شمالی وزیر ستان سے نقل مکانی کرنے والوں میں وبائی امراض پھیلنے کا خطرہ، صحت سے متعلق شعبوں میں اقدامات نا کیے گئے تو ان شہروں میں مختلف بیماریاں بالخصوص پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں وباء کی صورت اختیار کر سکتی ہیں‘جبار احمد خان ،دو لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو قطرے پلائے گئے ہیں،یونیسف،والدین اپنے بچوں کو بغیر ہچکچاہٹ کے پولیو کے قطرے پلوا رہے ہیں، ڈاکٹر بلال

جمعہ 18 جولائی 2014 08:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18جولائی۔2014ء)نواز شریف انتظامیہ کے سینئیر عہدیداروں کے مطابق شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے رجسٹرڈ افراد کی تعداد 10 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں سے بیشتر قبائلی علاقے سے متصل صوبہ خیبرپختونخواہ کے قریبی اضلاع میں قیام پذیر ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی خوارک، صحت اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حتی الوسع کوشش کی جارہی ہے۔

بین الاقوامی امدادی تنظیم آکسفیم کے پاکستان میں سربراہ جبار احمد خان نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اس امدادی سرگرمی کو ایک بڑا چلینج قرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر صحت سے متعلق شعبوں میں اقدامات نا کیے گئے تو ان شہروں میں مختلف بیماریاں بالخصوص پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں وبا کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔

(جاری ہے)

”لوگ اسکولوں میں رہ رہے ہیں، جیسے جو خالی جگہ ملی وہیں رہ گیا ہے۔

جو افورڈ کر سکتے تھے وہ کرایے کے گھروں میں چلے گئے۔ تو اگر ایک لیٹرین یا پانی مہیا کرنے کا نظام 10 لوگ استعمال کرتے تھے مگر اب اسی کو 30 سے 40 لوگ تو وہ جلد آلودہ ہو گا اور بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔“

عسکریت پسندوں کی پابندی کے باعث شمالی وزیرستان میں گزشتہ 2 سالوں سے بچوں کو پولیو سمیت مختلف بیماریوں سے بچاوٴ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے اور آکسفیم کے عہدیدار کے مطابق جن اضلاع میں یہ اب رہائش پذیر ہیں وہاں بھی ایسی مہم زیادہ بہتر انداز میں نہیں چلائی گئیں۔

نواز انتظامیہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی امداد کے لیے عالمی سطح پر کوئی اپیل نا کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ملک خود سے مدد کرنا چاہے تو ان کی امداد سے انکار نہیں کیا جائے گا۔اقوام متحدہ کے مطابق القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی سے بے دخل ہوئی آبادی میں 74 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔

جبار احمد خان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی امدادی ادارے اس قسم کی صورتحال میں کام کرنے کی زیادہ مہارت اور تجربہ رکھتے ہیں اور ان کی زیادہ سے زیادہ اور جلد شرکت حکومت کی امدادی سرگرمیوں کو تیز اور مزید موثر بنا سکتی ہیں۔”عورتوں یہ جو ضروریات ہیں وہ کسی کو بتا سکیں اور اگر پوری ہو تو اس عمل، فیصلے میں شریک ہوں۔ ہمارے معاشرے میں بچے کی ذمہ داری عورت پر ہوتی ہے تو پھر انہیں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔

“شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں میں صحافی حاجی مجتبیٰ کا خاندان بھی شامل ہے۔ بنوں شہر سے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔”24 گھنٹوں میں بھی نمبر نہیں آتا اور جو امداد ملتی ہے وہ ایک ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکتی کہ ہر گھر میں 10 سے 15 افراد ہیں۔ تعلیم کے بارے میں کوئی اعلان نہیں ہوا۔ اسپتالوں میں وہی عملہ ہے۔

کوئی ڈاکٹروں یا کسی اور چیز کا اضافہ نہیں۔“

صوبہ خیبرپختونخواہ حکومت کا کہنا ہے کہ انہیں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی امداد کے لیے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور حال ہی میں اس کی طرف سے بین الاقوامی برادری کو انسانی بنیادوں پر ان سرگرمیوں میں بھرپور کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی۔نواز انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں پر پابندی ان کی سیکورٹی کی بنیاد پر عائد کی گئی ہے تاہم ضرورت پڑنے پر انہیں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی ،ادھراقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے بچوں میں سے دو لاکھ چالیس ہزار سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاوٴ کے قطرے پلوائے گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں یونیسف کے پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر بلال احمد نے بی بی سی کو بتایا ’آئی ڈی پیز کی نقل مکانی مکمل ہو چکی ہے تاہم اب بھی روزانہ کی بنیاد پر دو سے چار ہزار بچوں کو پولیو ویکسین دی جا رہی ہے جبکہ ابتدا میں بچوں اور بڑوں دونوں کو ویکسین پلائی گئی تھی۔‘ڈاکٹر بلال احمد نے بتایا کہ پاکستان میں اس سال پولیو کیسز کی کل تعداد 95 ہو گئی ہے، جن میں سے 56 کیسز شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہوئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں بنوں، ڈی آئی خان اور ٹانک سمیت مختلف علاقوں میں داخلی پوائنٹس قائم ہیں جہاں اب تک دو لاکھ سے زائد بچوں کو ویکسین دی گئی ہے۔ ڈاکٹر بلال احمد نے بتایا کہ جمرات کو مزید تین پولیو کیسز کی تشخیص ہوئی ہے جن کے بعد ملک میں اس سال پولیو کیسز کی کل تعداد 94 ہو گئی ہے جن میں سے 56 کیسز شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہوئے ہیں۔

شمالی وزیرستان سے عوام کی نقل مکانی کی وجہ سے پولیو کے پھیلنے سے متعلق سوال کے جواب میں یونیسف کے پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر بلال نے کہا ’بہت زیادہ خطرہ ہے، بنوں میں سامنے آنے والے 9 کیسز میں سے زیادہ تر کی تشخیص کے دوران پتہ چلا کہ ان میں پولیو وائرس شمالی وزیرستان سے منتقل ہوا۔‘

ایف آر بنوں اور فاٹا سے لوگوں کی بڑی تعداد نے نقل مکانی کی ہے اور وہاں اب متاثرین کی آمدو رفت کم ہوگئی ہے اور خیبر پختونخوا میں موجود چیک پوائنٹس پر یہ آمد و رفت نسبتاً زیادہ ہے۔

یونیسف کے پولیو کے بارے میں پروگرام کے سربراہ نے بتایا ’متاثرین کی نقل مکانی کے بعد سے اب تک ان کے رہائشی علاقوں میں پانچ پولیو مہمات چلائی جا چکی ہیں اور یہ باعثِ خوشی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو بلا کسی ہچکچاہٹ کے پولیو کے قطرے پلوا رہے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ بنوں میں پولیو کے خلاف تین روزہ مہم ہوتی ہے جبکہ دیگر اضلاع میں یہ مہم ایک دن کی ہوتی ہے، بنوں میں پولیو کے قطرے پلانے کی آخری مہم 11 جولائی سے ہوئی تھی۔

اگرچہ سرکاری سطح پر رجسٹرڈ آئی ڈی پیز کی تعداد 9 لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے تاہم اس تعداد کے بارے میں وہاں کام کرنے والیملکی اور عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ نادرا کی مدد سے رجسٹرڈ متاثرین کی حتمی تصدیق بھی کی جا رہی ہے کیونکہ یہ تعداد اندازے کے اعتبار سے غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ پر جاری کردہ تفصیلات میں پناہ گزینوں کی کل تعداد 9,92,776 ہے جن میں 4,52,225 بچے شامل ہیں۔تاہم پولیو کی ویکسین تقریباً ڈھائی لاکھ بچوں کو پلوائی جا سکی ہے جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے نصف بچے پولیو سے بچاوٴ کی ویکسین سے محروم رہ گئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :