پاکستانی اور ازبک گروپ امن کے لیے مستقل خطرہ ہیں ، ماہرین اقوام متحدہ ، افغان اور بین الاقوامی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ القاعدہ سے جڑے ہوئے ان جنگجو گروہوں کا مستقبل قریب میں افغانستان سے جانے کا کوئی امکان نہیں،کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر طیبہ اور لشکر جھنگوی القاعدہ سے منسلک اور مشرقی، جنوبی افغانستان میں افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتی آرہی ہیں، شدت پسند گروہ نہ صرف افغانستان بلکہ جنوبی اور وسطی ایشیا اور عالمی برادری کیلئے براہ راست خطرہ ہیں ، نئی رپورٹ میں انتباہ

اتوار 15 جون 2014 08:25

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15جون۔2014ء)اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ القاعدہ سے منسلک پاکستانی اور ازبکستانی شدت پسند گروہ افغانستان کی فوج پر حملوں میں باقاعدگی سے حصہ لے رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال افغانستان سے نیٹو کی فوجوں کے انخلا کے باوجود یہ شدت پسند گروہ نہ صرف افغانستان بلکہ جنوبی اور وسطی ایشیا اور عالمی برادری کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ رپورٹ طالبان کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کرنے والے ماہرین کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو دی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان اور بین الاقوامی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ القاعدہ سے جڑے ہوئے ان جنگجو گروہوں کا مستقبل قریب میں افغانستان سے جانے کا کوئی امکان نہیں۔

(جاری ہے)

فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر طیبہ اور لشکر جھنگوی القاعدہ سے منسلک ہیں اور مشرقی اور جنوبی افغانستان میں افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتی آرہی ہیں اور افغانستان کے شمال میں اسلامک موومینٹ آف ازبکستان ازبک نڑاد افغانوں کے درمیان اپنی طاقت بڑھا رہی ہے اور ملک کے کئی صوبوں میں فعال ہے۔

رپورٹ کے مطابق القاعدہ سے جڑے یہ انتہا پسند گروہ ایک ایسے پریشان کن اور طویل المدت سکیورٹی خطرہ پیدا کر رہے ہیں جو افغانستان سے خطے اور اس سے باہر پھیل رہا ہے۔ خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ جہاں پہلے ہی ایسے عناصر اور گروہوں کی طرف سے دہشت گرد حملے ہوتے رہے ہیں جنھوں نے ماضی میں افغانستان میں تربیت لی۔اقوام متحدہ کے ماہرین کی یہ رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جبکہ آج افغانستان کے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے لیے ووٹنگ ہونے جارہی ہے۔