ماضی کے67سال کا مسئلہ ایک دن میں حل کرنا ناممکن ہے، اسحاق ڈار ، 2200میگاواٹ کا ایک نیا بجلی کا منصوبہ لگایا جارہا ہے جو ماحول دوست ہوگا، ترسیل زر کی مد میں گزشتہ 11ماہ میں 14ارب 33کروڑ ڈالر موصول ہوئے، سوئس اکاؤنٹس میں موجود 200ارب ڈالر واپس لانے کیلئے حکومت نے عملی اقدامات کئے ،میری پوری بجٹ تقریر میں سود کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا میں نے منافع کا لفظ استعمال کیا ہے،نجکاری بارے کوئی نئی فہرست نہیں بنائی،پرانی فہرست میں شفافیت،ملازمین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا ، وزیراعظم کیلئے خریدی گئی بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑیاں کابینہ ڈویژن نے لی ہیں،آج بینظیر بھٹو شہید کی روح ان کی اپنی پارٹی کی بجائے ہم سے زیادہ خوش ہوگی،چند لوگوں سے ملک کی ترقی ہضم نہیں ہو رہی،وفاقی وزیر خزانہ کا قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

جمعرات 19 جون 2014 08:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جون۔2014ء)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ماضی کے67سال کا مسئلہ ایک دن میں حل کرنا ناممکن ہے، 252ارب روپے کا ایک نیا گردشی قرضہ ہے جس میں حکومت نے سبسڈی دینا ہے اور دوسر ے حصے میں پیسوں کی وصولیاں کرنی ہیں،سول نیوکلےئر پروگرام کے حوالے سے کوئی لیت ولعل نہیں کیا گیا، 2200میگاواٹ کا ایک نیا بجلی کا منصوبہ لگایا جارہا ہے جو ماحول دوست ہوگا، ترسیل زر کی مد میں گزشتہ 11ماہ میں 14ارب 33کروڑ ڈالر موصول ہوئے ،سوئس اکاؤنٹس میں موجود 200ارب ڈالر واپس لانے کیلئے حکومت نے عملی اقدامات کئے،دعوے کرنا نہایت آسان تاہم عملی طور پر یہ ایک مشکل کام ہے،میری پوری بجٹ تقریر میں سود کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا بلکہ میں نے منافع کا لفظ استعمال کیا ہے،نجکاری بارے کوئی نئی فہرست نہیں بنائی،پرانی فہرست میں شفافیت،ملازمین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا ، وزیراعظم کیلئے خریدی گئی بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑیاں کابینہ ڈویژن نے لی ہیں،آج بینظیر بھٹو شہید کی روح ان کی اپنی پارٹی کی بجائے ہم سے زیادہ خوش ہوگی،چند لوگوں سے ملک کی ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روزقومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران بحث سمیٹتے ہوئے کیا ۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ایک پبلک آفس اور فرد کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہونا افسوسناک ہے،کیونکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ایوان کا حصہ ہے اور اس ایوان کی نمائندگی کرتی ہے،وہ اس فعل کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور یہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہی نہیں بلکہ پورے ایوان کی بے عزتی ہے،انہوں نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا نام لئے بغیر ان کیخلاف کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایوان کے ساتھ ہیں،وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ 252ارب روپے کا ایک نیا گردشی قرضہ ہے جس میں حکومت نے سبسڈی دینا ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے کہ جس میں پیسوں کی وصولیاں کرنی ہیں،سول نیوکلےئر پروگرام کی حمایت کی گئی ہے اور اس حوالے سے کوئی لیت ولعل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ اتوار کو چین کے ایگزم بینک کی ٹیم ان کے پاس آئی تھی اور امید ہے کہ 30,31جون تک 31ارب روپے وصول ہو رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ 2200میگاواٹ کا ایک نیا بجلی کا منصوبہ لگایا جارہا ہے جو کہ ماحول دوست ہوگا،کوشش ہے کہ چینی ادارہ یہ منصوبہ خود لگائے اور ہمارے ٹیرف پر ہمیں بجلی فراہم کرے۔سوئس اکاؤنٹس کے حوالے سے وزیرخزانہ نے ایوان کو بتایا کہ 200ارب ڈالر کے سوئس اکاؤنٹس میں موجود پیسے کو واپس لانے کیلئے پاکستان مسلم لیگ(ن) نے عملی اقدامات کئے،دعوے کرنا نہایت آسان ہے تاہم عملی طور پر یہ ایک مشکل کام ہے،اس وقت امریکہ،برطانیہ اور جرمنی نے سوئس حکومت کے ساتھ معاہدے کئے ہوئے ہیں،یہ معاہدے فوراً نہیں ہوجاتے،ان میں وقت لگتا ہے،اگست میں سوئس گورنمنٹ کے ساتھ پہلا اجلاس ہوگا،جس کے بعد مزید پیشرفت ہوگی،

انہوں نے کہا کہ میری پوری بجٹ تقریر میں سود کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا بلکہ میں نے منافع کا لفظ استعمال کیا ہے،چارج سنبھالتے ہی اسلامک بینکنگ کی ایک سٹےئرنگ کمیٹی قائم کی ہے جو کہ31دسمبر تک اپنی سفارشات مکمل کرلے گی،ماضی کے67سال کا مسئلہ ایک دن میں حل کرنا ناممکن ہے۔

اسحاق ڈار نے ایوان کو بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ مردم شماری ہو،سابقہ حکومت نے اس حوالے سے کوشش کی تاہم وہ صرف گھروں کا شمار کرسکے اور بعد میں ان کی اپنی جماعت نے ان سے اختلاف کرلیا،مردم شماری کا مسئلہ ہر دفعہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش ہوتا ہے،تاہم بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ امن وامان کی صورتحال مناسب نہ ہونے کے باعث ان کو شدید تحفظات ہیں،ہماری حکومت مردم شماری کرانے کی بھرپور حمایت کرتی ہے،سپلیمنٹری گرانٹس پر سپریم کورٹ نے اپنا آرڈر واپس کیا ہے اور امید ہے کہ 14مئی کو فیصلہ حکومت کے حق میں آئے گا،نجکاری کے حوالے سے کوئی نئی فہرست نہیں بنائی تاہم پرانی فہرست میں شفافیت،ملازمین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور اس پر کوئی سودے بازی نہیں کی جائے گی،ہم چاہتے ہیں کہ نجکاری اس صورت میں ہو کہ 74فیصد شےئرز اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تاکہ کل اپنی مرضی کے فیصلے کروا سکیں،فہرست میں صرف لاکھڑا کا منصوبہ شامل کیا گیا ہے،اوورسیز کال جو کہ سابقہ دور حکومت میں 8روپے80پیسے تک چلی گئی تھی اس کو کم کرکے ایک سے دو روپے تک لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ٹیلکو آپس میں مقابلہ کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کیلئے خریدی گئی بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑیاں کابینہ ڈویژن نے لی ہیں اور ان ممالک کیلئے لی گئی ہیں جنہوں نے 1.5ارب ڈالر دئیے ہیں،یہ وہی دوست ملک ہیں جنہوں نے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہمیں مفت تیل دیا اور وہ گاڑیاں غیر ملکی وفود کیلئے استعمال کی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر 7سال بعد پاکستان آئے ہیں،3Gاور4Gٹیکنالوجی سے9لاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے،سابقہ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو 34ارب سے40ارب روپے تک پہنچایا ہم نے40ارب سے بڑھا کر118ارب روپے کردیا کیونکہ یہ غریب عوام کی بھلائی کیلئے تھا،حکومت اپنے منشور کے مطابق شفافیت اور میرٹ کو ترجیح دیتی ہے اور سرکاری فنڈز کا ایک ایک روپیہ سٹیٹ بینک میں جمع ہونا چاہئے جس کی ہم حمایت کرتے ہیں،آج محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی روح ان کی اپنی پارٹی کی بجائے ہم سے زیادہ خوش ہوگی،چند لوگوں سے ملک کی ترقی ہضم نہیں ہو رہی وہ اپنے کالم لکھتے ہیں اور اپوزیشن ان کالموں کے حوالے دیتی ہے چاہے وہ حقائق سے دور ہی کیوں نہ ہوں،یہ افراد تو دنیا کو کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو پیسہ کیوں دے رہی ہے،یہاں تو حالات ہی مناسب نہیں ہیں۔

ترسیل زر کی مد میں گزشتہ 11ماہ میں 14ارب 33کروڑ ڈالر موصول ہوئے جو کہ گزشتہ برس سے زائد ہیں،برآمدات گزشتہ11ماہ میں 22ارب 28کروڑ ڈالر تھیں،جس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔چےئرمین نجکاری کمیشن کے حلف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہا کہ آئین میں چےئرمین نجکاری کمیشن سے حلف لینا ضروری نہیں ہے،اگر چاہیں بھی تو حلف نہیں لے سکتے،حلف لینے کیلئے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 7برس میں انہوں نے پارلیمنٹ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا حتی کہ پارلیمنٹ کی ڈسپنسری سے دوا تک نہیں لی،اسی طرح بہت سارے اراکین اسمبلی جو کہ پارلیمنٹ میں موجود سہولیات کو استعمال نہیں کرتے ان کا عملہ ان کے نام پر ان سہولیات سے استفادہ کرتا ہے،لہٰذا سیکرٹریٹ کا آڈٹ کرنا ضروری ہے تاکہ اراکین اسمبلی کے نام پر ہونے والی کرپشن کو روکا جاسکے۔