پرویز مشرف نے ایمرجنسی کا حکم نامہ ذاتی حیثیت میں جاری کیا،سیکرٹری داخلہ،اس وقت کے سروسز چیفس کا بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایف آئی اے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے وزارت دفاع کے ذریعے کوشش کی مگر بیانات ریکارڈ نہ ہو سکے،ایسی کوئی شہادت نہیں ملی کہ ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل نے جوائنٹ چیفس آف سٹاف، سروسز چیفس یا کور کمانڈرز سے مشاورت کی تھی، یہ بات درست ہے کہ آرٹیکل 6کی ذیلی شق دو کے مطابق غداری کے اقدام میں معاونت کرنے پر بھی آرٹیکل چھ کا اطلاق ہو تا ہے مگر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں صرف پرویز مشرف کو ہی ملزم نامزد کیا گیا ہے،خصوصی عدالت میں جرح کے دوران جوابات

جمعہ 27 جون 2014 07:41

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27جون۔2014ء)سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمہ کی سماعت کے دوران مقدمہ کے شکایت کنندہ سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی کا حکم نامہ ذاتی حیثیت میں جاری کیا،اس وقت کے سروسز چیفس کا بیان ریکارڈ کرنے کے لئے ایف آئی اے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے وزارت دفاع کے ذریعے کوشش کی مگر ان کے بیانات ریکارڈ نہ ہو سکے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملی جس سے ثابت ہو کہ ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل پرویز مشرف نے جوائنٹ چیفس آف سٹاف، سروسز چیفس یا کور کمانڈرز سے مشاورت کی تھی، یہ بات درست ہے کہ آرٹیکل 6کی ذیلی شق دو کے مطابق غداری کے اقدام میں معاونت کرنے پر بھی آرٹیکل چھ کا اطلاق ہو تا ہے مگر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں صرف پرویز مشرف کو ہی ملزم نامزد کیا گیا ہے، عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت 02جولائی تک ملتوی کر دی،آئندہ سماعت پر وکیل صفائی سیکرٹری داخلہ پر جرح جاری رکھیں گے۔

(جاری ہے)

جمعرات کے روز سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے جاری رکھی۔سماعت کے موقع پر تیسرے روز بھی سیکرٹری داخلہ اور مقدمہ کے شکایت کنندہ شاہد خان پر پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے جرح جاری رکھی اور سوال کیا کہ کیا پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل سروسز چیفس اور کورکمانڈرز سے مشاورت کی تھی جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں ایسی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی۔

اس پر وکیل صفائی نے پوچھا کہ کیا تحقیقاتی ٹیم نے اس وقت کے سروسز چیفس اور کورکمانڈرز کے بیانات ریکارڈ کرنے کی کوشش کی تھی جس پر شاہد خان نے کہا کہ ”جی ہاں ، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے وزارت دفاع کے ذریعے ان کے بیانات ریکارڈ کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ کوشش کام نہ آسکی اور بیان ریکارڈ نہیں کیے جا سکے ، اس حوالے سے کی گئی کوشش کا ذکر تحقیقاتی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے“اس کے بعد فروغ نسیم نے سوال کیا کہ کیا وزارت دفاع کے ذریعے بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا جاسکا ؟کیا مسلح افواج رول آف بزنس کے تحت وزارت دفاع کے ماتحت نہیں آتیں ؟ اس پر شکایت کنندہ شاہد خان نے کہا کہ مناسب یہی تھا کہ وزارت دفاع کے ذریعے کوشش کی جاتی اور یہ درست ہے کہ مسلح افواج وزارت دفاع کے ماتحت ہیں تاہم فوج کا ایک اپنا قانون اور ضابطہ بھی ہے۔

اس پر فروغ نسیم نے سوال کیا کہ کیا پرویز مشرف وزارت دفاع کے ماتحت نہیں آتے تھے جس پر شاہد خان نے کہا کہ بطور آرمی چیف وہ وزات دفاع کے ماتحت آتے ہیں ، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ پھر باقی سروسز چیفس کو کیوں چھوڑ دیا گیا اور صرف پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کی کاروائی کیوں کی گئی ؟ اس کے جواب میں شاہد خان نے کہا کہ باقی سروسز چیفس بھی وزارت داخلہ کے ماتحت آتے ہیں مگر ایف آئی اے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقاتی رپورٹ میں صرف پرویز مشرف کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

اس موقع پر وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ بڑے کیسز میں روایت ہے کہ جرح کے دوران پہلے سوال لکھا جاتا ہے اور پھر جواب ، ایسا نہ ہو کہ یہ کیس کل سپریم کورٹ جائے اور ان کا مذاق بنے کہ استغاثہ نے معاونت نہیں کی

جس پر جسٹس فیصل عر ب نے کہا کہ آپ اطمینان رکھیں اگر کوئی بات آئی تو عدالت پر آئے گی۔چائے کے وقفے کے بعد فروغ نسیم نے دوبارہ جرح کا آغاز کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ سے سوال کیا کہ کیا قانون کے مطابق آرٹیکل کے 6کے ذیلی آرٹیکل 2کے مطابق غداری کے اقدام میں معاونت کرنے والوں پر بھی غداری کے مقدمے کا اطلاق نہیں ہوتا ؟ جس پر شاہد خان نے کہا کہ ایسا ہی ہوتا ہے، اس پر وکیل صفائی نے پوچھا کہ پھر تین نومبر کے اقدامات کے معاونت کاروں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ ا سکے جواب میں سیکرٹری داخلہ نے کہا تحقیقاتی رپورٹ، ثبوتوں اور شواہد کے مطابق صرف پرویز مشرف ہی اس کے ملزم قرار پائے ہیں اگر شریک کاروں کے خلاف ریکارڈ،ثبوت یا شواہد ملتے اور یا ان کا نام تحقیقاتی رپورٹ میں آتا تو ان کے خلاف بھی کاروائی ہوتی ہے مگر ایسا نہیں تھا جس کے باعث ان کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی۔

اس پر فروغ نسیم نے پوچھا کہ کیا تین نومبر کے اقدامات کی منظور ی وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم نے نہیں دی تھی اور اگر دی تھی تو ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جس کے جواب میں شکایت کنندہ نے کہا کہ انہوں نے منظوری دی تھی مگر ایمرجنسی کا حکم نامہ پرویز مشرف نے خود جاری کیا تھا اس لئے کابینہ ممبران یا وزیر اعظم کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی ۔بعد ازاں عدالت نے مقدمہ کی سماعت 02جولائی تک ملتوی کر دی ۔

متعلقہ عنوان :