تھری جی/فور جی لائسنسوں کی نیلامی، یورو بانڈ کے توسط سے توقع سے بڑھ کر آمد ِرقوم، بین الاقوامی مالی اداروں سے پروگرام قرضوں اور زر ِمبادلہ ذخائر بڑھنے سے مالیاتی استحکام تو آیا ہے لیکن ساختی مسائل سے اب بھی نمٹنے کی ضرورت ہے،اسٹیٹ بینک آف پاکستان ،پالیسی سازوں کو ایک صنعتی پالیسی تشکیل دینی چاہیے جس میں پیداواری کارگزاری اور روزگار کی تخلیق کو ترجیح دی جائے،سہ ماہی رپورٹ میں تجویز

جمعہ 11 جولائی 2014 05:34

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جولائی۔2014ء)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہاہے کہ تھری جی/فور جی لائسنسوں کی نیلامی، یورو بانڈ کے توسط سے توقع سے بڑھ کر آمد ِرقوم، بین الاقوامی مالی اداروں سے پروگرام قرضوں اور زر ِمبادلہ ذخائر بڑھنے سے مالیاتی استحکام تو آیا ہے لیکن ساختی مسائل سے اب بھی نمٹنے کی ضرورت ہے و ہ پاکستانی معیشت کے لیے مسلسل دشواریاں پیدا کررہے ہیں۔

مزکری بینک نے تجویز دی ہے کہ پالیسی سازوں کو ایک صنعتی پالیسی تشکیل دینی چاہیے جس میں پیداواری کارگزاری اور روزگار کی تخلیق کو ترجیح دی جائے۔یہ بات بینک دولت پاکستان نے معیشت کی کیفیت پر تیسری سہ ماہی رپورٹ برائے مالی سال 14ء میں کہی جو جمعرات کے روز جاری کی گئی ۔ رپورٹ کے مطابق تیسری سہ ماہی کے دوران پاکستانی معیشت نے بظاہر نیا موڑ کاٹا ہے۔

(جاری ہے)

معاشی سرگرمیوں کی بحالی م س 14ء میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ حقیقی جی ڈی پی نمو 4.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو پانچ سال کی بلند ترین نمو ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برسوں تک پست نمو کے بعد معیشت کے بارے میں احساسات بظاہر بہتر ہوئے ہیں۔ اس کی عکاسی حقیقی جی ڈی پی نمو کی دوبارہ افزائش، نجی شعبے کو قرضے میں اضافے، مالیاتی خسارے پر قابو، گرانی کے امکانات میں کمی، زرِ مبادلہ کے ذخائر کے تیزی سے بڑھنے اور شرح مبادلہ کے بڑھنے اور بعد ازاں مستحکم ہونے سے ہوتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ معیشت میں بہتری توانائی کی قلت سے نمٹنے کے لیے حکومت کے عزم، کاروبار دوست پالیسیوں کے بڑھتے ہوئے تاثر اور بیرونی رقوم کی آمد کا نتیجہ ہے جو حال ہی میں موصول ہوئی ہیں۔ خاص طور پر تھری جی/فور جی لائسنسوں کی نیلامی، یورو بانڈ کے توسط سے توقع سے بڑھ کر آمد ِرقوم، بین الاقوامی مالی اداروں سے پروگرام قرضوں اور زر ِمبادلہ کو سہارا دینے کی اسٹیٹ بینک کی کوششوں نے ملک کے بیرونی شعبے کے تناظر کو بہت بہتر بنایا ہے، اور کسی قدر مالیاتی پوزیشن کو بھی۔

تاہم رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بہتری کی ان علامات کی بنا پر معیشت کو درپیش مشکلات نظر انداز نہیں کی جانی چاہئیں اور بے حد ضروری ساختی اصلاحات کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔ اس مثبت صورتِ حال سے وسط مدت میں پائیدار معاشی نمو کی جانب پیشرفت کے لیے مضبوط پلیٹ فارم مل گیا ہے۔پورٹ کے مطابق ان رقوم کی آمد سے نہ صرف شرح مبادلہ مستحکم ہوئی بلکہ اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے بڑھ گئے۔

30 مئی 2014ء کو اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر 8.7 ارب ڈالر ہوگئے جبکہ آخر دسمبر 2013ء میں صرف 3.5 ارب ڈالر تھے۔ پاکستانی روپے کی قدر بڑھنے سے کاروباری احساسات بہتر ہوئے۔ بعد ازاں اس میں استحکام آنے سے گرانی کی توقعات قابو میں آگئیں اور ملک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر میں بھرپور اضافے نے ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو کچھ سہارا فراہم کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جولائی تا مارچ م س 14ء کے دوران اوسط گرانی 8.6 فیصد تھی۔مستقبل میں پاکستانی روپے کا استحکام ، تیل کی مستحکم بین الاقوامی قیمتیں اور اجناس کی معتدل عالمی قیمتیں گرانی کی توقعات کو قابو میں رکھیں گی۔ وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کی بنیاد پر اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ م س 14ء کے پہلے نو ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا صرف 3.2 فیصد تھا جو گذشتہ پانچ برسوں کے اوسط خسارے سے خاصا کم ہے۔

تاہم رپورٹ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی کہ اخراجات کے حوالے سے مالیاتی استحکام کی کوششوں کے باوجود ٹیکس کی وصولی کی کارکردگی اب بھی قابل رشک نہیں کیونکہ ایف بی آر پست ٹیکس بنیاد پر کام کررہا ہے۔

ایف بی آر کو وصولی میں رساؤ کو روکنے اور تمام مالی سودوں کی دستاویزیت کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں تاہم صوبائی حکومتوں کو (جو خدمات اور زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا آئینی حق رکھتی ہیں) بھی صوبائی ٹیکسوں کے زیادہ مؤثر نفاذ کی ضرورت ہے۔

جہاں تک مالکاری کا تعلق ہے، جولائی تا مارچ م س 14ء میں حکومت نے زیادہ تر ملکی وسائل پر انحصار کیا۔ بیرونی مالکاری یورو بانڈ کے اجرا، بین الاقوامی مالی اداروں سے نئے قرضوں اور دوطرفہ امداد کی وجہ سے بڑھ گئی۔ وسائل کی قلت سے دوچار معیشت کے لیے بیرونی رقوم کی آمد کی بحالی اہمیت رکھتی ہے لیکن اس سے پاکستان کی بیرونی مقروضیت میں اضافہ ہوگا۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں اس امر کو اجاگر کیا گیا کہ مجموعی سرکاری قرضہ (بیرونی اور ملکی) جی ڈی پی کے 60 فیصد سے پہلے ہی تجاوز کرچکا ہے، جو مالیاتی ذمہ داری و تحدید قرضہ ایکٹ (2005ء) کی م س 13ء اور اس سے آگے کے لیے مقرر کردہ حد ہے۔ چنانچہ بیرونی قرضے میں اضافے کے ساتھ کم از کم ملکی واجب الادا قرضے میں اتنی ہی کمی کی جانی چاہیے۔نومبر 2013ء میں آئی ایم ایف کو بھاری ادائیگیاں کم ہونے سے توازن ادائیگی پر دباؤ بھی گھٹ گیا اور ملک میں بیرونی گرانٹس، قرضے اور بیرونی سرمایہ کاری (جیسے یورو بانڈ) آنے لگی۔

رپورٹ میں اس بہتری کا اعتراف کرتے ہوئے ساختی مسائل سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو پاکستانی معیشت کے لیے مسلسل دشواریاں پیدا کررہے ہیں۔

پالیسی سازوں کو ایک صنعتی پالیسی تشکیل دینی چاہیے جس میں پیداواری کارگزاری اور روزگار کی تخلیق کو ترجیح دی جائے۔ اس اقدام میں مندرجہ ذیل پہلوؤں پر زور ہونا چاہیے: مسابقت کو ترویج دینے کی کوششیں، نہ کہ ایسا کلچر جو ناکارگزاری پیدا کرے اور اس پر نوازے، گھاٹے میں جانے والی پی ایس ایز (خصوصاً بجلی کے شعبے میں جینکوز اور ڈسکوز اور نقل و حمل کے شعبے میں پی آئی اے اور ریلوے) کی تشکیل نو تاکہ وہ زیادہ متحرک اور منافع بخش بن جائیں اور ایک ہنر مند افرادی قوت جو اشیا سازی کے شعبے کی موجودہ (اور ممکنہ) ضروریات پوری کرے۔