آئینی و قانونی حوالہ سے فوجی افسران کیخلاف مقدمہ عام عدالتوں میں چل سکتا ہے یا نہیں؟،سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹس جنرل سے وضاحت طلب کرلی

بدھ 25 جون 2014 07:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24جون۔2014ء) سپریم کورٹ نے مالاکنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے 35 لاپتہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے مقدمے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کی استدعاء پر معاونت کیلئے چاروں ایڈووکیٹس جنرل کو نوٹس جاری کردیئے ہیں اور استفسار کیا ہے کہ کیاآئینی و قانونی حوالہ سے فوجی افسران کیخلاف مقدمہ عام عدالتوں میں چلایا جاسکتا ہے یا نہیں؟اور سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے لطیف یوسفزئی کی درخواست پر ملتوی کی ہے جس میں انہوں نے عدالت سے استدعاء کی تھی کہ انہوں نے 27 جون تک جنوبی افریقہ میں جوڈیشل کانفرنس میں شرکت کیلئے جانا ہے اسلئے سماعت ملتوی کی جائے۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے منگل کے روز لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

اس دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان سلمان بٹ اور کے پی کے کے لاء افسر پیش ہوئے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے درخواست دے رکھی ہے کہ مقدمے کی سماعت ملتوی کی جائے۔ اے جی سلمان بٹ نے کہا کہ یہ اہم مقدمہ ہے اس میں آئینی و قانونی سوالات کی تشریح کیلئے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کئے جائیں اس پر عدالت نے نوٹس جاری کردئیے۔ اس دوران جسٹس جواد نے کے پی کے کے لاء افسر سے پوچھا کی کے پی کے حکومت نے ایف آئی آر کے اندراج کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ دینا تھی اس کا کیا بنا اس پر لاء افسر نے بتایا کہ سب ریکارڈ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے کے پاس ہیں ان کو کچھ معلوم نہیں، اس پر عدالت نے سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :