سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بیٹے سمیت 3 ہزار کارکنوں کیخلاف درج ،ماڈل ٹاوٴن واقعہ کیخلاف احتجاج پر عوامی تحریک کی گرفتار گیارہ خواتین اور ایک بزرگ کا نام ایف آئی آر سے خارج کرنے کا حکم

جمعرات 19 جون 2014 07:55

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جون۔2014ء)لاہورپولیس نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے بیٹے سمیت 3 ہزار سے زائد کارکنوں کے خلاف قتل، اقدام قتل، دہشت گردی سمیت کئی اور دفعات لگا کر ایف آئی آر درج کر لی۔نجی ٹی وی کے مطابق تحریک منہاج القرآن اور پولیس کے درمیان ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہرتجاوزات کے خاتمے کے معاملے پر ہونے والی جھڑپ کے دوران 2 خواتین سمیت 8 افراد کو کس نے گولیاں ماریں، پولیس نے واقعے کے حوالے سے خود ہی ایف آئی آر بھی درج کر لی جس میں کسی اور کو نہیں بلکہ ڈاکٹر طاہر القادری کے صاحبزادے حسین محی الدین کو بطور مرکزی ملزم نامزد کیاہے۔

پولیس کے مطابق تمام ہلاکتیں پاکستان عوامی تحریک کے ان قائدین اور ان کے ساتھی کارکنوں کی فائرنگ سے ہوئیں، یعنی عوامی تحریک نے ہی اپنے کارکنوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔

(جاری ہے)

ایف آئی آر میں ہنگامے کے ذمہ دار ڈاکٹر طاہرالقادری کے بیٹے کو ہی قرار دیا گیا جبکہ عوامی تحریک کے جنرل سیکرٹری خرم نواز گنڈاپور، چیف سکیورٹی آفیسر سید الطاف شاہ کو بھی بطور مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

پولیس کی جانب سے درج کردہ ایف آئی آر میں ایس ایچ او تھانہ فیصل ٹاؤن اور انسپکٹر رضوان قادر ہاشمی مدعی بنے ہیں جس میں مضحکہ طور پر پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنوں کو آنسو گیس کے گولے برسانے کا بھی ملزم ٹھہرایا ہے۔ ایف آئی آر میں قتل،اقدام قتل،دہشت گردی،سرکاری کام میں مزاحمت ،مسلح ہو کر بلوہ کرنے،پولیس مقابلے،روڈ بلاک کرنا، ناجائز اسلحہ رکھنا اور دھمکیاں دینے سمیت نقصان پہنچانے کی دفعات شامل کی ہیں۔

ایف آئی آر میں پولیس کو مکمل طور پر بری الذمہ اور معصوم قرار دیا گیا ہے جبکہ مقدمہ میں عوامی تحریک کے 3 ہزار سے زائد نامعلوم کارکنان کو بطور ملزم بھی نامزد کیا گیا ہے جبکہ 53 کو شناخت کر کے ان کے کوائف بھی درج کئے گئے ہیں۔ادھرسیشن عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ وزیراعلی پنجاب ،وزیرقانون،آئی جی پنجاب سمیت دیگر پولیس افسران کے خلاف درج کروانے کے لیے درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی،ایڈیشنل سیشن جج لاہور غفار مہتاب نے کیس کی سماعت شروع کی تو عدالت کے روبرو درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیارکیاکہ سانحہ ماڈل ٹاون میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ارو پولیس نے نہتے افراد پر فائرنگ کرکے ریاستی دہشت گردی کی پولیس نے یہ اقدام بظاہر وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف،وزیرقانون راناثنااللہ،آئی جی پنجاب سمیت دیگر پولیس افسران کے ایماء پر کیا لہذا ن کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیاجائے عدالت نے درخواست سماعت کیلیے منظور کرتے ہوئیے ایس ایچ او فیصل ٹاون کو ریکارڈ سمیت بیس جون کو طلب کرلیا۔

ادھرانسداد دہشت گردی لاہور کی خصوصی عدالت نے ماڈل ٹاون واقعہ کے خلاف شاہدرہ میں مظاہرہ کرنے پر عوامی تحریک کی گرفتار گیارہ خواتین اور ایک بزرگ کا نام ایف آئی آر سے خارج کرنے کا حکم دے دیا،عدالت نے سترہ مرد ملزمان کوچودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا۔شاہدرہ پولیس نیگیارہ خواتین اور اٹھارہ مرد ملزمان کو سخت سکیورٹی میں عدالت کے روبرو پیش کیا۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج ایوب مارتھ نے کیس کی سماعت کی۔ملزمان کے وکیل نے عدالت کوآگاہ کیا کہ پولیس نے ماڈل ٹاون واقعہ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر ملزمان کے خلاف دہشت گردی کے بے بنیاد مقدمات درج کر لئے۔تفتیشی افسر نیعدالت سے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔عدالت نے پولیس کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے دونوں ایف آئی آرزمیں نامزد گیارہ خواتین اور ایک بزرگ منظور حسین کے نام فوری طور پر خارج کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے سترہ مرد ملزمان کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجواتے ہوئے زخمیوں کا طبی معائنہ کرانے کا بھی حکم دے دیا۔ماڈل ٹاون پولیس کی جانب سے ماڈل ٹاون واقعہ میں گرفتارباون ملزمان کو عدالت میں پیش نہ کیا جس کی بناء پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج عدالتی وقت ختم ہونے پر گھروں کو روانہ ہو گئے۔دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے گرفتار سترہ ملزمان کی ضمانت کے لئے عدالت سے رجوع کر لیا۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے درخواست ضمانت پر تھانہ شاہدرہ ٹاون اور تھانہ شاہدرہ موڑ کے ایس ایچ اوز اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انیس جون کو عدالت میں طلب کر لیاہے۔

متعلقہ عنوان :