زرداری اور عمران خان کی موجودگی،لندن پاکستان کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا،دونوں جماعتوں کے مشترکہ دوستوں نے بیک ڈور ڈپلومیسی شروع کر دی، دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے امکانات روشن ہوگئے،الطاف حسین کی بھی زرداری سے ملاقات متوقع ، ان کی ملاقات حکومت پاکستان کے لئے خطرہ کا الارم ثابت ہو سکتی ہے، سیاسی مبصرین

جمعہ 18 جولائی 2014 08:01

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18جولائی۔2014ء)لندن پاکستان کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے ،سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی موجودگی نے سیاسی سرگرمیوں کو عروج پر پہنچا دیا ۔دونوں جماعتوں کے مشترکہ دوستوں نے بیگ ڈور چینل سے ڈپلومیسی شروع کر دی جس سے دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے امکانات روشن ہوگئے ہیں جسے سیاسی مبصرین حکومت پاکستان کے لئے خطرہ کا الارم قرار دے رہے ہیں۔

آصف علی زرداری،الطاف حسین اور عمران خان کی لندن میں موجودگی دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بھی دلچسپی کا باعث بن گئی ہے اور مختلف رہنماؤں کے درمیان رابطوں میں تیزی دیکھی گئی ہے ۔الطاف حسین نے بھی آصف زرداری سے فون پر رابطہ کیاہے اور ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے ،توقع ہے ان کی ملاقات بھی ہوگی ۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری ،جمہوریت کے حامی ہیں اور انہوں نے اپنے دور حکومت میں مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا اور بدترین دشمنوں کو بھی گلے لگایا جس سے انہوں نے نہ صرف اپنی حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری کی بلکہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی جمہوری حکومت نے یہ مدت پوری کی ۔

پارٹی رہنماؤں کے مطابق اب بھی سابق صدر آصف زرداری نے حکومت کو یہی مشورہ دیا ہے کہ وہ جمہوریت کو داؤ پر نہ لگائے اور عمران خان کی طرف سے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی اور ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق کے حوالے سے ہٹ دھرمی اختیار نہ کرے اور نواز شریف جمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں اور ایسے وقت میں جبکہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر اتحاد اور مفاہمت کی فضاء قائم کرے۔

پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کو پی ٹی آئی کا مطالبہ مان لینا چاہیے اور اس کی طرف سے 14 اگست کو مجوزہ مارچ میں بھی کوئی بھی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے کیونکہ اگر رکاوٹ ڈالی گئی تو اس سے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے جس سے حکومت کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مشترکہ دوست اس کوشش میں مصروف ہیں کہ عمران خان اور آصف علی زرداری کی ملاقات کرائی جائے اور قوی امکان ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جائیں گے

کیونکہ حکومت کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث تمام اپوزیشن جماعتیں اس سے نالاں ہیں اور وہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو رہی ہیں ۔

ذرائع کے مطابق اگر عمران خان اور آصف علی زرداری کی ملاقات ہوتی ہے اور اس میں معاملات طے پا جاتے ہیں تو اس صورت میں ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی اعتماد میں لئے جانے کا امکان ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی پہلے ہی ان سیاسی رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔مقامی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں اگر اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں تو حکومت کے لئے 14 اگست کا دن ایک چیلنج بن سکتا ہے اور اس کے لئے حکومت کو مفاہمت اور ہم آہنگی کے ذریعے اتفاق رائے کی سیاست پر توجہ دینا ہوگی۔