سینیٹ کی خزانہ کمیٹی کی پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ تبدیل نہ کرنے،سعودی عرب سے ملنے والے 1.5 ارب ڈالرزصوبوں میں تقسیم اور ایف بی آر کو وزارت خزانہ کی ماتحتی سے نکال کر خودمختار ادارہ بنانے کی سفارش،سعودی شہزادہ کے بلوچستان میں بجلی کی فراہمی کیلئے دیئے گئے 32کروڑ کا سراغ لگانیکی ہدایت،نیشنل ہیومن ریسورس انڈومنٹ فنڈ بنایا ہے جس کو4برس میں10ارب تک لے جایا جائے گا، رواں برس 1ارب مختص کئے گئے، احسن اقبال،قبائلی ایجنسیوں کے اختلافات کے باعث تین سال سے فاٹا میں یونیورسٹی کی جگہ نہیں مل سکی،آج جگہ پر اتفاق ہوجائے کل تعمیر شروع کردینگے، چیئرمین ایچ ای سی،اب ٹیکس اداکرنیوالا کوئی فرد پلاٹ خریدتا ہے تو اسے 1فیصد اورٹیکس ادائیگی نہیں کرتا تو 2فیصد ٹیکس دینا ہوگا،چیئرمین ایف بی آر،اراکین کمیٹی کا پاک چین اقتصادی راہداری کا راستہ تبدیل ہونے پر احتجاجاً واک آؤٹ ،بجٹ میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں10فیصد اضافہ کی ہدایت، بجلی ٹیرف پر35فیصد اضافہ کے بعد وصولی میں ڈیڑھ فیصد اضافہ ہوا،سیکرٹری خزانہ

جمعہ 13 جون 2014 07:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13جون۔2014ء)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ تبدیل نہ کرنے،سعودی عرب سے ملنے والے 1.5 ارب ڈالرزکی این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں میں تقسیم ،ایف بی آر کو وزارت خزانہ کی ماتحتی سے نکال کر آزاد وخودمختار ادارہ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے سعودی عرب کے شہزادہ کی جانب سے بلوچستان میں بجلی کی فراہمی کیلئے دیئے گئے 32کروڑ روپے کا سراغ لگانے کی ہدایت کی ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی ،ترقی واصلاحات احسن اقبال نے بتایا کہ حکومت نے نیشنل ہیومن ریسورس انڈومنٹ فنڈ بنایا ہے جس کو4برس میں10ارب روپے تک لے جایا جائے گا اور رواں برس اس منصوبہ کیلئے1ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ایچ ای سی کے ڈاکٹر مختار نے بتایا کہ تین برس قبل فاٹا میں یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر ایجنسیوں کے آپس کے مسائل کے پاس جگہ مختص نہیں کی جاسکی،آج جگہ پر اتفاق رائے ہوجائے تو کل ہی فاٹا میں یونیورسٹی کی تعمیر پر کام شروع ہوجائے گا، اراکین کمیٹی نے پاک چین اقتصادی راہداری کا راستہ تبدیل ہونے پر احتجاجاً واک آؤٹ کیا اور اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ وفاقی وزیر نے کمیٹی کے سامنے غلط بیانی کی اور پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ نہ بدلا جائے۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں10فیصد اضافہ کی ہدایت کرتے ہوئے اس تجویز کو بھی اپنی حتمی سفارشات میں شامل کرلیا۔

سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے بجلی کے ٹیرف پر35فیصد اضافہ کے بعد واجبات کی وصولی میں ڈیڑھ فیصد اضافہ ہوا ہے اور لاسز میں1فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔کمیٹی کااجلاس جمعرات کو یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں ہوا ۔

اجلاس میں سرکاری ملازمین وبیواؤں کے ایڈہاک ریلیف کے ان کی بنیادی تنخواہوں میں انضمام،قبائلی علاقہ جات میں دو یونیورسٹیوں کے قیام،1991ء کے معاہدہ کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا کے2.8ملین ایکڑ فٹ پانی کے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی جانب سے استعمال پر67 ارب روپے آبیانہ خیبرپختونخوا کودینے،وفاق کے ذمہ بجلی کی مد میں خیبرپختونخوا کو واجب الادا110ارب روپے کی ادائیگی،قبائلی علاقہ جات میں مزید چھوٹے ڈیم بنانے ،خیبرپختونخوا کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات پرسیس ٹیکس کا معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں لے جانے اورپاکستان چین اقتصادی راہداری کا روٹ تبدیل نہ کرنے کی سفارشات کی منظوری دی گئی ۔

اجلاس میں سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ بلوچستان رقبہ کے اعتبار سے آدھا پاکستان بنتا ہے تاہم صوبے میں بجلی کی سہولیات کے حوالے سے نہایت کم بجٹ مختص کیا گیا ہے،اس بجٹ کو بڑھایا جانا چاہئے،اس موقع پر وزارت پانی وبجلی حکام نے اراکین کو مطلع کیا کہ رواں بجٹ میں بلوچستان میں بجلی کی سہولیات کی فراہمی کیلئے7.1 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں سے این ٹی ڈی سی کو 3ارب روپے اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو4ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔

سینیٹر سردار فتح محمد حسنی نے اجلاس کے شرکاء کو مطلع کیا کہ ایک سعودی شہزادہ فہد بن عبدالعزیز بن سلطان ہر برس بلوچستان میں شکار کھیلنے آتا ہے اور2010ء میں اپنی بلوچستان آمدپرسعودی شہزادے نے دالبندین میں صوبہ بلوچستان میں بجلی کی سہولیات کی فراہمی کیلئے32کروڑ روپے فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم آج2014ء میں بھی علم نہیں ہوسکا کہ وہ رقم فراہم کی گئی یا نہیں؟ اور اگر فراہم کی بھی گئی تو وہ گئی کہاں اور کہاں خرچ ہوئی؟۔

انہوں نے کمیٹی سے مذکورہ رقم کا پتہ چلانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اس رقم کا پتہ وزارت خارجہ یا سعودی عرب کے سفارتخانے سے لگایا جاسکتا ہے جس پر چےئرپرسن کمیٹی نے متعلقہ حکام کو اس رقم کا پتہ چلانے کی ہدایت کردی،اس موقع پر سردار فتح محمد حسنی نے کہا کہ بے شک کمیٹی رقم کا پتہ چلانے کیلئے لکھے گئے خط میں ان کا نام استعمال کرسکتی ہے،چےئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو طارق باجوہ نے اراکین کمیٹی کو بتایا کہ وہ تمام رعایتیں جو ماضی میں فراہم کی گئی تھیں ان کو آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے۔

بعض ایسی آراو برائے ایس آر او ہیں جو ایک سے زائد صنعتوں کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔چےئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہم ایس آر او سے باہر نکل رہے ہیں۔سینیٹر صغریٰ امام کا کہنا تھا کہ ایف بی آر تین برس میں ایس آر اوز کلچر سے باہر نکلے گا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اب پارلیمنٹ تین برس کیلئے ایف بی آر سے کوئی سوال ہی نہ کرے جو کہ غلط ہے،چےئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ایس آر اوز کے تحت کوئی نیا قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا تاہم ٹیکس کی شرح میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔

سینیٹر الیاس بلور کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد وزارت سیس ٹیکس نہیں لگا سکتی بلکہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کا فیصلہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں ہوسکتا ہے چونکہ سیس ٹیکس کی آمدن مرکز اپنے پاس رکھتا ہے اور ان میں صوبوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا لہٰذا اس کا نفاذ مناسب نہیں ہوگا۔

سینیٹر انجینئر ملک رشید احمد خان نے اپنی فنانس بل پر سفارشات پیش کرتے ہوئے ملک کے قبائلی علاقہ جات کے نوجوانوں کیلئے ایک یونیورسٹی فاٹا اور ایک ملک کے کسی دوسرے حصہ میں بنانے کا مطالبہ کیا اس پر ایچ ای سی کے ڈاکٹر مختار نے اراکین کو بتایا کہ تین برس قبل فاٹا میں یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ہر مرتبہ اس حوالے سے بجٹ میں رقوم بھی مختص کی جاتی ہیں تاہم فاٹا کی ایجنسیوں کے آپس کے مسائل کے پاس یونیورسٹی کے لئے جگہ مختص نہیں کی جاسکی۔

اگر آج جگہ پر اتفاق رائے ہوجائے تو کل ہی فاٹا میں یونیورسٹی کی تعمیر پر کام شروع ہوجائے گا،کمیٹی نے بھی فاٹا کے طلباء کے لئے یونیورسٹی کے قیام کی حمایت کردی۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی ،ترقی وتحقیق احسن اقبال نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت نے نیشنل ہیومن ریسورس انڈومنٹ فنڈ بنایا ہے جس کو4برس میں10ارب روپے تک لے جایا جائے گا اور رواں برس اس منصوبہ کیلئے1ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،موجودہ حکومت نے قبائلی علاقہ جات کیلئے Oliveکا ایک منصوبہ شروع کیا ہے کیونکہ فاٹا میں اچھی قسم اگائی جاسکتی ہے اور اس منصوبہ پر ترکی کی حمایت حاصل ہے۔

وزارت پٹرولیم وقدرتی وسائل کے سیکرٹری عابد سعید کا کہنا تھا کہ رواں برس وزارت نے تیل وگیس کی دریافت کے لئے8بلاک ایوارڈ کئے ہیں۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ موجودہ سال بجٹ میں مجموعی طور پر قبائلی علاقہ جات کیلئے23ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ایف بی آر حکام کے مطابق رواں برس1لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا اور اس حوالے سے مزید اقدامات جاری ہیں۔

اب ٹیکس اداکرنیوالا کوئی فرد جو پلاٹ خریدتا ہے اس کو 1فیصد اور اگر وہ پہلے سے ٹیکس ادائیگی نہیں کرتا تو اس پر 2فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے۔ایف بی آر آہستہ آہستہ اپنے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کر رہاہے ۔اس وقت جائیداد کی قیمت جعلی ہے لہٰذا اس کی قیمتیں گرنی چاہئیں۔کمیٹی کی چےئرپرسن نے ایف بی آر کو وزارت خزانہ کے اثر سے نکال کر ایک آزاد وخودمختار ادارہ بنانے کی تجویز پیش کی جس کو ممبران نے اتفاق رائے سے منظور کر کہ فنانس بل پر کمیٹی کی جانب سے اتفاق رائے کے بعد پیش کی جانے والی سفارشات میں شامل کر لیا۔

سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ بجلی کے ٹیرف پر35فیصد اضافہ کے بعد واجبات کی وصولی میں ڈیڑھ فیصد اضافہ ہوا ہے اور لاسز میں1فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔سینیٹر صغریٰ امام نے کمیٹی کو تجویز پیش کی کہ بجٹ میں پی ایس ڈی پی525ارب روپے کا ہے جبکہ کمیٹی نے ڈیڑھ ارب کے منصوبوں کی سفارشات پیش کردی ہیں جس کے باعث خدشہ ہے کہ کمیٹی کی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں نہ پھینک دیا جائے۔

اس پر چےئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات کی کاپیاں اراکین کو فراہم کردی جائیں گی۔قبل ازیں اجلاس کے آغاز پر اراکین کمیٹی نے پاک چین اقتصادی راہداری کا راستہ تبدیل ہونے پر احتجاجاً واک آؤٹ کیا ،انہوں نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی،ترقی وتحقیق نے کمیٹی کے سامنے غلط بیانی کی ہے،اس پر چےئرپرسن کمیٹی نے کمیٹی کی جانب سے سفارش کی کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ نہ بدلا جائے۔

کمیٹی نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں10فیصد اضافہ کی ہدایت کرتے ہوئے اس تجویز کو بھی اپنی حتمی سفارشات میں شامل کرلیا۔بعد ازاں خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے چےئرپرسن کمیٹی نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے نہایت محنت سے اپنی سفارشات مرتب کی ہیں جن کو اب سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔ تمام اراکین نے نہایت محنت سے دل لگا کر سفارشات تیار کی ہیں۔