پا کستا ن اور افغانستا ن نے شدت پسندوں پر قابو نہ پایا تو القاعدہ پھر سے جڑ پکڑ سکتی ہے، امریکی کمانڈر ، افغان سکیورٹی فورسز کو اپنے طور پر انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، افغانستان سے مکمل انخلاء کے لیے سن دو ہزار سترہ کی حتمی تاریخ مقرر کرنے کے لیے وائٹ ہاوٴس کو فوج نے نہیں کہا،جنرل جوزف ڈنفورڈ

ہفتہ 19 جولائی 2014 08:07

وا شنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جولائی۔2014ء)امر یکی فو ج کے اعلیٰ کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان نے اپنے علاقوں میں شدت پسندوں پر قابو نہ پایا تو القاعدہ پھر سے افغانستان میں پھیل جائے گی۔ افغانستان سے مکمل انخلاء کے لیے سن دو ہزار سترہ کی حتمی تاریخ مقرر کرنے کے لیے وائٹ ہاوٴس کو فوج نے نہیں کہا ہے، انھو ں نے یہ بات سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتائی۔

ڈنفورڈ کو میرین کور کے آئندہ کمانڈر کے طور پر نامزد کیا گیا ہے اور وہ اپنی نامزدگی کے حوالے سے ہی اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔انہوں نے کہا کہ افغان اسپیشل فورسز 2017ء تک اپنے بل بوتے پر دہشت گرد گروہ القاعدہ پر دباوٴ نہیں ڈال سکیں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر افغانستان اور پاکستان نے اپنے اپنے علاقوں میں شدت پسندوں پر قابو نہ پایا تو اس بات کا بہت خطرہ ہے کہ القاعدہ افغانستان میں پھر سے پھیل جائے گی اور پھر سے امریکا پر حملے کرنے کے منصوبے بنانا شروع کر دے گی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سن دو ہزار سولہ میں بھی افغان سکیورٹی فورسز کو اپنے طور پر انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔جنرل ڈنفورڈ کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے مکمل انخلاء کے لیے سن دو ہزار سترہ کی حتمی تاریخ مقرر کرنے کے لیے وائٹ ہاوٴس کو فوج نے نہیں کہا تھا۔انہوں نے کہا کہ امریکی اور افغان عسکری قیادت کو امریکی حکام سے سن دو ہزار سترہ کے لیے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں تھوڑا اور مبہم رہنے کی توقع تھی اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ دشمن کو بین الاقوامی فورسز کے چلے جانے کا پیغام نہ دیا جائے۔

جب ان سے امریکا کے انخلاء کے منصوبے میں ممکنہ تبدیلی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ موجودہ شیڈول کے تحت سن دو ہزار سولہ میں افغانستان میں تعینات امریکی فورسز مختلف علاقوں سے کابل منتقل ہو جائیں گی جس سے انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں امریکی فورسز کا تعاون بڑی حد تک کم ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر سن دو ہزار سولہ میں امریکا نے مزید مدد کی ضرورت کا فیصلہ کیا تو حکام کو اس سے ایک برس پہلے اس پر غور شروع کرنا ہو گا تاکہ کابل کے علاوہ دیگر علاقوں میں لڑائی میں معاونت کے لیے امریکی اسپیشل آپریشنز فورسز کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما رواں برس کے آخر تک افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کا حکم دے چکے ہیں۔ تاہم تقریبا دس ہزار فوجی بدستور وہاں تعینات رہیں گے اور آئندہ برس کے آخر تک ان کی تعداد بھی نصف رہ جائے گی جبکہ سن دو ہزار سولہ کے آخر تک یہ تعداد ایک ہزار رہ جائے گی۔ ڈنفورڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کے علاوہ نیٹو کے دیگر رکن ملک بھی چار ہزار فوجی فراہم کریں گے۔

متعلقہ عنوان :