علم کی شمع جلانے والی ملالہ 17سال کی ہوگئی، ’عالمی ملالہ ڈے‘ ہمت اور حوصلے کی کہانی،عالمی ملالہ ڈے پر ملالہ فنڈتنظیم کی ویڈیو کلپ جاری

اتوار 13 جولائی 2014 07:44

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13جولائی۔2014ء) علم کی شمع جلانے والی گل مکئی سترہ سال کی ہوگئی، وادی سوات کی ہونہار طالبہ نے دہشت گردوں سے ہار نہیں مانی اور آج پاکستان کا وقار بن کر زندہ ہے۔تعلیم عام کرنے کے لیے توانا آواز بلند کرنے والی ملالہ کے عزم و حوصلے کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ کمزور سی لڑکی نے دہشت گردوں کو چیلنج کیا اور شہرت کا وہ بام عروج پایا، جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔

ملالہ یوسفزئی بارہ جولائی انیس ستانوے کو مینگورہ میں پیدا ہوئی، نو اکتوبر دو ہزار بارہ کو دہشت گردوں نے اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کرنا چاہا، لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، وہ آج بھی پاکستان کا وقار بن کر زندہ ہے۔ ملالہ کے ساتھ فائرنگ سے زخمی ہونے والی طالبات کائنات ریاض اور شازیہ رمضان بھی ملالہ کے ساتھ لندن میں زیرتعلیم ہیں۔

(جاری ہے)

حال ہی میں وہ چھٹیاں منانے سوات پہنچیں اور ملالہ جیسی دوست پر فخر کا اظہار کرتی نظر آئیں۔

طلبا کے لیے ملالہ ایک رول ماڈل ہے، تاہم ملالہ ڈے پر ملالہ یوسفزئی کے اسکول میں کوئی تقریب منعقد نہ ہونے پر طلبا اداس ہیں،قلم سے دہشتگردی کا مقابلہ کرنے والی باہمت پاکستانی بیٹی ملالہ یوسفزئی کی سترہویں سالگرہ کے موقع پر منائے جانے والے'عالمی ملالہ ڈے' پر ملالہ 'فنڈ' تنظیم نے ایک ویڈیو کلپ جاری کی ہے جس میں بچوں کی زبانی ایک متاثر کن کہانی بیان کی جاتی ہے۔

ویڈیو کلپ کا آغاز ملالہ یوسفزئی کی پس پردہ آواز سے ہوتا ہے۔'یہ کہانی ہے ہمت اور حوصلے کی' جس کے بعد مختلف بچوں کی پس پردہ آوازوں میں کہانی کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جسے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ مگر اس کی یہ معصوم خواہش انتہاپسندوں کے نزدیک ایک جرم تھا جس کی سزا دینے کے لیے اس پر جان لیوا حملہ کیا گیا؛ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ تعلیم عورتوں کو مضبوط بنا دی گی۔

مگر وہ لڑکی کے حوصلے کو مات نہیں دے سکے۔اس کا عزم اور حوصلہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا۔ وہ اب تنہا نہیں تھی، بلکہ وہ تو جبر، دہشت گردی اور خوف سے کہیں زیادہ مضبوط نکلی۔'تبھی کہانی میں اچانک ملالہ یوسفزئی کی آواز گونجتی ہے جو لوگوں سے سوال پوچھتی ہے کہ میری طرح آپ کس چیز کے مقابلے میں خود کو مضبوط خیال کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ملالہ ڈے پر (stronger than (hashtagکے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔

وادی سوات کی طالبہ ملالہ نے طالبان کے اثرورسوخ کے دور میں جاہل رہنے سے انکار کیا اور اپنی تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا لیکن، 9 اکتوبر 2012 ء مینگورہ کے مقام پر اسکول بس میں بیٹھی ہوئی نہتی کمزور طالبہ کی جان لینے کے ارادے سے اس پر حملہ کیا گیا۔ جس کے بعد موت اور زندگی کی کشمکش سے لڑتی ہوئی ملالہ کو علاج کے لیے برطانیہ لایا گیا، جہاں صحت یاب ہونے کے بعد ملالہ اب ایک نئی زندگی جی رہی ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کی کوششوں کی وجہ سے آج ملالہ دنیا بھر کی توجہ حاصل کر چکی ہے جس نے تعلیمی مہم اور خواتین کے حقوق کے لیے ایک بین الاقوامی سفیر کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔

گذشتہ برس 12جولائی کو ملالہ نے اپنی سولہویں سالگرہ کے موقع پر اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ قلم اور کتاب دنیا کے دو مضبوط ہتھیار ہیں اسی طرح ایک طالبعلم، ایک استاد، قلم اور کتاب دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

ملالہ ڈے 2014 ء کے موقع پر ملالہ نے کہا کہ 14 جولائی کا دن صرف میرا نہیں ہے بلکہ یہ تمام نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کا دن ہے۔ اس دن ہم ایک ساتھ ملکرحقوق کی اس مہم کے لیے اپنی آوازوں کو بلند کرتے ہیں، تاکہ انھیں بھی سنا جاسکے جنھیں حق مانگنے سے ڈرایا جاتا ہے۔’گزشتہ برس اپنی سالگرہ کے موقع پر میں اقوام متحدہ کے سامنے کھڑی ہوئی اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے سوالات اٹھائے جس پر آپ نے اپنے خطوں، تصاویر اور پیغامات کے ذریعے مجھے اپنے تعاون کا یقین دلایا تھا۔

اس سال بھی ہمیں اپنی آوازیں ایک ساتھ ملانے کی ضرورت ہے‘۔’انتہاپسندوں نے سوچا تھا کہ ان کی گولیاں ہمیں خاموش کر سکتی ہیں۔ لیکن وہ ناکام رہے۔ بلکہ، ہوا یہ کہ گہری خاموشی ٹوٹنے کی وجہ سے جبر اور خوف میں لپٹی ہوئی ہزاروں آوازوں کو بلند ہونے کا راستہ ملا‘۔’اس سال میری سالگرہ کی وش یہ ہے کہ ہماری آوازیں اتنی مضبوط ہو جائیں کہ خوف کی مہم کے خلاف جبراً دبائی گئی آوازوں کی طاقت بن جائیں‘۔

’ہم تعلیم کے دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں بلکہ نفرت،خوف، تشدد اور غربت سے لڑنے کے لیے بھی ہمارے حوصلے طاقتور ہیں۔‘’مساوات کی منزل تک پہنچنے کا راستہ خاصا طویل ہے۔ لیکن، ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اگر ایک ساتھ ملکر چلیں۔ اسی لیے، اس ملالہ ڈے پر ہماری آواز کو اور بھی مضبوط بنائیں‘۔’کیا ایک بار پھر سے آپ میری آواز بن کر اسے دور دور تک پہنچائیں گے؟

متعلقہ عنوان :