سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں گرفتاری اور سزا کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے معاونت طلب کرلی ،عدالت عالیہ کے حکم نامہ سمیت دیگر ر یکارڈ بھی دو ہفتوں میں مانگ لیا، توہین عدالت کی پروسیڈنگز فوجداری اور سول نیچر نہیں ہوتیں،جسٹس جواد ایس خواجہ

بدھ 2 جولائی 2014 06:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2جولائی۔2014ء)سپریم کورٹ نے ریاض حنیف راہی کی جانب سے توہین عدالت کیس میں گرفتاری اور سزا کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق کے مرزا سے معاونت طلب کرلی ہے اور عدالت عالیہ کے حکم نامہ سمیت دیگر ریکارڈبھی دو ہفتوں میں مانگ لیا ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ توہین عدالت کی پروسیڈنگز فوجداری اور سول نیچر نہیں ہوتیں اب تک توہین عدالت کے جتنے بھی قوانین بنائے گئے ہیں ان میں منفی سزا شامل نہیں۔

انہوں نے ریاض حنیف سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ بھی کافی جذباتی ہیں بہاولپور میں آپ کے مڈ بھیڑ کا ذاتی طور پر مشاہدہ ہوچکا ہے معاملات کا جائزہ لے لیں ،ججز کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دئیے ہیں،جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں3رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی،اس دوران درخواست گزار نے ذاتی طور پر پیش ہوکر لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ان کو دی گئی سزا اور اپنے جرم پر عدالت کو آگاہ کیا اور کہا کہ جس دن کا فیصلہ جاری ہوا وہ مثل پر موجود نہیں،ان کیمرہ سماعت کی گئی ان کو دی گئی سزا غلط تھی،اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ عدالت کے دو آرڈر نہ کرائیں آپ نے معافی کی بھی درخواست دی تھی،آپ معاملات کا جائزہ لے لیں دو ہفتے بعد اس کو سن کر فیصلے کردیں گے۔