شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ حکومت نے قومی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر یکطرفہ بنیادوں پر کیا ہے،سراج الحق ، آپریشن کے تمام تر نتائج اور ذمہ داری تنہا وفاقی حکومت پر عائد ہوگی ،ملک بحرانوں کی زد میں ہے اور جمہوریت ،پارلیمانی نظام اور قومی وحدت کیلئے خطرات بڑھتے جارہے ہیں ،لاہور میں عوامی تحریک کے کارکنوں پر پنجاب پولیس کی فائرنگ اور بہیمانہ تشدد نے ماضی کی فوجی آمریتوں کے ظلم کو پچھاڑ دیا ہے ، داخلہ اور خارجہ محاذ کیلئے قومی ترجیحات کا تعین کیا جائے ،فوجی آپریشن کے ذریعے بے گھر ہونے والے خاندانوں کیلئے بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کے شروع کرنے کی ضرورت ہے ،قبائلی علاقوں کیلئے تین سو ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا جائے،پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 19 جون 2014 08:09

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جون۔2014ء)امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ حکومت نے قومی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر یکطرفہ بنیادوں پر کیا ہے،اس لئے آپریشن کے تمام تر نتائج اور ذمہ داری تنہا وفاقی حکومت پر عائد ہوگی ،ملک بحرانوں کی زد میں ہے اور جمہوریت ،پارلیمانی نظام اور قومی وحدت کیلئے خطرات بڑھتے جارہے ہیں ،لاہور میں عوامی تحریک کے کارکنوں پر پنجاب پولیس کی فائرنگ اور بہیمانہ تشدد نے ماضی کی فوجی آمریتوں کے ظلم کو پچھاڑ دیا ہے ،افغانستان اوربھارت کے علاوہ خطے کی سیاست میں تبدیلیاں آرہی ہیں لیکن پاکستان میں انتشار ،عدم استحکام ،عدم اتحاد، غیر ذمہ دارانہ رویہ بدترین شکل اختیار کررہاہے،،داخلہ اور خارجہ محاذ کیلئے قومی ترجیحات کا تعین کیا جائے ،مسلح افواج پاکستان کی طاقت ہے لیکن اس طاقت کے استعمال کا فیصلہ کرنے کا حق حکومت کو ہے جو عوام کو جوابدہ ہے ،فوجی آپریشن کے ذرئعے بے گھر ہونے والے خاندانوں کیلئے بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کے شروع کرنے کی ضرورت ہے ،قبائلی علاقوں کیلئے تین سو ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز المرکز الاسلامی پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا جماعت اسلامی کے صوبائی ترجمان اسرار اللہ خان ایڈوکیٹ،جماعت اسلامی فاٹا کے جنرل سیکرٹری منصف خان مہمند اور دیگر قبائلی عمائدین بھی اس موقعہ پر موجود تھے

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کا فرض تھا کہ شمالی و جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کرانے کے فیصلے سے قبل قوم اور قومی قیادت کو اعتماد میں لیتے اور پارلیمنٹ میں بحث و تمحیص کے بعد کوئی فیصلہ کیا جاتا۔

(جاری ہے)

اے پی سی کے موقع پرتمام قومی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا لیکن حکومت نے پہلے دن ہی سے مذاکرات کی کامیابی کیلئے سنجیدہ رویے کا اظہار نہیں کیا بلکہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والی کیفیت رہی ،آپریش کا فیصلہ قبائلی عوام پر بجلی بن کر گرا ہے۔ جمہوری حکومت سے جمہوری فیصلے کی امید تھی جسے پورا نہیں کیا گیا۔۔لاکھوں قبائلیوں کو شدید گرمی میں ہجرت کرنا اور دربدر ہونا پڑے گا۔

اگر یہ لوگ افغانستان کی طر ف ہجرت کرتے ہیں تو وہاں پاکستان دشمن کئی طاقتیں انہیں ملک کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔ آپریشن سے ایک بہت بڑا انسانی المیہ رونما ہوگا۔ حکومت یکطرفہ فیصلہ کرے گی تو مستقبل کے تمام تر نتائج کی ذمہ دار ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں طویل مدت سے فوجی آپریشن جاری ہے ، ملک بھر میں تشدد ،تخریب کاری اور دہشت گردی کے خوفناک واقعات کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کردیاہے۔

مذاکرات کے دروازے عملاً بند کردیئے ہیں ، حکومت نے یہ فیصلے یکطرفہ بنیادوں پر کیے ہیں ، قومی قیادت اور خیبر پختونخوا ہ حکومت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا ،لاہور کا ذکر کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہلاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی دفاتر اور ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ پر پنجاب پولیس کا وحشیانہ ، ظالمانہ اور انسانوں کے قتل اور تشدد کاواقعہ بڑاالمناک ہے۔

پنجاب حکومت جو گڈ گورننس کی دعویدار ہے اس واقع نے پنجاب حکومت کے تمام دعوے بھی بے نقاب کردیئے ہیں اور سیاسی کارکنان پر ظالمانہ تشدد نے فوجی آمریتوں کے ظلم کو بھی پچھاڑ دیا ہے ، پنجاب حکومت اپنی ناکامی تسلیم کرے ، واقع کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے ہم ڈاکٹر طاہر القادری اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان سے مکمل یکجہتی اور ہمدردی کااظہار کرتے ہیں سیاست میں ریاستی تشدد روکنے کے لیے واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جائے۔

نہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی قبائلی علاقوں خصوصاً جنوبی ، شمالی وزیرستان سے فوجی آپریشن کے نتیجہ میں بے گھر ہونے والے متاثرین کی ہر طرح سے مدد کرے گی ، الخدمت فاؤنڈیشن اور دیگر رضاء فلاحی اداروں سے اہیل ہے کہ وہ مدادی کاروائیوں کے لیے مکمل لائحہ عمل تیارکرلیں ، قبائلی عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ، انسانی بنیادوں پر محب دین ، محب وطن ،قبائلی عوام کی مدد کی جائے گی ،وفاقی حکومت بے گھر اور بے روزگار ہونے والے قبائلی عوام کی فوری اور ترجیحی بنیاد پر اقدامات کرے ۔

صوبائی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے گی ۔اور سوبائی حکومت نے فوجی آپریشن کے متاثرین کیلئے 30 کراڑ روپے مختص کردئے ہیں

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں کئی طرح کے تصادم اور فوجی آپریشن مسلسل جاری ہیں ، فوجی افسروں اور جوانوں کی شہادتیں پوری قوم کامشترکہ نقصان ہے ، اب وقت آگیاہے کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلاء اور خطہ میں مستقبل کی نئی صورت حال کے لیے قومی اتحاد ، قومی ترجیحات ، تمام فریقوں کو آن بورڈ کرنے کے لیے واضح دوٹوک با اعتماد روڈ میپ بنایاجائے ۔

امن کے لیے قبائلی علاقوں میں صرف اور صرف فوجی آپریشن ، طاقت کے استعمال اور قبائلی عوام میں بے اعتماد ی پیداکرنے کی بجائے ان اقدامات کا اہتمام کیاجائے۔فوجی آپریشن میں بے گناہ ، معصوم مردو خواتین ، بچوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوجی آپریشن متاثرین کی بر وقت مدد کی جائے اور شدید گرم موسم میں حفاظت کے لیے مرد وخواتین اور بچوں کی حفاظت کی جائے۔

قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے 300ارب روپے کاخصوصی پیکیج دیا جائے اور دیانت داری کی بنیاد پر فنڈز کا استعمال یقینی بنایاجائے۔قبائلی علاقوں میں ایف سی آرکاظالماننظام ختم کیاجائے اور عوام کو آئینی ،عدالتی اور انسانی حقوق کاتحفظ دیاجائے۔قبائلی علاقوں میں بلدیاتی ادارے فراہم کیے جائیں ، مقامی قیادت کے انتخاب کا قبائلی ووٹرز کو آزادانہ حق دیاجائے۔

پورے ملک میں بالعموم اور قبائلی علاقوں میں بالخصوص شفاف غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کے لیے انتخابی نظام قوم کی اُمنگوں اور جمہوری تقاضوں کے مطابق بنایا جائے ۔ 11سیاسی جماعتوں کی مشترکہ کمیٹی برائے فاٹا اصلاحات کی سفارشات تسلیم کی جائیں، روشن اور خوشحال فاٹا کے لیے تمام قومی ،دینی سیاسی جماعتیں متحد ہیں

انہوں نے وضح طور پر کہا کہ ہم یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مسلح اور پرتشددذرئعوں سے شریعت نافذ نہیں ہوسکتی ،جماعت اسلامی تمام عسکریت پسندوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ریاست سے ٹھکرانے کی بجائے قومی دھارے میں شامل ہوکر پر امن آئینی اور جمہوری ذرائع سے اپنے پروگرام اور ایجنڈے کو نافذ کرنے کیلئے جدوجہد کریں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فوجہ آپریشن کے باوجود مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے جائیں جب ان سے کہا گیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کا وقت آگیا ہے تو اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بقر عید سے قبل کوئی بھی قربانی درست نہیں ہوگی انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے چاہئیں تاہم اس کیلئے حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ پانچ سال پورے کرنے کیلئے اپنی اہلیت کا مظاہرہ کرے ۔