عدلیہ مخالف بینرز‘ پوسٹرز کیس، آئی جی اسلام آباد سے سات روز میں تحریری وضاحت طلب، اسلام آباد کے محفوظ ترین علاقے میں یہ 22 بینر کیسے لگائے گئے اگر ان کی جگہ 22 بم یا دھماکہ خیز مواد نصب کردیا جاتا تو علاقے کا کیا حشر ہوتا؟جسٹس جوادایس خواجہ، غفلت اور کوتاہی کے مرتکب پولیس افسران و اہلکاران کیخلاف کیا انضباطی کارروائی کی گئی؟‘ توفیق آصف اور گرفتار ملزم شفیق بٹ کے بھائی کا پولیس بیان ریکارڈ کرے،فرزندان اسلام کون ہیں؟ عدالت کا استفسار،پولیس اصل ملزموں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے اور انہیں بچانے میں مصروف ہے، جسٹس گلزار

جمعرات 3 جولائی 2014 05:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3جولائی۔2014ء) سپریم کورٹ نے عدلیہ مخالف بینرز‘ پوسٹرز کیس میں آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ سے سات روز میں تحریری وضاحت طلب کرلی ہے اور کہا ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ اسلام آباد کے محفوظ ترین علاقے میں یہ 22 بینر کیسے لگائے گئے اگر ان کی جگہ 22 بم یا دھماکہ خیز مواد نصب کردیا جاتا تو علاقے کا کیا حشر ہوتا؟‘ غفلت اور کوتاہی کے مرتکب پولیس افسران و اہلکاران کیخلاف کیا انضباطی کارروائی کی گئی؟‘ توفیق آصف اور گرفتار ملزم شفیق بٹ کے بھائی کا پولیس بیان ریکارڈ کرے‘ آئی جی اسلام آباد واقعہ میں تحقیقات کے حوالے سے پیشرفت رپورٹ پیش کریں‘

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں بینرز کی عبارت سے نہیں عوام الناس کی سکیورٹی سے غرض ہے‘ اسلام آباد جیسے محفوظ اور اس کے محفوظ ترین علاقے ریڈ زون میں بینرز کی جگہ اگر بم لگادئیے جاتے تو اس کا کیا حشر ہوتا‘ آئی جی خود نااہلی کا اقرار کررہے ہیں‘ عدالت پولیس فورس کا کام نہیں کرسکتی‘ عوام الناس کی سکیورٹی کاخیال نہ ہوتا تو پہلے ہی دن یہ مقدمہ خارج کریتے‘ پولیس ضمنی میں کچھ بھی نہیں لکھا۔

(جاری ہے)

ایک ماہ سات روز بعد اصل ملزم کو گرفتار کیا گیا‘ اصل مقاصد تاحال سامنے نہیں آسکے اس پر آئی جی کو تمغہ دیں یا انعام؟ پولیس کو خود اپنے فرائض کا ادراک نہیں ہے‘ کیا ہر کام کیلئے سپریم کورٹ ہی حکم جاری کرے؟‘ آئی جی اپنی ملازمت کا خیال کریں‘ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ پولیس اصل ملزموں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے اور انہیں بچانے میں مصروف ہے۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پیشرفت ہوئی ہے اصل ملزم راشد رشید کو گذشتہ رات گرفتار کرلیا ہے ان کا ریمانڈ لے لیا گیا ہے اور قانون اپنا کام کررہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہماری تشویش اس بات پر ہے کہ یہ سکیورٹی کی ناکامی ہے‘ یہ غیر متعلقہ بات ہے۔

ہر شہری جاننا چاہتا ہے کہ ایسا کیسے ہوگیا آئی جی کو اس کا پتہ ہی نہیں۔ قوم طفل تسلیوں پر گزارہ کرلے‘ اسلام آباد محفوظ جبکہ ریڈ زون محفوظ ترین ہے۔ آئی جی آفتاب چیمہ نے کہاکہ میں نے اسی وقت نوٹس لے لیا تھا‘ ملزم گرفتار اور مقدمات بھی درج کئے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ اور ناکہ نہیں ہے۔ مغرب کے بعد اگر مجھے نکلنا پڑے تو مجھے جگہ جگہ سکیورٹی کی وجہ سے روکا جاتا ہے‘ کتنے ناکے لگے ہوئے ہیں‘ پنجاب ہاؤس سے سرینا تک چار ناکے لگے ہوئے ہیں۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ بتائیں کہ اپنے لوگوں کیخلاف کیا کارروائی کی گئی ہے کیا وہ ڈھکی چھپی جگہ تھی؟ آئی جی نے کہا کہ ناکوں سے تھوڑا الگ لگے ہوئے تھے جو ذمہ دار ہیں ان کیخلاف کارروائی ہوگی۔ ہم نے پہلے بھی اتارے تھے کچھ کا پتہ نہیں چل سکا تھا۔ 22 کے قریب بینر اتارے ہیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ان کا کہیں اندراج بھی کیا گیا ہے یا نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پاکستان کے ہر شہری کو بتایا جائے کہ اسلام آباد کے محفوظ ترین علاقے میں ایسا کیوں کیا گیا۔

یہ بھول جائیں کہ کس نے لکھا ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ معاملات پر پردہ ڈالنے کے چکر میں ہیں اور لوگوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ایک ملزم کا تو پتہ چلا تھا اٹارنی جنرل نے بھی بتایا تھا۔

آئی جی نے کہا کہ ملزم کیخلاف مکمل ناکہ بندی کی تھی۔ 501‘ 502 اور 505 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ٹیلیفون اور تصویروں کی وجہ سے اسے شناخت کیا گیا۔

یہ اپنے اہل خانہ کو ملنے آیا تھا۔ نادرا کے ریکارڈ سے اس کی باقاعدہ شناخت کی گئی تھی۔ دو پہلے سے گرفتار بھی ملزم ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ریڈ زون میں موج ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہوگا۔ یہ تو بے ضرر بینر ہیں‘ کوئی باخبر 22 بم رکھ کر چلا جاتا تو کیا ہوتا۔ چار ناکے بھی موجود ہیں‘ کار‘ ڈالے یا کسی گاڑی میں بھی تو آئے ہوں گے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بینر لگے رہیں اور حکومتی ادارے لاعلم ہوں۔

ابھی تک آپ کی وضاحت کی سمجھ نہیں آئی۔ آپ نے کیا کیا ہے۔ ایک ماہ سات روز میں کیا کیا گیا ہے۔ پولیس فورس کیخلاف کیا کیا ہے۔ ایف آئی آر کی کاپی بھی دیں۔ یہ فرزندان اسلام کون ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل ملزم گرفتار ہوچکا ہے باقی معاملات بھی ایک دو روز میں مکمل ہوجائیں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ چار ناکے موجود ہیں۔ احسن الدین نے کہاکہ ہر اہم جگہ پر بینر آویزاں تھے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ کنونشن سنٹر کے قریب بھی ناکہ ہے‘ کچھ اور بھی ناکے ہیں۔ آپ کے اپنے عملے نے یہ غفلت کی ہے یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے۔ احسن الدین نے کہا کہ یہ کوئی ایک دن کا مسئلہ نہیں ہے۔ پراڈو گاڑیوں میں یہ لوگ سوار ہوکر آئے دوسرے روز فوٹو سٹیٹ کرواکر پمفلٹ تقسیم کئے گئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پمفلٹ کیلئے کسی ڈالے کی ضرورت نہیں۔

احسن الدین نے کہا کہ بہت نمایاں بینر تھے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ بینرز میں آخر اور لوازمات بھی تو استعمال ہوئے ہوں گے۔ آپ کے پاس جو بھی معلومات ہیں وہ پولیس کو دے دیں۔ آئی جی پولیس موجود ہیں۔ احسن الدین نے کہا کہ تمامتر تفصیلات پولیس کو دے دیں تفتیش کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچیں گے‘ تیسری چیز جو ہمیں سمجھ نہیں آری کہ آیا پولیس کے محکمے کے اندر ایسے لوگ بیٹھے ہیں‘ غفلت سے‘ نااہلی سے ایسا نہیں کیا گیا تو پھر یہ کیسے کیا گیا ہے۔

ایک مہینہ سات روز میں کیا گیا ہے۔ یہ بھی تاریخی واقعہ ہے پولیس کی کیا کارکردگی ہے۔ آئی جی نے کہا کہ ہم نے تمام ملزموں کو گرفتار کیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے تو ملزم کو کل گرفتار کیا ہے‘ ہم مہینے کی بات کررہے ہیں۔ بینرز کی عبارت پر نہ جائیں‘ 21‘ 22 بینرز کی جگہ اگر کوئی بم لگاکر چلا جاتا تو پھر کیا ہوتا۔ آئی جی نے کہا کہ مجھے وضاحت کرنے دیں۔

عدالت نے کہا کہ ہمیں پولیس فائل پڑھنے دیں پولیس کی کارکردگی کوئی اچھی نہیں لگ رہی ہے۔ اس دوران عدالت نے پولیس فائل کا مطالعہ کیا۔ جسٹس جواد نے آئی جی سے پوچھا کہ کیا آپ نے پولیس فائل دیکھی ہے اگر دیکھی ہوتی تو پولیس کی ناقص تفتیش کا آپ کو پتہ چل جاتا۔ آٹھ آٹھ دن کچھ نہیں کیا گیا۔ یہ پولیس کے نزدیک کیس کی اہمیت ہے اگر ہمیں ملک و قوم اور عوام الناس کی سکیورٹی کا خیال نہ ہوتا تو ہم پہلے دن ہی مقدمہ خارج کردیتے۔

آئی جی نے کہا کہ نااہلی اس قدر ضرور ہے کہ بینر لگ گئے اور ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کو تمغہ ملنا چاہئے۔

آئی جی نے کہا کہ اسلام آباد میں 54 سے 56 چیک پوسٹیں ہیں ہم صرف اسلحہ چیک کرتے ہیں۔ مجھے اس ایشو کی اہمیت کا ادراک ہے۔ بینر کھول کر پولیس نے نہیں پڑھے۔ پولیس اہلکاروں کے نزدیک اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔ یہ کام سی ڈی اے کا تھا کہ وہی لگاتے اور اتارتے ہیں۔

اشتعال انگیز بینر لگائے گئے۔ اہلکاروں کیخلاف تحقیقات کا آرڈر جاری کروں گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اپ کی اپنی بھی تو کوئی ذمہ داری بنتی ہے۔ آپ نے نااہلی تسلیم کرلی۔ مشکل یہ ہے کہ ہم اس کا آرڈر جاری نہیں کرسکتے کہ آپ اپنا محکمہ کس طرح چلائیں گے۔ آج کیس چلا ہے تو آپ انضباطی کارروائی کی بات کررہے ہیں جو قابل قبول نہیں ہے۔ بینرز کا معاملہ چھوڑ دیں۔

27 مئی کو مقدمہ درج ہوا ہے اور آپ کی پیشرفت یہ ہے کہ پولیس رپورٹ اور فائل ایک عجوبہ ہے۔ آپ کیخلاف کیوں نہ کارروائی کی جائے۔ اظہر محمود تفتیشی بہت ماہر لگتا ہے‘ روٹین کا معاملہ سمجھ کر تفتیش کی گئی۔ احسن الدین نے کہا کہ ایف آئی آر میں صرف ایک بینر کا ذکر ہے ان کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے نقص امن قرر دیا‘ سی ڈی اے کیا کرتا رہا ہے۔ غیرقانونی بینر تین دن تک لگے رہے سی ڈی اے غیرقانونی بینر اتارنے میں ذرا بھی وقت نہیں لگاتا اس میں سی ڈی اے نے ایسا کیوں نہیں کیا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ایک بینر کا ذکر ہے۔ احسن الدین نے ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔ پولیس نے دوران گشت بینر پڑھا تھا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ کتنے لوگوں کے بیانات ریکارڈ کئے ہیں۔ تفتیشی نے بتایا کہ دو افراد کے بیانات ریکارڈ کئے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ رش لگا ہوا تھا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ نقص امن کا خطرہ کون لوگ پیدا کررہے تھے۔ توفیق آصف نے کہا کہ رات گیارہ بجے سے صبح تین بجے تک بینرر لگائے گئے۔

راشد تو صرف فیور دے رہے تھے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آئی جی نے خود بھی ضمنیاں نہیں دیکھیں ابھی ان سے وضاحت بھی طلب کریں گے کہ ایسا کیوں ہوا‘ آئندہ کیا ہوگا‘محکمانہ کارروائی کیا ہوگی؟ آیا یہ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ پولیس کا محکمہ چلائے۔ ہم نے بات کی ہے تو اب یہ تادیبی کارروائی کی بات کی ہے بعدازاں عدالت نے حکم نامہ تحریر کروایا۔

ہم نے بار بار کہا ہے کہ پولیس نے کوئی خاص کاروائی نہیں کی۔ اظہر محمود ایس آئی تھانہ آبپارہ نے ایف آئی آر درج کی ہے اس کے بعد پولیس فائل یہ ظاہر کرتی ہے کہ مقدمے میں تفتیش کا ناقص ترین معیار اپنایا گیا۔ دو ملزمان 27 مئی کو گرفتار ہوئے جبکہ اصل مجرم راشد گذشتہ روز گرفتار کیا گیا۔یہ بدقسمتی ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے ایک ماہ کے بعد اصل ملزم گرفتار ہوا۔

آئی جی پولیس پیش ہوئے ہیں وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ بتاسکیں کہ پولیس نے صحیح تفتیش کیوں نہیں کی۔ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ پولیس کی نااہلی ہے۔ پولیس فورس اسلام آباد کے سربراہ ہونے کی وجہ سے سات روز میں وضاحت پیش کریں کہ یہ نااہلی کیوں ہوئی ہے۔ انضباطی کارروائی ابھی تک کیوں نہیں کی گئی۔ کیا یہ ملزمان یا افراد کو کور کرنے کی کوئی کوشش تو نہیں ہے؟۔

ہم نے پولیس فائل بھی دیکھی ہے اس میں واضح ہے کہ پولیس نے کوئی خاص پیشرفت نہیں کی۔ لمبے عرصے تک کچھ بھی نہیں کیا گیا یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ آئی جی نے تمام ضمنیاں نہیں دیکھیں۔ ہم پھر زور دے رہے ہیں کہ وہ لوگ جو اس میں ملوث تھے جو 21 یا 22 بم یا دھماکہ خیز مواد بھی بینرز کی جگہ لگا سکتے تھے اس سے کتنی تباہی ہوتی۔ ہمیں شہریوں کی سکیورٹی سے غرض ہے۔

احسن الدین اور توفیق آصف نے اصل ملزم راشد کے حوالے سے ایک ماہ پہلے ہی انکشاف کیا تھا کہ پولیس اس کو خود گرفتار نہیں کررہی۔ وہ ریاست مخالف سرگرمی میں مبینہ طور پر ملوث ہے۔ اے جی نے کہا کہ راشد کے حوالے سے ہم نے بتایا تھا۔ عدالت نے توفیق سے کہا کہ آپ اپنا بیان ریکارڈ کرادیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کسی اور کو تفتیشی مقرر کردیں ہمیں پولیس فورس نہیں چلانی۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ بظاہر تفتیشی کہہ رہا ہے کہ آبپارہ گیا ہوں ایک بینر لگا دیکھا جس سے نقص امن کا خطرہ تھا اسلئے مقدمہ درج کیا گیا۔ آئی جی نے کہا کہ میں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مقرر کی ہے جس کی سربراہی ایس پی کررہا ہے میں خود بھی اس کی نگرانی کروں گا۔ کرائم رجسٹر پر روزانہ کا اندراج کیا جاتا ہے۔ احسن الدین نے کہا کہ ضمنی روز لکھنا ضروری ہے نہ لکھنے پر وضاحت دینا پڑتی ہے۔

آئی جی اسلام آباد تمام معاملات بارے رپورٹ اگلی سماعت پر داخل کریں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ خود اپنے کیریئر پر دھبہ نہ لگائیں آپ کا بہت تجربہ ہے۔ آپ 7 جولائی تک اپنی رپورٹ جمع کروادیں۔ شفیق بٹ کے بھائی یعقوب بٹ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے بھائی نے دس سال ہوئے پینٹری چھوڑ دی ہے عدالت نے ان کا بھی بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس کیس میں سب کیساتھ انصاف ہوگا۔ کیس کی مزید سماعت 8 جولائی کو کی جائے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ فرزندان اسلام ٹریس ہوئے یا نہیں‘ پتہ چلنا چاہئے۔