فوجی آپریشن سے چند رو ز قبل ملافضل اللہ دو ہفتے شمالی وزیرستان میں رہا،رپورٹ، اہم عسکری رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور پھر واپس کنڑ روانہ ہوگیاتاہم ان ملاقاتوں میں اسے کسی نے بھی تعاون کی یقین دہانی نہ کرائی

جمعہ 4 جولائی 2014 07:16

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4جولائی۔2014ء) حکومت پاکستان کو انتہائی مطلوب شخص اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ آپریشن شروع ہونے سے چند روز قبل اس نے دو ہفتے اس علاقہ میں گزارے، اہم عسکری رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور پھر واپس کنڑ روانہ ہوگیاتاہم ان ملاقاتوں میں اسے کسی نے بھی تعاون کی یقین دہانی نہ کرائی۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق مولوی فضل اللہ کے دورے کی تحریک طالبان پاکستان کے سینئر عہدیداران نے بھی تصدیق کی ہے۔ ٹی ٹی پی کے سینئر اراکین نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا فضل اللہ شمالی وزیرستان میں طالبان قیادت کو قبائلی علاقے میں ممکنہ فوجی آپریشن شروع کئے جانے کی صورت میں طالبان کو افغانستان میں پناہ دئیے جانے کی یقین دہانی کرانے کیلئے آئے تھے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے سینئر کمانڈر نے شمالی وزیرستان کے ایک نامعلوم مقام سے ٹیلیفون پر بتایا کہ امیر فضل اللہ علاقے میں آئے تھے اور انہوں نے ہمارے ساتھ تقریباً دو ہفتے گزارے جب اس سلسلے میں شمالی وزیرستان کے قبائلی جرگہ کے اہم رکن اور مذہبی راہنماء حافظ نوراللہ شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ فضل اللہ شمالی وزیرستان میں حال ہی میں آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی ان سے ذاتی طور پر ملاقات تو نہیں ہوسکی لیکن معلوم ہوا ہے کہ وہ وزیرستان آئے اور انہوں نے طالبان کے سینئر راہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ انہوں نے حافظ گل بہادر سے بھی ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ پاکستانی فورسز کیخلاف ٹی ٹی پی کی جاری لڑائی میں ان کی مدد کریں تاہم حافظ گل بہادر نے ان کی اس درخواست کو مسترد کردیا ہے۔

ٹی ٹی پی کے مطابق دو ہفتے کے اس قیام میں ملا فضل اللہ نے دتہ خیل‘ میرانشاہ اور میر علی میں مختلف طالبان کمانڈروں کیساتھ وقت گزارا

بعدازاں ٹی ٹی پی کے راہنماء افغانستان کی صوبے کنڑ روانہ ہوگئے جہاں پاکستانی طالبان کے سوات‘ باجوڑ اور مہمند قبائل سے تعلق رکھنے والے طالبان کے ٹھکانے ہیں۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا فضل اللہ کے اس دورے کے دوران مہمند ایجنسی کے مولوی عمر خالد خراسانی اور دیگر اعلی کمانڈر بھی ان کے ہمراہ تھے۔

دورے کے دوران فضل اللہ نے حقانی نیٹ ورک کے حافظ گل بہادر‘ ازبک‘ القاعدہ اور پنجابی طالبان کے کمانڈروں سے بھی ملاقاتیں کیں جس میں حکومت کے خلاف حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جو بارآور نہ ہو سکی۔رپورٹ کے مطابق فضل اللہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی سے بھی ملاقات کرنا چاہتا تھا لیکن ان کی ملاقات نہ ہوسکی۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فضل اللہ کے قیام کے دوران ان کی نقل و حمل کیلئے مین سڑکوں کا استعمال کیا مگر اسے کسی نے نہ روکا۔ بعدازاں فضل اللہ وزیرستان کے علاقے دتہ خیل جو افغانستان کے صوبے خوست کے قریب واقع ہے‘ واپس لوٹ گیا اور ان کی روانگی کے کچھ دن بعد شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا۔

متعلقہ عنوان :