سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کی 16سے 18سال کی لڑکیوں کی شادی کیلئے عدالت سے اجازت لازمی قرار دینے اور گلگت بلتستان کے نظام کو مزید مستحکم بنانے کیلئے مزید قانون سازی کی سفارش، وزیرستان اپریشن کے متاثرہ خاندانوں کی بحالی کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں اور رپورٹ ایوان میں بھی پیش کی جائے،رضا ربانی،بھاشا ڈیم کیلئے زمین کی خریداری کیلئے 15 ارب جبکہ 10ارب روپے ڈیم کی تعمیر کیلئے رکھے گئے، ڈیم سے 4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی او ر آئندہ سالوں میں گلگت بلتستان پاکستان کی ترقی کی شاہراہ ہو گا،سیکرٹری امور کشمیر کی بریفنگ

جمعرات 19 جون 2014 08:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جون۔2014ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 16سے 18سال کی لڑکیوں کی شادی کیلئے عدالت سے اجازت لازمی قرار دینے اور گلگت بلتستان کے نظام کو مزید مستحکم بنانے کیلئے مزید قانون سازی کی سفارش کی ہے جبکہ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہاہے کہ وزیرستان میں جاری اپریشن کے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ انسانی ہمددری کے اقدامات بہت ضروری ہیں متاثرہ خاندانوں کی بحالی کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں اور رپورٹ ایوان میں بھی پیش کی جائے۔

سیکرٹری امور کشمیر،گلگت و بلتستان نے بتایا کہ بھاشا ڈیم کیلئے زمین کی خریداری کیلئے 15 ارب جبکہ 10ارب روپے ڈیم کی تعمیر کیلئے رکھے گئے، ڈیم سے 4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی او ر آئندہ سالوں میں گلگت بلتستان پاکستان کی ترقی کی شاہراہ ہو گا۔

(جاری ہے)

بدھ کو یہاں پارلیمنٹ ہاؤ س میں سینیٹر افراسیاب خٹک کی صدارت میں ہونیوالے اجلاس میں 2009 ء کے آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے علاوہ ملک بھر میں خواتین کے ساتھ مختلف اقسام کے تشددو جرائم کے حوالے سے بریفنگ لی گئی،کمیٹی کے اراکین نے گلگت بلتستان کو 2009 ایکٹ کے ذریعے اور زیادہ مضبوط بنانے ،قانون ساز اسمبلی کو بااختیار بنانے اور گلگت بلتستان کونسل کے اختیارات میں اضافہ کے علاوہ مزدورں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے قانون سازی کی سفارش کی ۔

چیئر مین قائمہ کمیٹی افراسیاب خٹک نے کہا کہ اگر گلگت بلتستان کے موجودہ گھمبیر حالات پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں بلوچستان جیسے حالات پید ا ہونے کا خدشہ ہے۔ کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں قائمہ کمیٹی کے چیئرمین افراسیاب خٹک کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر ز میاں رضا ربانی ، فرحت اللہ بابر ، ہمنداس ، ثریا امیر الدین، فرحت عباس ، کے علاوہ وزارت امور کشمیر کے سیکرٹری شاہد اللہ بیگ ،قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن خاور ممتاز نے شرکت کی ۔

کمیٹی کے اجلاس میں گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے سب کمیٹی کی تجویز دی گئی جس کی میاں رضا ربانی نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے سے گلگت بلتستان کی قائمہ کمیٹی موجود ہے انسانی حقو ق کمیٹی اور گلگت بلتستان کی قائمہ کمیٹیوں میں باہمی اشتراک کی ضرورت ہے صر ف قراردادوں کے ذریعے جمع خرچ نہیں ہونا چاہے سرکاری کاغذات میں سب اچھا کی رپورٹ ہوتی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں۔

سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ انسانی حقوق کمیٹی کے دورہ گلگت بلتستان کے موقع پر کمیٹی کا اپنے مشاہدے کی بنیاد پر متفقہ موقف تھا کہ چین کے ساتھ گلگت بلتستان کے عوام کے مفادات کو ترجیح دے کر تجارت کو فروغ دیا جائے اور کہا کہ گلگت بلتستان میں نیشنل گرڈ موجود نہیں گلگت بلتستان کے عوام کے لئے ہر آواز اُٹھائیں گے گلگت اسمبلی اور کونسل کو مکمل با اختیار بنا کر ہی عوام کے مسائل کا حل ممکن ہے

سیکرٹری وزارت شاہد اللہ بیگ نے آگاہ کیا کہ 1973 کے آئین کے اور 2009 کے آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کالونی بلکہ وزیر اعلیٰ، گورنر ، کابینہ ، کونسل موجودہے جو حکومت پاکستان کے زیر نگرانی ہے وزارت امور کشمیر گلگت بلتستان کونسل سے رابطہ میں رہتی ہے اور عدلیہ مکمل آزاد ہے گلگت بلتستان میں الیکشن کمیشن کے قیام کے قواعد و ضوابط بن چکے آئندہ ماہ با اختیار الیکشن کمیشن قائم ہو جائے گا 2009 کا آرڈر گلگت بلتستان کے لئے مثبت پیش رفت ہے مسجد بورڈ بنانے سے مذہبی جھگڑے بند ہو گئے ہیں۔

چیئر مین کمیٹی افرسیاب خٹک نے کہا کہ این سی ایس ڈبلیو کو مزید فعال اور مضبوط بنانے کے لئے اس کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے اور کہا کہ قصاص جیسے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جائے، بھائی قتل کرتا ہے اور دباؤ کے ذریعے قاتل کو معافی دلوا دی جاتی ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ میں نے خود گلگت بلتستان 2009 آرڈر کو بہتر بنانے کے لئے کام شروع کر دیا ہے اور اس سلسلے میں سینیٹ آف پاکستان میں سات قراردادیں جمع ہیں تا کہ آرڈر پر نظر ثانی کی تجاویز کے ذریعے گلگت بلتستان کے ادروں کو اور زیادہ مضبوط بنایا جاسکے اور کہا کہ اگر تحفظ پاکستان آرڈنینس گلگت بلتستان پر لاگو ہو سکتاہے تو انسانی حقوق کے تحفظ کے قانون پر عمل درآمد میں مشکلات کیوں ہیں بیورو کریسی دراصل نہیں چاہتی کہ اختیارات میں کمی ہو چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان دنوں کی الگ الگ حیثیت ہے لیکن بد قسمتی سے دونوں کو اسلا م آباد سے ڈکٹیٹ کیا جاتاہے۔

افراسیاب خٹک نے کہاکہ شمال وزیر ستان میں جاری آپریشن کے متاثرہ درجنوں خاندانوں کے خطوط اور فون موصول ہوئے ہیں متاثرہ خاندان بنوں کوہاٹ کے شہری علاقوں میں رہنا چاہتے ہیں لیکن حکومت متاثرہ خاندانوں کی درخواست پر دھیان نہیں دے رہی اور کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں انسانی بنیادوں پر بہتر سے بہتر ماحول او ر سہولیات فراہم کریں۔

سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ گلگت بلتستان میں موسم گرما میں 300 میگاواٹ بجلی اور موسم سرما میں 400 میگاواٹ بجلی ضرورت ہے اور جنریشن صرف 96 میگاواٹ ہے نیشنل گرڈاسٹیشن کے قیام کیلئے پانچ ملین سے کام کا آغاز ہو گیا ہے بھاشا ڈیم کیلئے زمین کی خریداری کیلئے 15 ارب روپے جبکہ 10ارب روپے ڈیم کی تعمیر کی لئے رکھے گئے کل زمین 30 ہزار کنال حاصل کی گئی اور 19 ہزار کنال کی ادائیگیاں کر دی گئی ہیں، بھاشا ڈیم سے 4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی او ر آئندہ سالوں میں گلگت بلتستان پاکستان کی ترقی کی شاہراہ ہو گا۔

کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ پانچ ماہ میں سندھ میں عورتوں کے ساتھ جرائم میں نمایاں کمی ہوئی ہے اسلام آباد میں 42 مقدمات رجسڑڈ ہوئے 197 لیڈی کانسٹیبلان کی تعداد میں خاطرخواہ اضافے کی ضرورت ہے خیبر پختونخوا میں بھی قتل اور ریپ کے واقعات کمی ہوئی ہے فری رجسٹریشن کی وجہ سے 510 مقدمات درج ہوئے 246 کو مجرم قرار دیا گیاگواہوں کے عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے مجرموں کو سز ا نہیں ہوسکتی سندھ حکومت نے چائلڈ لیبر قانون سازی کر لی پنجاب تیار ہے دیگر صوبے قانون سازی نہیں کر سکے۔

کمیٹی کے اراکین نے کہاکہ 16 سے 18 سال کی عمر کی شادی کو عدالت سے اجازت لازم قرار دیا جائے ۔

سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ ملک میں خواتین کے ساتھ بہت زیادہ زیادتیاں ہو رہی ہیں سوسائٹی انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم دن بدن انحطاط کا شکار ہیں اور کہا کہ وزیرستان میں جاری اپریشن کے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ انسانی ہمددری کے اقدامات بہت ضروری ہیں متاثرہ خاندانوں کی بحالی کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں اور رپورٹ ایوان میں بھی پیش کی جائے۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی افراسیاب خٹک نے کہا کہ ریاست اور قوم کو یکجا کرنا قومی اتحاد قائم کروانا پارلیمنٹ کا کام ہے، رائے عامہ ، نصاب ، میڈیا ، قانون سازی ، مخصوص ذہنیت کو تبدیل کرنے کیلئے مشترکہ جدو جہد کی ضرورت ہے ۔کمیٹی کے اجلاس میں گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے سینیٹر میاں رضاربانی، فرحت اللہ بابر ، نسرین جلیل ، اور مشاہد حسین سید پر مشتمل ذیلی کمیٹی کو 60 دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ۔