قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان بل 2014ء کثرت رائے سے منظور، پیپلز پارٹی کی حمایت ، ایم کیو ایم کی مشروط حمایت ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا ، بل دو سال کے لیے نافذ العمل ہوگا ، حراستی مراکز قائم کئے جائیں گے ، مشکوک افراد کو ساٹھ روز تک ریاستی ادارے حراست میں رکھ سکیں گے

جمعرات 3 جولائی 2014 05:35

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3جولائی۔2014ء)قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان بل 2014ء کثرت رائے سے منظور، پیپلز پارٹی کی حمایت ، ایم کیو ایم کی مشروط حمایت کی ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا ، بل کی دونوں ایوانوں کی منظوری کے بعد صدر کے پاس بھجوایا جائے گا ، صدر کے دستخطوں کے بعد بل دو سال کے لیے نافذ العمل ہوجائے گا ، بل کے تحت حراستی مراکز قائم کئے جائیں گے ، چوبیس گھنٹوں میں عدالت میں ملزمان کو پیش کیاجائے گا ، مشکوک افراد کو ساٹھ روز تک ریاستی ادارے حراست میں رکھ سکیں گے ، حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ اپوزیشن کے تحفظات کو دور کردیا گیا ہے اس کے باوجود تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اعتراضات سمجھ سے بالاتر ہیں ، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں ، دو سال بل کو دیکھیں گے ملک انتہائی مشکل حالات کا شکار ہے ، سندھ میں آئی ڈی پیز کے آنے پر پابندی نہیں اور اب بھی ایک کروڑ پختون سندھ میں آباد ہیں، پروپیگنڈہ بے بنیاد ہے۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے کہا کہ بل کی حمایت ضرور کرینگے مگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں برداشت نہیں بل پر مزیدغور کی ضرورت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن کی تجاویز ضرور مانی گئیں مگر ابھی بھی تحفظات ہیں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے ، جماعت اسلامی کے طارق اللہ نے کہا کہ تحفظ پاکستان بل آئین کے آرٹیکل دس اور آٹھ سے متصادم ہے خلاف آئین شقوں کو دور کیاجائے جب تک یہ دورنہیں ہوتے بل کی حمایت نہیں کرسکتے ۔

شیخ رشید نے کہا کہ بل کی حمایت کرتا ہوں مگر فائر کھولنے کا اختیار گریڈ 15 کی بجائے گریڈ 17کے آفیسر کو ہونا چاہیے ، آئی ڈی پیز کی بحالی کے لئے دو ماہ کے لئے پٹرول پر پانچ روپے اور بجلی بل پر دس روپے ٹیکس لگا کر آپریشن سے متاثرہ لوگوں کو رقوم فراہم کی جائیں، بل منظور ہونے کے بعد ایوان کااجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا ۔بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زاہد حامد نے تحفظ پاکستان بل کے اغراض و مقاصد بتائے اور حکومت کا موقف ایوان میں پیش کیا گیا ۔

تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرکے دوبارہ بل ایوان میں لائے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بل پر اتفاق رائے پایا گیا ہے اور سینٹ نے تیس جون کو بل کو اتفاق رائے سے منظور کیا اور اس میں ترمیم پہلے ہی ہوگئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ تحفظ پاکستان بل دو سال کے لیے ہے اور اس بل میں ریمانڈ کی مدت 90 دن سے کم کرکے 60دن کردی گئی ہے تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دہشتگردوں کیخلاف شہید ہونے والے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور آئی ڈی پیز قوم کے محسن ہیں ان کے ساتھ مکمل ہمدردی ہے انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز کے لئے سندھ اور پنجاب کو اپنے دروازے اس طرح سے نہیں کھلے جس طرح کھلنے چاہیں انہوں نے کہا کہ تحفظ پاکستان بل حکومت اکثریت سے پاس کرلے گی اور وزیر داخلہ ایوان میں موجود ہی نہیں ہیں ۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ یہ بحث صرف ملک میں نہیں بلکہ اس طرح کا قانون آنے پر بھارت میں بھی احتجاج ہوا تھا اوروہاں بھی عوام کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے قوانین منظور کرائے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے پیدا کرنا جمہوریت کا حق ہے انہوں نے کہا کہ مشکوک افراد کی زیر حراست کی مدت کم کرکے ساٹھ دن کردی گئی ہے مگر اس کے باوجود ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے کسی بھی شخص کو مجرم ٹھہرانے کے لیے پراسکیوشن ضروری ہے انہوں نے کہا کہ بلاوجہ کوئی روڑے اٹکانا نہیں چاہتے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ ملک کو اس وقت کن مشکلات کا سامنا ہے مگر اس میں ترمیم کے باوجود اس میں تحفظات ہیں اور اس بل پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لینگے ۔

متحدہ قومی موومنٹ کے فاروق ستار نے تحفظ پاکستان بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے روز اول سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ملک کے تمام مسائل خصوصاً دہشتگردی کیخلاف پارلیمانی ، سیاسی جماعتیں اور پاک فوج کو ایک پیج پر ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح گزشتہ اکتوبر میں آرڈیننس کی صورت میں لایا گیا تو اس وقت کہا تھا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کالا قانون ہے انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف سخت قانون کے مخالف نہیں ہیں سخت قانون ضرور ہو مگر آئین سے متصادم کوئی قانون قابل قبول نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ترمیم بہتر ہوئی ہیں اور اب قومی ذمہ داری بھی ہے کہ اس بل کو منظور کرائیں کیس ضروری ہے کہ ایک کل پارلیمانی جماعتیں کمیٹی بنائی جائے اور اتفاق رائے قائم کیاجائے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اقدام کو بھی روکا جاسکے اور بنیادی حقوق سلب نہ ہوں انہوں نے کہا کہ کسی بھی دہشت گرد یا عسکریت پسند کو گولی مارنے کا اختیار 15ویں گریڈ کے آفسر کودیئے جانا قبول ہے لیکن محکمہ کی داخلی تحقیقات کے بعد ایکسٹرنل انکوائری کیلئے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججز سے کرائی جائے انہوں نے کہا کہ شیڈول قوانین عسکریت پسندوں کو ڈیفنڈ کیا گیا ہے مگر دہشتگردوں اور طالبان کو ڈیفنڈ نہیں کیا گیا یہ ایک المیہ ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے جماعت اسلامی کے پارلیمانی سربراہ انجینئر صاحبزادہ طارق اللہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ تحفظ پاکستان پر ابھی تک تحفظات ہیں یہ آئین کی شق 10کے ساتھ متصادم ہے اس لئے اگر اس بل کو پاس کرنا ضروری ہو تو پھر آرٹیکل 8 اور آرٹیکل 10کے مطابق اس بل کو بتانا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ دہشتگردی ایک گھناؤنا جرم ہے اور اتنا ہی گھناؤنا جرم کسی پر دہشتگردی کا شک کرکے اسے موٹ کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کی تعداد کو بڑھا دیا جائے دہشتگردی کے حوالے سے قوانین پر نظر ثانی کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مشکل حالات میں پاک فوج کے ساتھ ہے انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کو ضرور سزا دی جائے مگر بے گناہوں کو گرفتار نہ کیاجائے انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے ایک ماہ کی تنخواہ پارلیمنٹ اپنے بے گھر عوام کو دیں تاکہ رمضان المبارک میں ان کی مشکلات دور ہوں انہوں نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ تحفظ پاکستان بل آئین سے متصادم ہے حکومت تحفظات دور کرے ورنہ یہ بل ان کے گلے میں پڑ جائے گا اس لئے اس بل کی مخالفت کرتے ہیں۔

عوامی مسلم لیگ کے پارلیمانی سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ تحفظات کے باوجود اس بل کی حمایت کرتے ہیں لیکن افسوس اس بل میں دہشتگردی کی تعریف نہیں کی گئی ہے۔ بتایا جائے کہ کس طرح ساڑھے سات سال درس نظامی کو شارٹ کرکے چار سال کہا گیا اور جہاد و افغانستان میں لوگوں کو بھجوا دیا گیا،میں مطالبہ کرتا ہوں کہ گریڈ پندرہ سے سترہ کے آفیسر کو مشکوک شخص کو گولی مارنے کا حکم دیا جائے انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز کی بحالی کیلئے پٹرول پر پانچ روپے اور بجلی کے بلوں پر دس روپے ٹیکس لگایا جائے اور یہ رقم دو سے تین ماہ کے لیے آئی ڈی پیز کو دی جائے ۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار ایوان سے غائب ہیں وہ ایوان میں آجائیں ان کو اپوزیشن کچھ نہیں کہے گی آج تحفظ پاکستان بل کے معاملہ ہے وزیر داخلہ کو ایوان میں ہونا چاہیے تھا ۔ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد نے کہا کہ دہشتگردوں کو کچل دیا جائے تحفظ پاکستان بل کا ازسرنو جائزہ لیا جائے پاکستان میں پولیس سیاست اور فرقہ سے منسلک ہے ۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ سات اپریل کو تحفظ پاکستان بل ایوان میں آیا اور سینٹ نے بل کو روکا اور اس میں مزید ترمیم کی گئی پیپلز پارٹی تحفظ پاکستان بل کو دو سال دیکھے گی اور ہم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات اور آپریشن کے فیصلوں کی حمایت کی ہے آئی ڈی پیز کو سندھ میں آنے سے نہیں روکا اور آج بھی سندھ میں ایک کروڑ پختون آباد ہیں انہوں نے کہا کہ قانون کسی پارٹی کیلئے نہیں بلکہ پوری قوم کیلئے ہے اور حکومت تاجک ، ازبک اور دیگر غیر ملکی دہشتگردوں کو مارے ۔

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زاہد حامد نے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے دی گئی ترمیم کو بل میں شامل کیا اب ان کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 8 اور دس کی نشاندہی کرنے والے کہتے ہیں گریڈ پندرہ کے آفیسر کو اختیار دینے کے معاملے پر بہت بات ہوئی ہے اور مکمل اتفاق کے بعد اس شق کو شامل کیا گیا ہے بعد ازاں سپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی شق وار منظوری لی تو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا البتہ ایم کیو ایم نے مشروط حمایت کی پیپلز پارٹی نے بھی بل کی مخالفت نہیں کی عوامی مسلم لیگ پختونخواہ میپ اور شیر پاؤ نے بھی بل کی حمایت کی جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی خاموشی حمایت حکومت کو پہلے بھی حاصل تھی اور تحفظ پاکستان بل 2014ء ایوان بالا کے ایوان زیریں سے بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا جس کے بعد ایوان زیریں کا ایک روزہ اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا ۔