سینٹ کی داخلہ کمیٹی نے تحفظ پاکستان بل کو ایک ترمیم کے ساتھ منظور کر لیا، گریڈ 15کے پولیس آفیسر کو گولی چلانے کا حکم دینے کا اختیار،ملک دشمن کی سزا 20سال قید ،ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دیدیا گیا، آرڈیننس کی مدت تین کم کر کے دو سال کر دی گئی،ملک دشمن کی تشریح شدت پسند ہوگی اور غیر ملکیوں کو بھی ملک دشمن تصور کیا جائیگا،مدددینے والا بھی اسی کیٹگری میں آئے گا،شدت پسندوں سے سوال نہیں کیا جاتا کہ کس ضابط کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں ،ریاست پر سوال اٹھائے جاتے ہیں ،زاہد حامد، آزاد عدلیہ اور طاقتور میڈیا کی موجودگی میں قانون کا غلط استعمال ناممکن ہے ،پرویز رشید، قانون نافذ کرنے والے خود ماورائے قانون اقدامات کرتے ہیں،طاہر مشہدی، اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ بنیادی حقوق دیکھیں ، جنگ کریں یا ملک بچائیں، افسران کو ائیر کنڈیشن کمروں سے نکل کر موقع پر موجود ہونا چاہیے، خواجہ ظہیر،سردار فتح حسنی کا بلوچستان میں کوسٹل گارڈ زکو سٹرکوں کی چیکنگ کے اختیارات پر تحفظات کا اظہار

جمعرات 26 جون 2014 07:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26جون۔2014ء)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے تحفظ پاکستان بل کو ایک ترمیم کے ساتھ منظور کر لیا ہے ، ترمیم کے تحت گریڈ 15کے پولیس آفیسر کو گولی چلانے کا حکم دینے کا اختیار دیا گیا ہے ۔بل کے تحت ملک دشمن مجرموں کی سزا کی دس سال قید کی سزا 20سال کر دی گئی ہے سپریم کورٹ کے علاوہ ہائی کورٹ میں بھی اپیل کا حق دے دیا گیا ہے ۔

تحفظ پاکستان آرڈیننس کی تین سالہ مدت کم کر کے دو سال کر دی گئی ہے ۔ملک دشمن کی تشریح شدت پسند ہوگی اور غیر ملکیوں کو بھی ملک دشمن تصور کیا جائیگا۔ دہشت گردوں کو کسی بھی قسم کی مدت فراہم کرنیوالے شہری کو بھی اسی کیٹگری میں رکھا جائیگا۔ گولی چلانے کی صورت میں واقعہ کی محکمانہ تحقیقات کی جگہ عدالتی تحقیقات کی جائیں گی۔

(جاری ہے)

انچارج وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ طالبان اور شدت پسندوں سے تو سوال نہیں کیا جاتا کہ وہ کس ضابطے اور قانون کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن حکومت اور ریاست پر سوال اٹھائے جاتے ہیں ،

وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ آزاد عدلیہ اور طاقتور میڈیا کی موجودگی میں قانون کا غلط استعمال ناممکن ہے ،آج کے دور میں اختیارات سے تجاوز کرنے والے اور قوانین کا غلط استعمال کرنے والے بچ نہیں سکتے اور عوام کے سامنے بے نقاب ہو جاتے ہیں۔

لاہور واقعہ کی مشترکہ تفتیشی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے،غلطی اور اختیارات سے تجاوز کرنے والے قانون سے نہیں بچ سکیں گے ۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے خود ماورائے قانون اقدامات کرتے ہیں اور شہریوں کو تیسرے درجے کی سطح پر رکھ کر گولیاں مار دی جاتی ہیں ۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی خواجہ ظہیر نے کہا کہ اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ بنیادی حقوق دیکھیں ، جنگ کریں یا ملک بچائیں،فورسز اور اداروں کو قانون کی مدد کی اشد ضرورت ہے، افسران کو ائیر کنڈیشن کمروں سے نکل کر قانون نافذ کرنے والے ذمہ داران کے ساتھ موقع پر موجود ہونا چاہیے۔

سینیٹر سردار فتح حسنی نے بلوچستان میں کوسٹل گارڈ زکو سٹرکوں کی چیکنگ کے اختیارات پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ کوسٹ گارڈ کو اختیارات دینے سے پورا بلوچستان سٹرکوں پر ہوگا۔ چیئر مین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے نشاط آئیل مل مسرور فیکٹری اور فاطمہ انٹرپرائزز کی کروڑوں روپے کی گیس چوری اور اربوں روپے کے ٹیکس چوری کے بارے میں دستاویزی ثبوٹ پیش کردیئے 30جون کی مقررہ حد ختم ہونے سے قبل معاملے کی محکمانہ انکوائری شروع کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

کمیٹی کا اجلاس چیئر مین سینیٹر محمد طلحہ محمود کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں انچارج وزیر قانون زاھد حامد وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کے علاوہ سینیٹرز سردار علی خان ، فتح محمد حسنی ، کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی ، بیگم نجمہ حمید، سپیشل ایڈوائزر وزیر اعظم پاکستان خواجہ ظہیر ،وزارت داخلہ کے نور لغاری ، وزارت قانون کے ملک حاکم خان ، ایف بی آر کے اشرف خان ، ڈپٹی ایم ڈی سوئی نادرن گیس موجود تھے ۔

وفاقی وزیر زاہد حامدنے کہا کہ رضا رربانی ، اعتزاز احسن سے گھنٹوں بحث کی گئی اورپارلیمانی قائدین کی تجاویز کو آرڈیننس کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔ دنیا بھر میں تحفظ پاکستان آرڈیننس سے بھی زیادہ سخت قوانین موجود ہیں موجودہ قانون کسی شخص یا جماعت کے خلاف نہیں ۔ کمزور قوانین یا قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملک دشمنوں کو سزائیں نہیں دی جا سکیں ۔

اداروں کو دشواریاں پیش آتی ہیں مجرم گواہوں کے عدالتوں میں نہ آنے کا فائدہ حاصل کر لیتے ہیں ۔ ملک میں جتنی شدت کے جرائم ہو رہے ہیں اس شدت کے سخت قوانین موجود نہیں مجرموں کو گرفتار کرنیوالے بعض اوقات خود عدالتوں میں مجرم بن کر کھڑے ہوتے ہیں ۔طالبان اور شدت پسندوں سے تو سوال نہیں کیا جاتا کہ وہ کس ضابطے اور قانون کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن حکومت اور ریاست پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اس لئے قانون کا بننا لازمی ہے ۔

چیئر مین کمیٹی محمد طلحہٰ محمود نے کہا کہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ اور ملک کے تحفظ کی ضرورت کے تحت تحفظ پاکستان آرڈیننس کا نفاذ ضروری ہے تاکہ کے جرائم کو روکا جا سکے ۔ مسائل کو میرٹ پر حل کرنے کیلئے قانون کی اشد ضرورت ہے ۔سینیٹر سردار فتح حسنی نے کہا کہ ن لیگ کی حکومت خوش قسمت ہے کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت حکومت کے ساتھ ہے ۔قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے بھی اقدامات ضروری ہیں اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومتوں کی ہوتی ہے ۔

وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ آزاد عدلیہ اور طاقتور میڈیا کی موجودگی میں قانون کا غلط استعمال ناممکن ہے ،آج کے دور میں اختیارات سے تجاوز کرنے والے اور قوانین کا غلط استعمال کرنے والے بچ نہیں سکتے اور عوام کے سامنے بے نقاب ہو جاتے ہیں۔دنیا میں بڑے بڑے ممالک میں بڑے بڑے واقعات اور حادثات رونما ہوتے ہیں اور اداروں کو بے تحاشہ اختیارات بھی ہیں لاہور واقعہ کی مشترکہ تفتیشی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس میں سول اور فوجی ایجنسیاں شامل ہیں ۔

غلطی کرنے اور اختیارات سے تجاوز کرنے والے قانون سے نہیں بچ سکیں گے ۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے خود ماورائے قانون اقدامات کرتے ہیں اور شہریوں کو تیسرے درجے کی سطح پر رکھ کر گولیاں مار دی جاتی ہیں ۔ عوامی نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کی جا ن و مال کا تحفظ کروائیں اب تو لاپتہ افراد اور ماورائے عدالت و قانون قتل کے بارے میں سپریم کورٹ بھی چیخ رہی ہے ۔

تحفظ پاکستان آرڈیننس کو سیاسی مخالفین کے خلاف نہ ہونے کی یقین دھانی کرائی جائے ۔ انچارج وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ تحفظ پاکستان بل 2013ی سے نافذ ہے جو دوبارہ ترامیم کو ملا کر قومی اسمبلی سے منظور ہوا ۔مختلف سیاسی جماعتوں کی ترامیم کو بھی شامل کر کے بل کو مذید بہتر کر دیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی مفاد میں سینیٹ سے متفقہ منظور کرانا چاہتے ہیں ۔

اپوزیشن کے اندیشوں کو ختم کر دیا گیا ہے اور تمام تحفظات بھی دور کر دیے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کی تین سالہ مدت کم کر کے دو سال کر دی گئی ہے ۔ملک دشمن کی تشریح شدت پسند ہوگی اور غیر ملکیوں کو بھی ملک دشمن تصور کیا جائیگا۔ دہشت گردوں کو کسی بھی قسم کی مدت فراہم کرنیوالے شہری کو بھی اسی کیٹگری میں رکھا جائیگا۔

گولی چلانے کی صورت میں واقعہ کی محکمانہ تحقیقات کی جگہ عدالتی تحقیقات کی جائیں گی اور کہا کہ صوبہ بلوچستان میں بھی بقیہ صوبوں کی طر ح محکمانہ تحقیقات کی بجائے عدالتی تحقیقات پر غور ہو رہا ہے۔ریاست اور ملک بچانے کیلئے جہاں جہاں اپریشن ہو رہا ہے وہاں عدالتی تحقیقات کی پابندی نہیں لگائی جا سکتی ۔ سینیٹر سردار علی خان نے کہا کہ افسران کو جو اختیارات دیے جار ہے ہیں اور قانون بنایا جار ہا ہے ۔

قانون کے نفاذ کی وضاحت کی جانی ضروری ہے جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ اس قانون کا نفاذ ملک کے چپے چپے پر ہو گا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی سپیشل ایڈوائز خواجہ ظہیر نے کہا کہ ماورائے عدالت قوانین پر عمل 1965کی جنگ سے شروع ہوا ۔ 1977کے مارشل لاء میں 3، 4سو قوانین کو ختم کر دیا گیا ۔ 2001میں بھی یہی صورتحا ل تھی ایک شخص ایک آرڈر کے تحت آئین کو روند ڈالتا تھا ۔

سالہا سال سے قانون کی چھتری موجود نہ تھی اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ بنیادی حقوق دیکھیں ، جنگ کریں یا ملک بچائیں اس وقت فورسز اور اداروں کو قانون کی مدت کی اشد ضرورت ہے ملک دشمن سائے کی طر ح ہر جگہ موجود ہیں ۔ افسران کو ائیر کنڈیشن کمروں سے نکل کر قانون نافذ کرنے والے ذمہ داران کے ساتھ موقع پر موجود ہونا چاہیے اور کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی گاڑی پر دو جھنڈوں کے باوجود رینجر ز نے اختیارات سے تجاوز کر کے گاڑی کی تلاشی لی ۔

وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے قانون نافذ کرنیوالے ایجنسیوں کو قانون کی چھتری فراہم کرنا ضروری ہے ۔ سینیٹرز طاہر مشہدی ، سردار علی خان ، سردار فتح حسنی نے گولی چلانے کا حکم دینے کا اختیار گریڈ 15سے اوپر کے پولیس آفیسر کو دینے کی تجویز دی جس پر اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا کہ اے ایس آئی چوکی کا انچارج ہوتا ہے اور علاقے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہوتی ہے اس لئے افیسر کا لفظ لکھا گیا تھا ۔

وفاقی وزیر زاھد حامدنے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1991سے نافذ العمل ہے اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا اب تحفظ پاکستان آرڈیننس پر اعتراضات کئے جار ہے ہیں ملک کے مشکل خالات اور مصیبت کے دور میں کہا جا رہا ہے کہ قانون کا استعمال غلط ہو گااور کہا کہ پارلیمنٹ نے عوام کو پیغام دینا ہے کہ ہم آرمڈ فورسز اور سول اداروں کی پشت پر کھڑے ہیں ۔

دنیا کی نظریں ہم پر ہیں یاد رکھیں کے یہ جنگ شدت پسندوں اور ملک دشمنو ں کے خلاف ہے اور کہا کہ فاٹا میں رینجرز اور ایف سی کو استعمال کرنے کا اختیار آئین کے آرٹیکل 247,248کے تحت صدر مملکت کو حاصل ہے ۔ سینیٹر سردار فتح حسنی نے بلوچستان میں کوسٹل گارڈ زکو سٹرکوں کی چیکنگ کے اختیارات پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سے قبل بھی اوتھل میں کو سٹ گارڈ ز نے خواتین کو تلاشی کے نام پر گاڑیوں سے اتار کر دس دس گھنٹے روکے رکھا ۔

کوسٹ گارڈ کو اختیارات دینے سے پورا بلوچستان سٹرکوں پر ہوگا۔

وفاقی وزیر زاھد حامد نے آگاہ کیا کہ ملک دشمن مجرموں کی سزا کی دس سال قید کی سزا 20سال کر دی گئی ہے سپریم کورٹ کے علاوہ ہائی کورٹ میں بھی اپیل کا حق دے دیا گیا ہے ۔ محکمانہ تحقیقات ہونگی ۔کمیٹی کے اجلاس میں چیئر مین قائمہ کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ ٰ محمود نے نشاط آئیل مل مسرور فیکٹری اور فاطمہ انٹرپرائزز کی کروڑوں روپے کی گیس چوری اور اربوں روپے کے ٹیکس چوری کے بارے میں دستاویزی ثبوٹ پیش کئے اور کہا کہ نا دہندہ کمپنیوں کے واجبات کی وصولی کا وقت 30جون 2014تک ہے ایف بی آر کا عملہ ملی بھگت کر کے ان کمپنیوں سے 62کروڑ رپے کی وصولیوں میں تاخیر کر رہا ہے اور ایف بی آر کے حکام نے کیس بند کرنے کیلئے بھی کروڑوں روپے کی رشوت وصول کی ہے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے ۔

ایف بی آر کے اشرف خان نے آگاہ کیا کہ 2012میں گیس چوری کی اطلاع ملی اور ٹیکس کمشنر نے نوٹس جاری کر دیا تھا ۔چیئر مین کمیٹی نے اراکین سے رائے کے بعد ہدایت دی کہ 30جون کی مقررہ حد ختم ہونے سے قبل معاملے کی محکمانہ انکوائری شروع کر دی جائے تاکہ اربوں روپے کرپشن کا یہ کیس مکمل طور پر بند نہ ہوسکے ۔

متعلقہ عنوان :