حج کرپشن عملدرآمد کیس،سپریم کورٹ نے مرکزی ملزم احمد فیض کیخلاف چار سال سے کارروائی نہ ہونے پر ذمہ داران بارے اٹارنی جنرل سے رپورٹ مانگ لی ، ذمہ داران کیخلاف کارروائی نہ کی گئی تو پھر عدالت خود کارروائی کرے گی، احمد فیض کوئی اتنا ہی بااثر شخص ہے کہ ساری ریاستی مشینری چار سالوں میں بھی اس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکی، کاغذی کارروائی کے سواء کچھ بھی نہیں کیا جارہا،جسٹس جواد، ڈی جی ایف آئی اے کی رپورٹ عدالت اور حاجیوں کیساتھ انتہائی عامیانہ اور بھونڈا مذاق ہے‘ریمارکس،ڈی جی ایف آئی اے بتادیں کہ اگر ان سے کچھ نہیں ہوتا تو ہم یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپ دیں،جسٹس گلزار، ڈی جی آئی بی‘ سیکرٹری خارجہ اور سعودی عرب میں پاکستانی سفیر کی معاونت سے کارروائی جاری ہے،ڈی جی ایف آئی اے عدالت ان کیمرہ سماعت کرے،عدالت نے استدعا مسترد کردی

جمعرات 3 جولائی 2014 05:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3جولائی۔2014ء) سپریم کورٹ نے حج کرپشن عملدرآمد کیس میں مرکزی ملزم احمد فیض کیخلاف چار سال سے کارروائی نہ ہونے پر ذمہ داران بارے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے رپورٹ مانگ لی اور کہا ہے کہ ذمہ داران کیخلاف کارروائی نہ کی گئی تو پھر عدالت خود کارروائی کرے گی‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ احمد فیض کوئی اتنا ہی بااثر شخص ہے کہ ساری ریاستی مشینری چار سالوں میں بھی اس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکی، کاغذی کارروائی کے سواء کچھ بھی نہیں کیا جارہا، سعودی عرب پاکستان کا دوست ملک ہونے کے باوجود اگر ملزموں کیخلاف کارروائی نہیں ہوسکتی تو باقی ملکوں میں کیا نہیں ہوتا ہوگا‘ ڈی جی ایف آئی اے کی رپورٹ عدالت اور حاجیوں کیساتھ انتہائی عامیانہ اور بھونڈا مذاق ہے‘ ایف آئی اے کی رپورٹ سے انتہائی مایوسی ہوئی ہے جبکہ جسٹس گلزار نے ریمارکس دئیے کہ لگتا یہی ہے کہ احمد فیض کوئی بہت بڑی شے ہے کہ جو ڈی جی ایف آئی اے کی پہنچ سے بھی دور ہے‘ حاجیوں کو لوٹا گیا اور ابھی تک ذمہ داران کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘ ڈی جی ایف آئی اے بتادیں کہ اگر ان سے کچھ نہیں ہوتا تو ہم یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپ دیں

جبکہ ڈی جی ایف آئی اے غالب بندیشہ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی بی‘ سیکرٹری خارجہ اور سعودی عرب میں پاکستانی سفیر کی معاونت سے کارروائی جاری ہے۔

(جاری ہے)

عدالت ان کیمرہ حقائق کی سماعت کرے تاہم عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی۔ انہوں نے یہ رپورٹ بدھ کے روز جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے روبرو پیش کی۔ حج کرپشن کیس میں ڈی جی ایف آئی اے غالب بندیشہ پیش ہوئے اور بتایا کہ ان کے پاس بہت کچھ ہے میٹریل ایسا ہے کہ شائع ہونے سے مسئلہ پیدا ہوگا۔ چیمبر میں بتانا چاہتے ہیں‘ خفیہ رپورٹ دے رہے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ 2010ء سے یہ سلسلہ شروع ہوا اب 2014ء ہے پچھلی بار بھی آپ نے یہی کہا تھا چار سال ہوگئے ہیں۔ ایک شخص نے پوری ریاست کو پریشان کیا ہوا ہے۔ فیض احمد آپ کی تحویل میں آگیا ہے تو بتادیں۔ ڈی جی نے کہا کہ وہ تحویل کے قریب ہے ابھی ہاتھ آیا نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے گذشتہ سماعت پر کہا تھا کہ وہ بہرحال کامیاب ہوجائیں گے اور پیشرفت کیساتھ پیش ہوں گے۔

اس کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ سے اگر کچھ نہیں ہوتا تو بتادیں ہم کسی اور کو ذمہ داری سونپ دیتے ہیں۔ ڈی جی نے کہا کہ ڈی جی آئی بی کے ذریعے معاملات چل رہے ہیں‘ ریڈ وارنٹ بھی جاری کردئیے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کاغذی کارروائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جارہا۔ پراگرس رپورٹ اپنے پاس رکھیں قوم کا مذاق نہ اڑائیں۔

حاجیوں کو لوٹ لیا گیا اور ابھی تک چار افراد کیخلاف کارروائی نہیں ہوسکی۔ یہ آپ کی رپورٹ ہے۔ چار سال گزرگئے ہیں ایک بندہ آپ سے گرفتار نہیں ہورہا کیا پراگرس اسی کو کہتے ہیں‘ دس سال اور چاہئیں۔ آپ بالکل ان کے قریب نہیں پہنچ سکے ہیں۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ لگتا یہی ہے کہ بندہ آپ کی پہنچ سے باہر ہے‘ کوئی خاص شخصیت ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ اس کا پاسپورٹ کینسل کرچکے ہیں کافی رپورٹس پڑھ چکے ہیں۔

سعودی عرب کی باتیں چھوڑیں کئی لوگوں کو پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا ہمیں صرف اتنا بتائیں کہ احمد فیض کہاں ہے؟ 2011ء میں حوالگی کی درخواست دے چکے ہیں۔ توقیر صادق کو چھ ماہ میں واپس لایا گیا تھا۔ حالات شہادت نہیں براہ راست کرپشن کی شہادت موجود ہے دوست ملک ہی وہاں پر موجود شخص کیخلاف کارروائی نہیں ہورہی۔ آپ کی کیا کارکردگی ہے۔ بتایا گیا کہ سعودی عرب گئے تھے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ عمرہ کرنے گئے ہوں گے اور کیا ہوگا؟ یہ انتہائی عامیانہ مذاق ہے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بلائیں اب ان سے بات ہوگی۔ قوم کے حاجیوں کیساتھ بھونڈا مذاق کیا جارہا ہے۔ یہ اسلامی مملکت پاکستان میں ہورہا ہے۔ بعدازاں اٹارنی جنرل آف پاکستان پیش ہوگئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم ایف آئی اے کی کارکردگی سے مایوس ہوئے ہیں۔

ڈی جی ایف آئی اے بھی پیش ہوئے ہیں ذرا اس بات کا جائزہ لی کر بتائیں کہ چار سال پرانا کیس ہے۔ حاجیوں کو لوٹا گیا۔

ایک ملزم جس کا نام احمد فیض ہے اس کی گرفتاری کیوں نہیں ہورہی۔ ساری ریاست کی مشینری متحرک ہے مگر بندہ قابو نہیں آرہا۔ 2011ء میں تحویل کی درخواست دی گئی اس پر بھی کچھ نہیں ہوا یہ تو دوست ملک کا حال ہے۔ باقی جگہوں کا کیا حال ہوگا۔

ہمیں کہتے ہیں کہ چیمبر میں سن لیں ہم کیوں سن لیں۔ آپ ساڑھے گیارہ بجے بتائیں کہ ہم کیا آرڈر اور کس کیخلاف آرڈر کریں۔ یہ کارکردگی ہے کیوں نہ ان افسران کیخلاف کارروائی کریں جو چار سال سے کچھ بھی نہیں کررہے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے سماعت 9 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ ملزم کی عدم گرفتاری کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرکے رپورٹ دیں۔