عدلیہ مخالف بینرزکیس، پولیس افسران کیخلاف انضباطی کارروائی اور ملزمان کیخلاف ہونے والی پیش رفت پر آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ 21 جولائی کو طلب،ملزم راشد نے بتایا کہ وہ خالد خواجہ جن کومار دیا گیا تھا ‘ کی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے، وہ خود کو فرزندان اسلام کہتا ہے اور فکسر کے طور پر کام کرتا ہے، چار گزیٹڈ افسران کو شوکاز نوٹس ، تین افسران کو معطل ، 30 دیگر افسران اور اہلکاروں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں،آئی جی، کیا خالد خواجہ قبر سے نکل کر بینرز لگا گئے ہیں، ہمیں شہریوں کی سکیورٹی سے غرض ہے ہر شہری کو تحفظ اور سکیورٹی فراہم کرنا مملکت خداداد کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے ایک ماہ چودہ دن گزر گئے فرزندان اسلام کا پتہ نہیں چلایا جاسکا،جسٹس جواد ایس خواجہ، پولیس نے پیٹی بھائیوں کو بچانے کیلئے نااہلی دکھائی تو عدالت جوڈیشل ریویو کے تحت کارروائی کرے گی، پولیس کی نیت ٹھیک ہوئی تو اللہ ضرور کامیابی دے گا،ریمارکس

بدھ 9 جولائی 2014 06:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9جولائی۔2014ء) سپریم کورٹ نے عدلیہ مخالف بینرز اور پوسٹرز کے مقدمے میں پولیس افسران کیخلاف انضباطی کارروائی اور ملزمان کیخلاف ہونے والی پیش رفت پر آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ 21 جولائی کو طلب کرلی ہے ۔ جبکہ کیس کی سماعت 22 جولائی کو ہوگی، آئی جی اسلام آباد نے عدالت میں پولیس افسران کی نااہلی اور غفلت بارے ہونے والی انکوائری اور مقدمے کی پیش رفت رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ملزم راشد نے بتایا کہ وہ خالد خواجہ جن کومار دیا گیا تھا کی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے ۔

وہ خود کو فرزندان اسلام کہتا ہے اور فکسر کے طور پر کام کرتا ہے، چار گزیٹڈ افسران کو شوکاز نوٹس جبکہ ایک گزیٹڈ افسر سمیت تین افسران کو معطل کیا ہے 30 دیگر افسران اور اہلکاروں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں ۔

(جاری ہے)

ملزم راشد سابق صحافی ہے پریس کلب نے نکال دیا تھا اس کی ہمدردیاں خالد خواجہ اور طالبان کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے یہ رپورٹ منگل کے روز دی جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیا خالد خواجہ قبر سے نکل کر بینرز لگا گئے ہیں ہمیں اپنے ملک کے شہریوں کی سکیورٹی سے غرض ہے ہر شہری کو تحفظ اور سکیورٹی فراہم کرنا اس مملکت خداداد کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے ایک ماہ چودہ دن گزر گئے ابھی تک فرزندان اسلام کا پتہ نہیں چلایا جاسکا پچاسوں مقدمات میں پولیس کی نااہلی اور غفلت ثابت ہوچکی ہے پولیس نے پیٹی بھائیوں کو بچانے کیلئے نااہلی دکھائی تو عدالت جوڈیشل ریویو کے تحت کارروائی کرے گی اور معاملے کا خود جائزہ لیں گے، تفتیش پولیس کا کام ہے مگر لگتا ہے کہ یہ ہمارا کام ہے، پولیس کی نیت ٹھیک ہوئی تو اللہ ضرور کامیابی دے گا ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اس دوران احسن الدین شیخ ایڈووکیٹ نے اپنا پولیس کو دیا گیا بیان بھی عدالت میں جمع کروایا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں بینرز کے معاملے کا حل چاہیے اس معاملے کو ایسے نہیں چھوڑا جاسکتا 2008ء میں بھی ہمارا فیصلہ آیا تھا آئی جی اسلام آباد سمیت دیگر حکام پیش ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے آئی جی اسلام آباد سمیت حکام سے وضاحت طلب کی تھی اس حوالے سے جوابات داخل کردیئے گئے ہیں ۔

پراگریس رپورٹ اور آئی جی نے جواب داخل کیا ہے ملزمان کیخلاف کارروائی وغیرہ جاری ہے پولیس فورس کی نااہلی کے حوالے سے آپ نے وضاحت مانگی تھی تفصیلی وضاحت دی گئی ہے انکوائری ٹیم مقرر کی گئی ہے اس کی روشنی میں افسران سے وضاحت طلب کی گئی ہے بعض افسران کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جو بھی افسران کیخلاف تادیبی کارروائی ہوگی اس میں کوئی رعایت نہیں ہوگی کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ محکموں میں یہ ہوتا ہے کہ کمیٹی قائم کردی گئی ہے مگر معاملے کا حل نہیں نظر آتا تاہم معاملے کا جوڈیشل ریویو بھی کرینگے ۔

احسن الدین شیخ نے بتایا کہ دوبارہ سے بینرز آویزاں ہوئے ہیں اس کے محرکات کو دیکھنے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے پولیس کو گائیڈ لائن بھی دی ہے اس کے باوجود یہ معاملہ دوبارہ سے ہوا ہے یہ الارمنگ پوزیشن ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کی معاونت سے معاملات آگے جائیں گے ابھی جوابات ان کے نہیں دیکھے ہیں تحریری بیان آپ کا ضمنی میں شامل کردیا ہوگا۔

احسن الدین نے کہا کہ محرکات کے پس پردہ نہیں جائیں گے اصل حقائق واضح نہیں ہوں گے میں نے سب کچھ کھل کر کہہ دیا ہے آپ میرا بیان پڑھ سکتے ہیں اگر کہتے ہیں تو میں خود پڑھ دیتا ہوں اس دوران عدالت نے احسن الدین شیخ کا بیان پڑھا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس معاملے کے دو پہلو ہیں ایک وہ جو معاملات چل رہے ہیں 23مئی سے آج تک کتنے دن گزر گئے ایک ماہ چودہ دن ہوچکے ہیں فرزندان اسلام کون ہیں ؟ کیوں ان کا پتہ نہیں چل رہا ہے ۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خالد خواجہ کے طالبان کے ساتھ تعلقات تھے ان کے قریبی لوگوں کا ہاتھ ہے،احسن الدین شیخ نے کہا کہ وہ تو مر چکے ہیں۔جسٹس جواد نے کہا کہ کیا وہ قبر سے نکل کر یہ بینرز لگا گئے ہیں 2011ء میں وہ تو فوت ہوچکے ہیں۔آئی جی نے بتایا کہ خالد خواجہ کے بیٹے نے ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر کرنے کی کوشش کی ،راشد غیر ملکی خبررساں اداروں کے ساتھ رابطے میں رہا وہ کہتا ہے کہ وہ خود کو فرزندان اسلام کہتا ہے،راولپنڈی میں بھی اس نے بینرز لگائے تھے پریس کلب سے بھی اس کو نکالا گیا تھا اس کے پاس پریس کلب کا لیٹر بھی تھا۔

احسن الدین نے کہا کہ ملزم تو گرفتار ہے بینرز دوبارہ کیسے لگے ہیں،چینلز پر یہ معاملات زیربحث ہیں،ٹی وی پروگراموں میں بھی حرف بحرف یہی بات کہی گئی ہے ان کو بھی شامل تفتیش کیا جائے یہ بند گلی میں لے جانا چاہتے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وہ مطمئن ہیں کوئی کسی کو کہیں نہیں لے جاسکتا ہم نے آپ کو نہیں بتانا تفتیش کرنا آپ کا کام ہے جو بھی ملوث ہے اس کیخلاف کارروائی کی جائے نااہلی یا غفلت دیکھی تو جوڈیشل رویوکا اختیار استعمال کرینگے۔

ویسے ہم آپ کی تفتیش میں مداخلت نہیں کرینگے ۔ پچاسوں مقدمات میں عدالتوں نے کہا ہے کہ یہ پولیس کی نااہلی ہے انضباطی کارروائی ضروری تھی آپ نے اپنے افسران کو شوکاز نوٹس جاری کئے،ریڈ زون میں سی سی ٹی وی کیمرے یا گشت نہیں ہے ۔ آئی جی نے کہا کہ ریڈ زون کے دفاعی ایریے میں بینرز نہیں تھے باہر لگے تھے اس معاملے میں کوئی سستی کوتاہی نہیں ہوگی۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ریڈ زون میں بینرز لگے تھے 23سے 24تعداد تھی،بعض اوقات فریقین کافی یقین کے ساتھ بات کرتے ہیں مگر ہمیں ان کی بات صحیح نہیں لگی تھی۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا تھا کہ انہوں نے فلاں فلاں جگہ سے بینرز اتروائے تھے آپ تفتیش کریں اس بات پر نہ جائیں کہ نہیں لگے تھے آبپارہ ریڈ زون میں نہیں ہے مقدمہ وہاں درج کیا گیا ہے،تفتیشی افسر نے لکھا تھا کہ انہوں نے آبپارہ میں بینرز لگا دیکھا تو نقص امن کا خطرہ دیکھا۔

احسن الدین نے کہا کہ یہ تو مہم ہے،اس کے محرکات کا جائزہ لینا ہوگا سامنے صرف ڈمی لوگ ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کیا آپ نے ٹی وی پروگراموں کو شامل تفتیش کیا ہے تو آئی جی نے کہا کہ اس معاملے کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا ۔ راشد نے اپنی جیب سے یہ سب کیوں کیا ہے وہ کیا چاہتا ہے ؟ اس کے پیچھے کون ہے ؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے فکسر کی بات کی ہے بیرونی عناصر کی بھی بات کی ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ راشدنے مختلف چینلوں کی بات کی ہے۔جسٹس جواد نے کہا کہ ہم صرف سکیورٹی کی ناکامی کے حوالے سے جانا چاہتے ہیں وہ بات واضح نہیں ہورہی ، ممکن ہے کہ راشد خدائی خدمت گار ہو اور وہ اپنی جیب سے سب کچھ خرچ کررہا ہو۔ احسن الدین نے کہا کہ اس کا ماضی کاکوئی ریکارڈ نہیں ہے مرے ہوئے شخص کا نام استعمال کرکے وہ کیسے اس معاملے کو استعمال کررہا ہے معاملے کو ختم کرنے کے لیے مہارت کے ساتھ منصوبہ بنایا گیا ہے۔

آئی جی نے بتایا کہ ملزم ریمانڈ پر ہے اس کیخلاف دو مقدمات ہیں کچھ بھی آپ سے پوشیدہ نہیں رکھیں گے،آپ ہم پر اعتماد کریں۔جسٹس جواد نے کہا کہ اگر ہم بھروسہ پر چلنا شروع کردیں تو کس کس کے بھروسے پر یقین رکھیں گے۔بھری پنچائت میں بیان لینا تفتیش نہیں ہے حقائق کو دیکھ کر تفتیش کریں۔سکیورٹی کی ناکامی اور افسران کیخلاف تادیبی کارروائی دو الگ الگ رپورٹس بنا کر دیں،آپ سینئر افسر ہیں آپ پر اعتماد کرتے ہیں، سب کا جائزہ لینا ہوتا ہے محرک کا پتہ چلائیں یہ کون ہے ؟ یہ مخبر کون ہے ؟ جو نظریاتی بنیادوں پر اپنی جیبیں خالی کررہا ہے۔

جسٹس اطہر سعید نے کہا کہ چینل کے پروگرام کو بھی شامل تفتیش کریں ممکن ہے کہ وہاں سے کچھ حاصل ہوسکے ۔

جسٹس جواد نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم پر آئی جی اسلام آباد نے وضاحت اور پیش رفت رپورٹ جمع کروائی ہے۔جسس عمر عطاء بندیال کے سوال کرنے پر بتایا کہ راشد ماہانہ میگزین میں کام کررہا تھا اور بیرونی اداروں سے بھی تعلق تھا ۔

انہوں نے پی ایف یو جے کی رپورٹ بھی دی تھی۔جسٹس جواد نے کہا کہ پی ایف یو جے ایک ادارہ ہے آخر اس کے ممبران بھی ہوں گے ۔فکسر اس شخص کو کہتے ہیں جو بیرونی ٹی وی چینل کیلئے کوئی ڈاکومنٹری بنانے آسکتے ہیں تو سب انتظامات فکسر کرتا ہے کوئی شخص اپنا فکسر نہیں ہوتا،فکسر کام کرنے کے پیسے بھی لیتا ہے۔جسٹس جواد نے آرڈر لکھوایا ہے کہ آئی جی کی رپورٹ کے مطابق تحقیقات جاری ہیں مقدمے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے تمام تر اقدامات کئے جارہے ہیں اور معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں تحقیقات کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے،بینچ نے واضح کیا کہ راشد کو فکسر کے طور پر لیا جاتا ہے، ٹی وی چینل سے بھی اس کا تعلق رہا ہے بارہا کہا ہے کہ اب یہ پولیس پر ہے کہ وہ دلجمعی سے تحقیقات کرے ،پولیس ایماندارانہ اور پرخلوص تفیش کرے تو ملزمان کے محرکات کا پتہ چلایا جاسکتا ہے کیونکہ اصل مسئلہ سکیورٹی کی ناکامی ہے،ریڈ زون جس کو محفوظ ترین علاقہ سمجھا جاتا ہے وہاں پر یہ بینرز لگائے گئے اور یہ ملک بھر میں سب سے محفوظ ترین علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

احسن الدین شیخ یا توفیق آصف کا بیان کسی اور طرف بھی جارہا ہے یا نہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہمیں تو سکیورٹی کے معاملات کے حوالے سے پریشانی ہے فرزندان اسلام کون ہیں؟جس نے ملک کا تمام نظام اور سکیورٹی خطرے سے دو چار کردیا ہے، پارلیمنٹ لاجز ، سپریم کورٹ ، وزیراعظم ہاؤس ،ایوان صدر سمیت کئی ادارے شامل ہیں اس مملکت خداداد کے ہر شہری کی سکیورٹی اور تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اگر اتنے اہم اداروں کی سکیورٹی کا یہ عالم ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ۔

دنیا داری کے حساب سے ریاست کی ذمہ داری ہے ۔

احسن الدین شیخ نے کہا کہ انہوں نے اپنے بیان میں جن لوگوں کی بات کی ہے ان کو بھی شامل تفتیش کیا جائے ۔ جسٹس جواد نے مزید کہا کہ اس معاملے سے شہریوں کو بہت ہی غلط پیغام گیا ہے آئی جی نے معاملے کی انکوائری بھی کرائی ہے اور جن پولیس افسران کی غفلت یا کوتاہی پائی گئی ہے ان میں سے تین کو معطل کیا ہے اور تیس دیگر کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں افسران میں ڈی آئی جی پولیس کے افسران بھی شامل ہیں چار گزیٹڈ افسران کیخلاف تحقیقات جاری ہیں جبکہ ایک کو معطل کردیا ہے آئی جی اپنی تحقیقات قانون کے مطابق جاری رکھیںِ،آئی جی کا کہنا تھا کہ انضباطی کارروائی پندرہ روز میں مکمل کرلی جائے گی 22 جولائی کو یہ معاملات مکمل ہوجائیں گے،پیش رفت رپورٹ اکیس جولائی تک جمع کروادی جائے جسٹس جواد نے کہا کہ ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہے ریڈ زون آپ کی نگرانی میں ہے لوگ چین کی بانسری بجارہے ہیں کہ ہم محفوظ نہیں،فرزندان اسلام کا پتہ چلنا چاہیے اللہ کرے آپ کو کامیابی ہو نیت صاف ہوتو معاملات حل ہوجائیں گے ۔