سپریم کورٹ کا چیف الیکشن کمشنر سمیت اہم حکومتی اداروں میں سربراہان کی عدم تقرری اور اس حوالے سے خواجہ آصف کیس کی وجہ سے حائل مشکلات اور آئینی رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے لارجر بنچ کی تشکیل کا حکم، لارجر بنچ کا فیصلہ کریگا کہ خواجہ آصف کیس پر نظرثانی یا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے یا نہیں؟، اٹارنی جنرل کو وفاقی حکومت سے ہدایات حاصل کرکے تحریری طور پر آگاہ کرنیکی ہدایت، جن اداروں کے سربراہان کی تقرری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ان کا جلداز جلد تقرر کیا جائے،چیف جسٹس، آئے روز معاملات عدالت میں آجاتے ہیں کوشش کریں حکومت خود ہی حل کرلیا کرے، جسٹس دوست محمد

جمعہ 25 جولائی 2014 06:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25جولائی۔2014ء) سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر سمیت اہم حکومتی اداروں میں سربراہان کی عدم تقرری اور اس حوالے سے خواجہ آصف کیس کی وجہ سے حائل مشکلات اور آئینی رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے لارجر بنچ کی تشکیل کا حکم دے دیا ہے جس میں جسٹس اعجازچوہدری اور جسٹس گلزار احمد کو بھی شامل کیا جائے اور کہا ہے کہ لارجر بنچ اس بات کا فیصلہ کریگا کہ آیا خواجہ آصف کیس پر نظرثانی یا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے یا نہیں‘ اٹارنی جنرل کو عدالت نے ہدایت کی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے خواجہ آصف کیس میں نظرثانی یا ری وزٹ کرنے کے حوالے سے ہدایات حاصل کرکے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کریں جبکہ آئی ایس آئی کے ملازم غلام رسول کیس میں عدالت نے فیصلے تک درخواست گزار کی جانب سے اپلائی کردہ ملازمت بارے معاملہ جوں کا توں رکھنے کا بھی حکم دیا ہے‘

چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف ایس ٹی میں چیئرمین جبکہ پنجاب میں ممبران کی عدم تقرری کی وجہ سے بڑی تعداد میں مقدمات زیر التواء ہیں‘ حکومت قانون سازی میں اتنی تاخیر کیوں کررہی ہے؟ یہ معاملہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے‘ جن اداروں کے سربراہان کی تقرری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ان کا جلداز جلد تقرر کیا جائے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دئیے کہ حکومت تمام معاملات شفاف طریقے سے حل کرکے ہمیشہ کیلئے عدالتی شکایات کا ازالہ کیوں نہیں کردیتی‘ آئے روز معاملات عدالت میں آجاتے ہیں کوشش کریں کہ اس طرح کے معاملات حکومت خود ہی حل کرلیا کرے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ غلام رسول کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کی بجاء آوری میں خواجہ آصف کیس رکاوٹ بن گیا ہے اور اس کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں اسلئے اہم اداروں کے سربراہان کی تقرری کا معاملہ حل نہیں ہورہا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اس پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنا تھی وہ تو نہیں کی گئی اس پر اے جی نے کہا کہ آپ ہماری استدعاء کو ہی نظرثانی سمجھ لیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کس قانون کے تحت ہم اس درخواست کو نظرثانی قرار دے دیں‘ حکومت کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان پر عملدرآمد کرنا پڑے گا

اس پر اے جی نے کہا کہ فیڈرل سروسز ٹربیونل کے سربراہ کا فیصلہ ہوگیا ہے جلد ہی اس کی تقرر کردی جائے گ اس حوالے سے وزیراعظم کو سمری بھی بھجوادی گئی ہے باقی آپ نے جو ہدایات دے رکھی ہیں انہیں آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی اور کیس میں اس بارے بات کی گئی ہے تو اس پر اے جی نے ایم ڈی پی ٹی وی کی بات کی۔

وقفے کے بعد اٹارنی جنرل دوبارہ پیش ہوئے اور کہا کہ عبدالمالک ایم ڈی پی ٹی وی کیس میں یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا۔ پنشن کیس میں عدالتی ہدایت کو قانون کے مطابق قرار نہیں دیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ تو ہم نے اپنے فیصلے پر خود ہی نظرثانی کی تھی آپ کیس کے میرٹ پر بات کریں۔ آپ ان پیراگرافس کا ریویو چاہتے ہیں یا نہیں۔ اے جی نے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا۔

یہ ہدایت 1992ء کے عدالتی فیصلے سے بھی میل نہیں کھاتی۔ اس کیس میں عدالتی اختیار سماعت کی بات کی گئی ہے کہ آیا عدالت اپنے کسی مقدمے کو ری وزٹ کرسکتی ہے یا نہیں۔ نظرثانی کا اختیار بھی کسی حد تک ہے اس کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ جسٹس ناصر نے کہا کہ معاملہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا نہیں۔ آپ ریویو کی بات کررہے ہیں آپ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں کیا آپ نے اس حوالے کیساتھ درخواست دائر کی ہے یا نہیں۔

اس میں بنیادی حقوق کا سوال نہیں ہے‘ عوامی مفاد کا بھی معاملہ نہیں ہے آپ کو کیسے سنیں یہ تو رجسٹرار کا نوٹ تھا جبکہ جس کیس کی بات کررہے ہیں وہ عدالتی فیصلہ ہے۔ بعض ججز موجود نہیں جنہوں نے خواجہ آصف کیس کا فیصلہ دیا تھا اگر ریویو کی درخواست آتی تو موجودہ ججز اس کیس کی سماعت کرکے فیصلہ آگیا ب تو نظرثانی کی درخواست ہی دائر کی جاسکتی ہے۔

آپ نے اپنے کنسائز سٹیٹمنٹ میں بھی اس پر بات نہیں کی اور کوئی استدعاء بھی نہیں کی ہے کہ آیا اس پر نظرثانی یا ری وزٹ کیا جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت اپنے رولز کے تحت اختیارات کا استعمال کرسکتی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ محض اپنے بیان پر کچھ حاصل نہیں کرسکتے اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آپ نظرثانی کی درخواست دائر کرتے۔

جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آپ کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ آپ عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس پر عمل کرنے میں کچھ مشکلات ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے مشکل کا ذکر ضرور کیا ہے آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ نے کمیشن مقرر کررکھا ہے کچھ قوانین کی ترمیم کی بھی بات کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیڈا اور آسٹریلیا کے قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کینیڈا اور آسٹریلیا کے قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بیان میں اس کیس کو چیلنج کیا اور نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی۔ درخواست کے نکات مختلف ہوتے اگر آپ اس کو دیکھ لیتے۔ اے جی نے کہا کہ ایم ڈی پی ٹی وی مالکل کیس کا جائزہ لے لیا۔ اس میں اس حوالے سے بات کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ضمن میں کیا سوالات اٹھائے گئے ہیں؟ تو اے جی نے بتایا کہ براہ راست کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔

غالباً سوال نمبر 7 اس سے مطابقت رکھتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پیرا گراف نمبر 3 دیکھ لیں اس میں آپ نے خواجہ آصف کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ کیا حکومت آئے روز آنے والی شکایات کا تدارک نہیں کرنا چاہتی۔ اگر ان شکایات کا ازالہ کردیا جاتا تو مسائل ہی پیدا نہ ہوتے۔ اے جی نے کہا کہ اس معاملے کیلئے کمیشن کی ضرورت نہیں تھی۔

آرٹیکل 240 واضح ہے۔ کمپنیز آرڈیننس کی تحت ہر کمپنی کے اپنے رولز ہیں۔ دوسرے ممالک بھارت وغیرہ میں بھی اس حوالے سے کمیشن کا معاملہ وزیراعظم نے کرنا ہوتا ہے یہ سکیم ذرا مختلف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ کچھ آئینی پروویژنز کی وجہ سے سربراہان کا تقرر ممکن نہیں۔ جن اداروں کے سربراہان کی آسامیاں خالی ہیں اگر ان کے رولز موجود ہیں تو پھر یہ کیوں خالی ہیں۔

اگر ان کے رولز موجود ہیں تو پھر یہ کیوں خالی ہیں ان کو تو پر کیا جانا چاہئے تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو خالی سیٹیں ہیں انہیں ریگولیٹر کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اے جی نے کہا کہ کچھ آسامیوں کو پر کردیا گیا ہے۔ میں نے خط لکھا تھا جس پر عمل کردیا گیا ہے۔ اسٹیٹ لائف انشورنس‘ نیپرا اور فرٹیلائزرز کے حوالے سے تعیناتی کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹربیونل کے چیئرمین کا تقرر کیا ہوا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کا تقرر ہائیکورٹ کی مشاورت سے کرنا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سروسز ٹربیونل کا چیف کیوں نہیں بنایا گیا۔ بڑی تعداد میں ٹربیونل میں کیس زیر سماعت ہیں اور یہ سیٹ کب تک خالی رکھی جاسکتی ہے۔ پنجاب میں بھی ٹربیونل کے ممبران کا تقرر نہ ہونے سے بھی مقدمات کی سماعت نہیں ہورہی۔ اے جی نے کہا کہ قانون سازی مکمل ہونے والی ہے صرف وہی رکاوٹ ہے۔ پارلیمنٹ پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہوتا‘ قواعد کے تحت چلنا ہوتا ہے۔

سینٹ میں حکومت کی اکثریت نہیں ہے اسلئے بھی مشکلات ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ تحریری طور پر لکھ کر دے دیں۔ قانون سازی کی وجہ سے ٹربیونل کے سربراہ کا معاملہ کیوں حل نہیں کیا جارہا۔ غلام رسول کے وکیل نے کہا کہ معاملات بہت خراب ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت ہوئی ہے وہ موجود ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پرویژن کے تحت مشاورت کے حوالے سے ہمارا آئین خاموش ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ آصف کیس کے حوالے سے اس پر بات نہیں کی گئی۔ ان چیمبر کیس میں معاملے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اے جی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے کو بھی مالک کیس کیساتھ سنا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چیمبر میں جو کیس سنا گیا ہے اس میں خواجہ آصف کیس کا حوالہ آیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ شفافیت کا ہے اسلئے چاہتے ہیں کہ خواجہ آصف کیس کی وجہ سے جو مشکلات ہیں وہ دور ہوجائیں

اس پر عدالت نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ عبدالمالک کیس کو فالو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایف ایس ٹی کے چیئرمین کے تقرر کا معاملہ مکمل ہوچکا ہے‘ انتخاب ہوچکا ہے وزیراعظم نے صرف منظوری دینی ہے‘ دو ہفتے میں یہ تقرری کردی جائے گی۔

بڑے معاملے میں جس میں مختلف اداروں کے سربراہان کی تقرری میں حکومت کو کچھ مشکلات درپیش ہیں‘ اے جی نے حوالہ دیا اور کہاکہ وفاقی حکومت کو خواجہ آصف کیس کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں جس میں اس عدالت نے ہدایات جاری کررکھی ہیں۔ اداروں کے سربراہان کی تقرری کیلئے طریقہ کار وضع کردیا ہے۔ مختلف ادارے اپنے قواعد و ضوابط رکھتے ہیں اور ان کو اس کی روشنی میں کمیشن پر کررہا ہے۔

اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ ان کچھ اتھارٹیز کا اپنا ہی رولز اور پروسیجر ہے اسلئے انہیں قانون کے مطابق تقرریاں کرنی ہیں۔ خواجہ آصف کیس رکاوٹ ہے۔ وفاقی حکومت نے اس کیس میں نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی تاہم اٹارنی جنرل نے ایک اور معاملہ جوکہ ایم ڈی پی ٹی وی سے متعلقہ تھا‘ کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے جس میں عدالتی ہدایات پر عملدرآمد کا معاملہ زیر سماعت رہا ہے۔

ہائیکورٹ نے بھی ان ہدایات پر ایم ڈی کو فارغ کیا تھا تاہم چیمبر میں سماعت کے دوران اس فیصلے کو استعمال کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں خواجہ آصف کیس کی ہدایات پر نظرثانی یا ری وزٹ کیا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے لارجر بنچ قائم کیا جائے گا جو اس کا جائزہ لے گا۔ ان میں وہ ججز بھی شامل کئے جائیں جن میں جسٹس اعجاز احمد چوہدری اور جسٹس گلزار احمد بھی ہوں جنہوں نے خواجہ آصف کیس کا فیصلہ کیا تھا۔

لارجر بنچ میں ان کو شامل کیا جائے۔

اٹارنی جنرل اس دوران وفاقی حکومت سے اس فیصلے کو ری وزٹ کرنے اور نظرثانی کیلئے ہدایات حاصل کریں۔ عبدالرحیم بھٹی نے کہا کہ ابھی تک ایف ایس ٹی میں چیئرمین کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ میرا کیس نہیں سناجارہا اس سے الگ معاملہ سنا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بعض اوقات اہم معاملہ سامنے آجاتا ہے آپ کا کیس زیر سماعت رہے گا۔

ہم آپ کو بھی سنیں گے مگر ہم لارجر ایشو سننا چاہتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے وکیل نے کہا کہ جس کی یہ بات کررہے ہیں وہ تقرریاں نہیں ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عبدالرحیم بھٹی نے کہا کہ آئی ایس آئی نے پوسٹ کے حوالے سے اشتہار دیا تھا مگر تقرری نہیں کی ہے تاہم آئی ایس آئی کے وکیل نے کہا کہ کچھ وقت کیلئے اس میں تقرری نہیں کی جائے گی اور جب تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس میں پیشرفت نہیں ہوگی۔ عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ جوں کا توں رہے گا تاکہ درخواست گزار کا حق مجروح نہ ہو۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔