نے اغوا کی وارداتوں کا سلسلہ اسلام آبا د اور دیگر ان علاقوں تک بھی پھیلا دیا ہے جہا ں یہ جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔