تعلیم کے شعبے کیلئے موجودہ بجٹ میں 3سو ارب رکھے گئے ہیں، سیکریٹری خزانہ،پچھلے سال رقم 2سو ارب تھی آئندہ سال 3سو ارب کا مزید اضافہ کیا جائیگا،اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو زیادہ وسائل کی فراہمی کے بعد صوبوں میں سوشل سیکٹر میں اخراجات بڑھا دیے گئے،پیڑولیم مصنوعات میں حکومت ڈیزل پر 8روپے پیڑول پر 10روپے لیوی وصول کر رہی ہے، پاکستان میں پیڑولیم مصنوعات پر ٹیکس کم ترین ہے، ڈاکٹر وقار مسعود کا قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں اظہار خیال ،پچھلے سال 7لاکھ گیارہ ہزار ٹیکس ریٹرن جمع ہوئیں اس سال 8لاکھ سے زائد کی امید ہے اور ہر سال ایک لاکھ کا اضافہ ہو گا، چیئر مین ایف بی آ ر،اجلاس میں مشترکہ اپوزیشن کی طرف سے بجٹ بارے سفارشات پیش کی گئیں

بدھ 11 جون 2014 07:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جون۔2014ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں منعقد ہونیوالے اجلاس میں دوسرے دن بجٹ سال 2014-15پر اراکین سینیٹ کی طر ف سے قومی اسمبلی کو تجاویز اور سفارشات بھجوانے کیلئے سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے بتایا کہ تعلیم کے شعبے کے لئے موجودہ بجٹ میں 3سو ارب رکھے گئے ہیں ۔

پچھلے سال رقم 2سو ارب تھی آئندہ سال 3سو ارب کا مزید اضافہ کیا جائیگا۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو زیادہ وسائل کی فراہمی کے بعد صوبوں میں سوشل سیکٹر میں اخراجات بڑھا دیے گئے ۔GDPمیں سے تعلیم کیلئے 2فیصد اضافہ کیا گیا ہے جسے 4فیصد تک لائیں گے ۔پیڑولیم مصنوعات میں حکومت ڈیزل پر 8روپے پیڑول پر 10روپے لیوی وصول کر رہی ہے ۔

(جاری ہے)

صرف ایک ماہ میں ایک ارب 80کروڑ کی سبسڈی دی گئی اور حکومت کو خالص منافع میں سے دو ارب کا نقصان برداشت کرنا پڑا اور اب بھی دنیا بھر کے مقابلے میں پاکستان میں پیڑولیم مصنوعات پر ٹیکس کم ترین ہے ۔

ایف بی آر کے چیئر مین طارق باجوہ نے کہا کہ پچھلے سال 7لاکھ گیارہ ہزار ٹیکس ریٹرن جمع ہوئیں اس سال 8لاکھ سے زائد کی امید ہے اور ہر سالمیں ایک لاکھ کا اضافہ ہو گا۔ سیکریٹری خزانہ نے آگاہ کیا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد زرعی ٹیکس صوبائی معاملہ ہے ۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینٹرز سردار فتح محمد محمد حسنی ہمایوں مندوخیل ، طلحہ ٰ محمود ، محسن لغاری ، مظفر شاہ ، کرنل (ر) طاہر مشہدی ، رفیق راجوانہ ،سلیم ایچ مانڈوی والا ، عثمان سیف اللہ نذہت صادق ، کلثوم پروین ، سیدہ صغریٰ امام، الیاس احمد بلور کے علاوہ سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، چیئر مین ایف بی آر طارق باجوہ نے شرکت کی ۔

سینیٹر مظفر شاہ کی طر ف سے سندھ کے علاقے چرکھی ایریاء میں ڈیزل اور بجلی پر سبسڈی کی تجویز دی گئی تاکہ کاشتکار ، نہروں سے ڈیزل مشینری کے ذریعے کم لاگت پر پانی حاصل کر سکیں جس پر اراکین کمیٹی نے پورے ملک کے کاشتکاروں کو سبسڈی دینے کی تجویز دی سینیٹر مظفر شاہ نے یہ بھی تجویز کیا کہ ایوان بالا کے مالی اختیارات میں اضافہ کیا جائے ۔

پبلک اکانٹس کمیٹی میں بھی ایوان بالا کی نمائندگی دی جائے تاکہ بجٹ اخراجات کے بارے میں تجاویز دی جا سکیں ۔ اراکین کمیٹی نے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے حوالے سے تجویز کیا کہ پاکستان کی زراعت کے شعبے کو زیادہ مضبوط بنانے کیلئے دونوں ممالک زراعت کا الگ معاہدہ کریں معاملہ اراکین کمیٹی کے اتفاق سے قائمہ کمیٹی تجارت اور وزارت تجارت کو بھجوا دیا گیا ۔

سینیٹر محسن لغاری نے کوالٹی ایجو کیشن انسٹیٹیوشن اور تعلیمی ریسرچ کیلئے زیادہ فنڈز کی تجویز دی سینیٹر صغری ٰ امام نے زرعی ٹیکس کے نفاذ کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال ایف بی آر کی بریفنگ میں آگاہ کیا گیا تھا کہ کل زمینداروں میں سے صرف 8فیصد زمیندار ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں ۔ کمیٹی نے اتفاق رائے سے زرعی ٹیکس کے نفاذ کی شفار ش کی سینیٹر الیاس بلور نے لیوی ٹیکس کو امراء کے لئے زیادہ اور غریبوں کیلئے کم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ نادرہ کے تعاون سے پیڑول پمپس پر کارڈ کے ذریعے غریب اور امیر میں فرق کیا جا سکتا ہے ۔

سینیٹر طاہر مشہدی نے تجویز کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی اور افراط زر کے تناسب سے کم از کم اضافہ 80فیصد کیا جائے اور اشرافیہ کی کروڑوں روپے کی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھایا جائے ۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر سفارش کی کہ حکومت مالی گنجائش کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد اضافہ کرے ۔سینیٹر کلثوم پروین نے تجویز کیا کہ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے ملازمین کو دیے جانیوالے درجنوں اعزازیے ختم کیے جائیں ایف بی آر والے خود ٹیکس نہیں دیتے ان کٹوتیوں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جا سکتی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کی مد میں دی جانیوالی 7ہزار ملین روپے کی سبسڈی کو بڑھا کر 15ہزار ملین کیا جائے تاکہ رمضان پیکج کے علاوہ بھی غریب عوام کو ریلیف مل سکے۔فاٹا میں گند م کی فروخت پر دی جانیوالی سبسڈی 293ملین سے بڑھا کر 4سو ملین کی جائے اور گلگت بلتستان میں 850ملین سے بڑھا کر 15ملین کی جائے۔ سینیٹر فتح حسنی نے کہا کہ پچھلی بار بھی قائمہ کمیٹی کی زیادہ تر تجاویز نہ منظور کی گئیں کمیٹی کی تجاویز کو قومی اسمبلی منظور کرے تو قائمہ کمیٹی کے اجلاس طلب کیے جائیں ورنہ بیکار ہیں اور کہا کہ بجلی پانی ، تجارت اور منصوبہ بندی کے سیکریٹری بھی اجلاس میں موجود ہونے چاہیں ۔

سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا اور سینیٹر طلحہٰ محمود کے سوال کے جواب میں سیکریٹری خزا نہ نے آگاہ کیا کہ گریڈ 1سے 16گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ سے حکومت کے اخراجات بیالیس ارب بڑھے ۔ چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ لوگوں کے زندہ رہنے کا حق نہ چھینا جائے گریڈ 1سے 16تک کے ملازمین کی تنخواہ میں کم سے کم 25فیصد اضافہ کیا جائے اور یقین کا اظہا ر کیاکہ قومی اسمبلی میں سینیٹ کمیٹی کی تجاویز اور سفارشات پر کان دھرا جائیگااور سفارشات کی منظوری دی جائیگی۔

سیکریٹری خزانہ نے کہ اکہ نیپرا اور اوگراخودمختار ادارے ہیں بجلی صوبے خود پیدا کر سکتے ہیں ۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ بجلی کی پیدوار کی تقسیم کا اختیار وفا ق کا ہے اوگرا ، نیپرا اور منصوبہ بندی کمیشن کے سربراہان کو اجلاس میں بلوا کر معاملات حل کئے جائیں ۔سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ کے بجلی کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کے اختیارات پر بحث کی بجائے ذمہ دراری کا ثبوت دیا جائے ۔

اجلاس میں سینیٹر ز طلحہ ٰ محمود ، رفیق رجوانہ اور صغریٰ امام پر مشتمل ذیلی کمیٹی قائم کی گئی جو ٹیکس اور لیوی کے بارے میں پلان تیار کرے گی ۔

رکن کمیٹی الیاس احمد بلور نے تجویز دی کہ گیس انفراسٹکچر ل ڈویلپمنٹ سیس پارلیمنٹ کا ایکٹ ہے اس کو فنانس بل کا حصہ نہ بنایا جائے ، پہلے تیرہ روپے ایم بی ٹی یو چارج کیے جاتے تھے موجودہ حکومت نے بڑھا کر 100کر دیے اور اس بجٹ میں چارجز کو بڑھا کر 3سو روپے کئے جا رہے ہیں جو کہ نا انصافی ہے اور اسے ختم کیا جائے جس پر کمیٹی نے تجویز منظوری کر لی ۔

انہوں نے فاٹا میں مشینری کی ایمپورٹ پر ڈیوٹی فری پر ٹیم بار لگاکر دس سال کی مدت مقرر کرنے کی تجویز دی جسے کمیٹی نے منظور کر لیا انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں ہیڈرل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے بیشمار ذرائع ہیں مگر موجودہ بجٹ میں اس طریقے سے بجلی پیدا کرنے کے فنڈز کم ہیں ان میں اضافہ کیا جائے انہوں نے خیبر پختونخواہ کی عوام کیلئے ریلیف پیکجز کو ختم کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے نئے پیکج متعارف کرانے کی تجویز بھی دی جسے کمیٹی نے متفقہ منظور کر لیا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مشترکہ اپوزیشن پارٹیاں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ کے ارکان شامل ہیں نے مشترکہ سفارشات پیش کیں جن کے مطابق این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم کے تحت وفاقی بجٹ میں صوبوں کے لئے جو فنڈمختص کئے گئے ہیں انکی مکمل فراہمی کی گارنٹی ،باوجود اس کے کہ اگر ایف بی آر اپنا ٹارگٹ حاصل نہیں کرتا ۔