شمالی وزیرستان آپریشن، سب سے بڑا سانحہ، موخر کیا جائے،عمران خان ،ثناء اللہ کا استعفیٰ کافی نہیں اس کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جائے،حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے،شہباز شریف نے پنجاب کو پولیس سٹیٹ بنا دیا ہے، 1992میں نوازشریف نے پنجاب پولیس میں 25ہزار گلو بٹ بھرتی کیے، اگر بڑے سانحے سے بچنا ہے توآئی ڈی پیز کیلئے کولیشن سپورٹ فنڈسے خیبر پختونخوا کو فوری طور پر 6ارب روپے جاری کئے جائیں، تحریک انصاف کے چیئرمین کی پریس کانفرنس

پیر 23 جون 2014 05:35

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23جون۔2014ء)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعلی پنجاب سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ کافی نہیں اس کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جائے اور ان پولیس افسران اور اہلکاروں کو بھی گرفتار کیا جائے جنہوں نے عوامی تحریک کے نہتے کارکنوں پر گولیاں چلائیں،حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے،شہباز شریف نے پنجاب کو پولیس سٹیٹ بنا دیا ہے، 1992میں نوازشریف نے پنجاب پولیس میں 25ہزار گلو بٹ بھرتی کیے جن کو اب اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، عوامی تحریک کے کا رکنوں روکنے ، گرفتار کرنے اور ان کا راستہ روکنے کا سلسلہ بند کیا جائے ،تحریک انصاف کسی گرینڈ الائنس کا حصہ بننے نہیں جا رہی تاہم 27جون کے جلسے میں حکومت کے 2013کے عام انتخابات کی تاریخی دھاندلیوں کی انکوائری کا آخری موقع اور ڈیڈ لائن دیں گے اس کے بعد حکومت اس کی ذمہ دار خود ہوگی۔

(جاری ہے)

شمالی وزیرستان آپریشن اس وقت کا سب سے بڑا سانحہ ہے، وزیراعظم غیر ملکی دورے ترک کر کے اس معاملہ پر توجہ دیں اور خیبر پختونخواہ کو متایرن کی مدد کے کولیشن سپورٹ فنڈ سے فوری طور پر 6ارب روپے جاری کیے جائیں۔آپریشن کے متاثرین کے لئے 7ہزار روپے کی امداد ناکافی ہے فی خاندان کو ماہانہ 21ہزار روپے دیئے جائیں،اپنے صوبے کے تمام شہرآئی ڈی پیز کے لئے کھول دیئے ہیں ،پنجاب اور سندھ بھی مہاجرین کو نہ روکیں یہ اپنے رشتہ داروں کے پاس جانا چاہتے ہیں، شمالی وزیرستان آپریشن کو کچھ وقت کے بند کیا جائے تاکہ آپریشن سے متاثرہونے والے آبادی کے مکین یہاں سے نکل سکیں، اس وقت تک بنوں میں3لکھ 50ہزار سے زائد لوگ شمالی وزیرستان سے ہجرت کر کے آئے جبکہ اڑھائی لاکھ لوگ مزید آئیں گے جن کی ضروریات پوری کرنا حکومت کا فرض ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز اپنی رہائش گاہ پر ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

اس موقع پر وزیر اعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک، مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر شریں مزاری و دیگر بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز کے لئے ماہانہ ہزار کی امدادی رقم انتہائی کم ہے، بنوں میں دس لاکھ سے زائد آبادی ہے جبکہ پانچ سے چھ لاکھ آئی ڈی پیز کی وجہ سے شہر پر بوجھ بڑھے گاانہوں نے کہا کہ اب تک ڈیڑھ لاکھ بچے اور ایک لاکھ14ہزار خواتین رجسٹر ہو چکے ہیں،اس وقت آئی ڈی پیز کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے لوگ آدھی قیمت پر مویشی فروخت کر رہے ہیں اور نقل مکانی کیلئے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہناتھا کہ قبائلی روایات کے مطابق آئی ڈی پیز کیمپ میں کوئی بھی رہنا پسند نہیں کرتا، اس لئے یہ لوگ اپنے رشتہ داروں کے پاس جا رہے ہیں مگر ہمیں پتہ چلا کہ ان لوگوں کو پنجاب اور سندھ میں روکا جا رہا ہے اس لئے ان کی سندھ اور پنجاب کے لوگوں سے اپیل ہے کہ ان لوگوں کو نہ روکا جائے یہ پاکستانی ہیں اور اس وقت شدید غصے میں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن کی وجہ سے شہروں میں سیکورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں، اسلئے پولیس کیلئے اضافی فنڈز چاہئیں جبکہ علاج و صحت کے شعبے میں بھی اخراجات بڑھ گئے ہیں،انہوں نے کہا کہ رمضان میں مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور بنوں میں ہر چیز کی قیمت کئی گنا بڑھنے کا امکان ہے، صوبائی حکومت ابتدائی طور پر 35کروڑ روپے آئی ڈی پیز کیلئے جاری کر چکی ہے مزید فنڈز بھی جاری کرینگے ان کا کہنا تھا کہ اگر آپریشن سے قبل اعتماد میں لیا جاتا تو آئی ڈی پیز کیلئے مزید بہتر اقدامات کرتے انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے75ارب روپے سے خیبر پختونخوا کیلئے فوری طور پر 6ارب روپے دیئے جائیں۔

عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے آمد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اس لئے عوامی تحریک کے کارکنان کو روکا اور گرفتار کیا جا رہا ہے۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عوامی تحریک کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے ۔ایک سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھاکہ سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے دوران 83لوگوں کو گولیاں ماریں گئیں جن میں سے 12جاں بح ہوگئے ہیں پتہ باقی کتنے لوگ بچنتے ہیں مگر یہ حکومت کی بربریت کی بدترین مثال ہے۔

ایک سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن حقیقت میں جمہوری جماعت نہیں ہے اور ان کی حکومت بدترین جمہوریت کی اعلی مثال ہے۔ماڈل ٹاوٴن میں جس طرح نہتے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا اس کے بعد شہباز شریف کے پاس وزارت اعلی کے منصب پر رہنے کا کوئی قانونی جواز باقی نہیں اس لئے وہ فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور رانا ثناء اللہ کو بھی گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جائے ، ان پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے جو اس آپریشن میں ملوث تھے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے پنجاب کو پولیس سٹیٹ بنا دیا ہے ، تحریک انصاف سابق آئی جی پنجاب عباس خان کی 1992ء کی وہ رپورٹ پبلک کرے گی جس میں انہوں نے ہائی کورٹ بتایا تھا کہ نواز شریف کی وزارت اعلی کے دوران پنجاب پولیس میں 25ہزار لوگ خلاف میرٹ بھرتی کیے گئے جن میں بڑے مجرم اور گلو بٹ شامل تھے۔ان کا کہنا تھا کہ عام گزشتہ برس کے عام انتخابا ت میں انہوں نے پولیس کے ذریعے انتخابی نتائج تبدیل کیے اور ڈی پی اوز ان کے لئے ووٹ مانگتے نظر آئے جس کے ریکارڈ موجود ہیں۔

ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ نواز شریف وہ وقت یاد کریں جب وہ 2007ء میں پاکستان آئے تھے اور انہیں ایئرپورٹ سے واپس کر دیا گیا تھا اس لئے طاہرالقادری کے ساتھ وہ برتاوٴ نہ کیا جائے جو ماضی میں ان کے ساتھ ہوا ہے۔ایک سوال پر عمرن خان نے واضح کیا کہ تحریک انصاف کسی گرینڈ الائنس یا طاہرالقادری کی تحریک کا حصہ بننے نہیں جا رہی تاہم حکومت کو پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی سے سٹے آرڈز کے پیچھے نہیں چھپنے دیا جائے گا، ستائیس جون کے جلسے میں حکومت کو ڈیڈ لائن دیں گے اس کے بعد اپنے عمل کی ذمہ دار حکومت خود ہوگی۔

اس سے قبل پشاوردورے کے موقع پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو کمشنر ہاؤس بنوں میں آئی ڈی پیز کیلئے کئے گئے انتظامات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی جس کے بعد انہوں نے آئی ڈی پیز کیلئے ایف آر بنوں میں قائم کیمپ کا دورہ کیا جہاں انہیں کیمپ میں انتظامات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی جبکہ انہوں نے آئی ڈی پیز سے ملاقات اور بات چیت کر کے ان کے مسائل سے تفصیلی اگاہی بھی حاصل کی۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر بڑے سانحے سے بچنا ہے توآئی ڈی پیز کیلئے کوالیشن سپورٹ فنڈسے خیبر پختونخوا کو فوری طور پر 6ارب روپے جاری کئے جائیں۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے بنوں کے دورے کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ان کیساتھ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک،سپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر،صوبائی وزراء شاہ فرمان،عاطف خان شہرام ترکئی بھی موجود تھے۔

عمران خان نے کہا کہ آئی ڈی پیز کا ایک خاندان 13سے14افراد پر مشتمل ہے جن کیلئے سات ہزار کی امدادی رقم انتہائی کم ہے ۔انھوں نے کہا کہ بنوں میں دس لاکھ سے زائد آبادی ہے جبکہ پانچ سے چھ لاکھ آئی ڈی پیز کی وجہ سے شہر پر بوجھ بڑھے گا۔انھوں نے کہا کہ اب تک ڈیڑھ لاکھ بچے اور ایک لاکھ14ہزار خواتین رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے ۔

لوگ آدھی قیمت پر مویشی فروخت کر رہے ہیں اور نقل مکانی کیلئے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے ۔انھوں نے کہا کہ قبائلی روایات کے مطابق آئی ڈی پی کیمپ میں کوئی بھی رہنا پسند نہیں کرتا۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور پنجا ب میں آئی ڈی پیز کی آمد روکنے کے اعلانات انسانیت کیخلاف فیصلہ ہیں۔وزیرستان کے رہائشیوں کے جہاں بھی رشتے دار ہیں انہیں وہاں جانے دیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ آپریشن کی وجہ سے شہروں میں سیکورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں ،پولیس کیلئے اضافی فنڈز چاہئے جبکہ صحت کے میدان میں بھی اخراجات بڑھ گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ رمضان میں مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور بنوں میں ہر چیز کی قیمت دس گنا بڑھنے کا امکان ہے ۔انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت ابتدائی طور پر 35کروڑ روپے آئی ڈی پیز کیلئے جاری کر چکی،مزید پیسے بھی جاری کرینگے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپریشن سے قبل اعتماد میں لیا جاتا تو آئی ڈی پیز کیلئے مزید بہتر اقدامات کرتے۔انھوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کوالیشن سپورٹ فنڈ کے175ارب روپے سے خیبر پختونخوا کیلئے فوری طور پر 6ارب روپے دئے جائیں۔قبل ازیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو کمشنر ہاؤس بنوں میں آئی ڈی پیز کیلئے کئے گئے انتظامات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی جس کے بعد انھوں نے آئی ڈی پیز کیلئے ایف آر بنوں میں قائم کیمپ کا دورہ بھی کیا جہاں انہیں کیمپ میں انتظامات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی جبکہ انھوں نے آئی ڈی پیز سے بات چیت کر کے ان کے مسائل کے بارے میں پوچھا۔