امریکی انسانی حقوق تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا لشکر جھنگوی کے خلاف فوری کارروائی کامطالبہ،حکومت پاکستان کے بین الاقوامی امدادی اداروں اور ملکوں کو بھی دباؤ ڈالنا چاہئے،تنظیم کی رپورٹ

منگل 1 جولائی 2014 08:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1جولائی۔2014ء ) انسانی حقوق کے بارے میں امریکی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں باالخصوص ہزارہ برادری کے قتل پر اپنی ایک تازہ رپورٹ میں لشکر جھنگوی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا ہے اور کہا ہے کہ اس حوالہ سے حکومت پاکستان کے بین الاقوامی امدادی اداروں اور ملکوں کو بھی دباؤ ڈالنا چاہئے۔

ہیومن رائٹس واچ نے یہ بات 62 صفحوں پر مشتمل اپنی رپورٹ ’ہم زندہ لاشیں ہیں: پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شیعہ ہزارہ ہلاکتیں“ میں کہی ہے۔ہیومن رائٹس کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے کہ حکومتی افسران اور سکیورٹی فورسز کو سمجھنا چاہیے کہ لشکر جھنگوی کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

(جاری ہے)

ہزارہ اور دوسری شیعہ برادری کے قتلِ عام پر بے عملی نہ صرف اپنے ہی شہریوں سے بے حسی اور بے وفائی ہے بلکہ اس کا مطلب جرائم کو جاری رہنے میں حصہ دار بننا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ اموات کے حوالے سے سب سے زیادہ خونریزی جنوری اور فروری 2013 میں ہوئی جب شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 180 افراد کا قتل ہوا۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اموات محض دو حملوں میں ہوئیں۔ ایک سنوکر کلب واقعہ تھا اور دوسرا سبزی منڈی حملہ۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی نے قبول کی۔ہیومن رائٹس واچ نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام عسکری گروہ جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں باالخصوص لشکر جھنگوی کا احتساب کیا جائے اور ان کو غیر مسلح اور منتشر کیا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر مسلسل جاری حملوں نے پانچ لاکھ کے قریب افراد کو خوف میں زندگی بسر کرنے، اپنی حرکات و سکنات کو محدود کرنے پر مجبور کردیا ہے۔’اس وجہ سے ان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی تعلیم اور ملازمت تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے کافی تعداد میں ہزارہ برادری کے افراد پاکستان سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

اس رپورٹ کی تیاری کے لیے ہیومن رائٹس واچ نے 100 سے زیادہ بچ جانے والے افراد و متاثرہ خاندانوں کے اراکین، قانون نافذ کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں اور خون مختار ماہرین سے انٹرویو کیے۔ہیومن رائٹس کے ایشیا ڈایریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی حکام لشکر جھنگوی کی جانب سے تشدد کو روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور ہزارہ برادری خوف و ہراس کی فضا میں زندہ رہنے پر مجبور ہے۔

یہ ایک شرمناک بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ پاکستانی حکام کا یہ کہنا ہے کہ ان کے حقوق کو محدود کرنا دراصل ان کے زندہ رہنے کی قیمت ہے۔‘

انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق بلوچستان میں متعین فوجی اور غیر فوجی سکیورٹی فورسز نے ہزارہ برادری پر حملوں کی تفتیش کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی آئندہ کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں 2012 میں کم از کم 450 شیعہ افراد کو قتل کیا گیا،ہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے بین الاقوامی اتحادیوں اور امداد دینے والوں کو چاہیے کہ وہ حکومت پاکستان پر دباوٴ ڈالیں کہ وہ بین الاقوامی حقوق کے سلسلے میں اپنے فرائض کی ادائیگی کرے اور بلوچستان میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے مجرموں کے خلاف مقدمات کی تفتیش اور عدالتی کرروائی کے ذریعے بہتر حکومت کے معیار کو فروغ دے۔

دوسری جانب فرنٹیئر کور کے ریٹائرڈ عہدیداران نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ہزارہ برادری کے افراد ’ایران کے ایجنٹ ہیں‘ اور ’ناقابل اعتبار‘ ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری اپنی حالتِ زار کو ’مبالغہ‘ کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ ان کو کسی دوسرے ملک میں پناہ مل جائے اور وہ ایران سے بھی مالی اور سیاسی امداد حاصل کر سکیں۔

متعلقہ عنوان :