جسٹس جواد ایس خواجہ کی اہلیہ روبینہ جواد نے اپنے خلاف الزامات پرنجی چینل اور اینکر پرسن کو ہتک عزت کا لیگل نوٹس، تمام الزامات کو مسترد کردیا، وہ مدعا علیہان کے خلاف فوجداری اور دیوانی دعویٰ دائر کروں گی،لیگل نوٹس

بدھ 11 جون 2014 07:17

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جون۔2014ء)سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ کی اہلیہ روبینہ جواد نے ایک نجی چینل پر اپنے خلاف الزامات پر چینل اور اینکر پرسن مبشر لقمان کو ہتک عزت کا لیگل نوٹس بھیج دیا ہے جس میں تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ وہ مدعا علیہان کے خلاف فوجداری اور دیوانی دعویٰ دائر کریں گی۔یہ نوٹس ہتک عزت آرڈیننس کی دفعہ 8کے تحت دیا گیا ہے جس میں سلمان اقبال اور مبشر لقمان کو فریق بنایا گیا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ میرا نام روبینہ جواد ہے ، میرے شوہر جواد ایس خواجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج ہیں۔ 29مئی 2014ء کو پروگرام ”کھرا سچ“میں جان بوجھ کر جھوٹے اور انتہائی ہتک آمیزالفاظ میرے اور میرے شوہر کے خلاف استعمال کئے گئے۔

(جاری ہے)

ہلا جھوٹا اور ہتک آمیز بیان یہ تھا کہ میں نے زمین حکومتِ پنجاب کو فروخت کی۔ اس امر کا ذکر دو دفعہ کیا گیا۔

جبکہ حقیقی صورتِ حال یہ ہے خہ میں نے زمین حکومتِ پنجاب کو کبھی فروخت نہ کی ہے۔میں اپنی زمین کسی بھی حالات میں فروخت کرنے کو تیار نہ تھی۔زمین حکومتِ پنجاب نے زیرِ دفعات حصولِ اراضی ِ قانون 1884کے تحت جبری طور پر اور میری مرضی کے خلاف حاصل کی تھی۔ میرے علاوہ تمام دیگر افراد سے موضع سہجپال کی زمین جبری طور پر حاصل کی گئی تھی۔ زمین لاہور رنگ روڈ کے پیکج نمبر 6 میں آتی تھی۔

دوسرا غلط ، جھوٹا اور ہتک/توہین آمیز بیان یہ دیا گیا کہ آپ کے پاس اس معاملہ کی بابت مکمل کاغذات ہیں جس کا مقصد یہ تھا کہ آپ ناظرین کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ آپ نے کاغذات پر انحصار کیا ہے۔حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ آپ کے پاس مکمل ریکارڈ نہ تھا یا آپ نے جان بوجھ کر ان کاغذات کے متعلق جھوٹ بولا ۔

میرے پاس مکمل فائل بابت مقدمہ ہے اور آپ نے مجھے یا بشمول میرے وکیل سے جو کہ مقدمہ میں پیش ہوتے ہیں پوچھنا بھی گواراہ نہ کیا۔

اگر آپ معلومات حاصل کر لیتے تو وہ آپ کو جھوٹے بیانات کے بارے میں وضاحت کر دیتے۔ اِس بات سے صاف ظاہر ہے کہ آپ نے دیدہ و دانستہ جھوٹے بیانات دئیے تا کہ میری اور میرے شوہر کی عزت اور ساکھ عوام میں مجروح ہو۔ تیسرا جھوٹا اور ہتک آمیز بیان یہ تھا کہ رقم وصول کر لینے کے بعد میں نے آفیسر حصولِ اراضی پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ آپ نے یہ بات برملا کہی کہ میں نے اور میرے شوہر نے حکومت کا بازو مروڑا، اور اپنی سرکاری حیثیت ومنصب کو غلط طور پر استعمال کیا۔

حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ جملہ کارروائی معاوضہ زیرِ قانون جبری حصولِ اراضی مورخہ 26.02.2008 کو شروع ہوئی جب بورڈ آف ریونیو،( حکومتِ پنجاب) نے مالکان کی رائے اور مرضی کے بغیر زمین زیر حصول کی قیمت کا تعین کر دیا۔کلکٹر حصول اراضی نے یکطرفہ طور پر ایوار ڈسنا دیا اور بورڈ آف ریونیو (حکومتِ پنجاب ) کی تعین کردہ قیمت کو تسلیم کر تے ہوئے اوربلا سماعت مالکانِ اراضی معاوضہ زمین طے کر دیا۔

میرے شوہر نے چودہ ماہ قبل بطور ہائی کورٹ جج (بمطابق 19 مارچ 2007)استعفیٰ دے دیا ہوا تھا۔ جب کہ ایوارڈ مورخہ 14 مئی 2008 کو آیا۔اس دوران وہ کسی منصب یا سرکاری عہدہ پر فائز نہ تھے۔ اس وقت وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں بطور استاد پڑھا رہے تھے۔میرے شوہر اس وقت کسی ایسی پوزیشن میں نہ تھے کہ وہ کسی سرکاری افسر پر دباؤ ڈال سکتے۔

اگر آپ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھ لیتے تو آپ کو یہ پتہ چل جاتا کہ انہوں نے 19 مارچ 2007 کو استعفیٰ دیا اور 5 جون 2009 کو حلف بطور سپریم کورٹ جج اٹھایا۔ان دو سالوں کے درمیان وہ کسی بھی سرکاری عہدہ پرفائز نہ تھے۔

چوتھا جھوٹا اور ہتک آمیز بیان یہ تھا کہ میں نے 33 کروڑ روپے بحوالہ اضافی معاوضہ مانگا جبکہ حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ میری درخواست برائے حصولِ اضافی معاوضہ پچھلے سال مورخہ 4 جون 2013 کو خارج ہو چکی تھی (درخواست برائے بحالی زیر تجویز ہے) مزید براں دیگر متاثرین کی درخواسوتیں حصول اضافی معاوضہ ابھی تک عدالت میں زیر تجویز ہیں اور میری درخواست بھی انہیں بنیادوں پر دی گئی تھی۔

دیگر متاثرین کی طرح میں نے بھی معاوضہ بڑھانے کے لئے درخواست کی تھی۔اضافی رقم کے لئے درخواست میں جو وجہ تھی وہ DHAفیز VIII کے کمرشل پلاٹ کی قیمت تھی جو کہ DHA نے مانگی تھی۔ یہ رقم اُس قیمت کے مطابق تھی جو کہ ایسے علاقوں میں رائج الوقت تھی اور دیگر متاثرین /مالکان نے طلب کی تھی جس کی شہادت موقع پر دے دی گئی تھی۔ اب تک جو ثبوت مالکان کے پاس موجود ہے فائل پر موجود ہے۔

آپ نے دانستہ طور پر یہ بات چھپائی کہ دیگر مقدمات (ریفرنس)اب بھی عدالت میں زیر تجویز ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ کا تمام شو جو کہ آپ نے کیا وہ میرے شوہر کے خلاف کسی ذاتی عداوت کی بناء پر کیاجو کہ اس ملک کی عدالتِ عظمیٰ کے جج ہیں تا کہ انہیں اور عدالت کے وقار کو نقصان پہنچے۔پانچواں جھوٹا اور ہتک آمیز بیان یہ تھا کہ حکومتی افسران اپنی نوکریاں بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں کیونکہ ایک حاضرسروس سپریم کورٹ کے جج کی بیگم کو انکار نہیں کر سکتے۔

حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ جبری حصولِ اراضی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے 14 مئی 2008 کو ختم ہو گئی۔ایوارڈ حصولِ اراضی 14 مئی 2008 کو عمل میں لایا گیا جب میرے شوہر کی کوئی سرکاری حیثیت نہ تھی۔

ریفرنس زیر دفعہ 18 حصول اراضی ایکٹ میں نے اور دیگران مالکان سہجپال نے کیا۔میرا ریفرنس 4 جون پچھلے سال (2013) خارج ہوا حالانکہ دیگر ریفرنس میری اطلاع کے مطابق اب بھی زیر تجویز ہیں اور میری درخواست بحالیِ مقدمہ زیر دفعہ 18 حصولِ اراضی ِ قانون آج تک بحال نہ ہوئی ہے۔

چھٹا جھوٹا اور ہتک آمیز بیان تھا کہ عدالت نے میری درخواست منظور فرما لی ہے۔حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ یہ جھوٹ پر مبنی ہے میری درخواست برائے ایزاد معاوضہ پچھلے سال (جون 2013) میں خارج ہو چکی ہے اور بحالی درخواست مقدمہ ابھی تک منظور نہ ہوئی ہے۔ساتواں جھوٹا اور ہتک آمیز بیان یہ تھا کہ عدالت میں میری درخواست ایزاد معاوضہ زیرِ تجویز ہے۔

حقیقی صورتِ حال یہ تھا کہ یہ بات قطعاً غلط ہے حقیقی صورتِ حال اس طرح ہے کہ اس وقت ریفرنس زیر دفعہ 18 کسی عدالت کے سامنے زیر تجویز نہ ہے اور جون 2013 کا خارج شدہ ہے۔ ہر وہ شخص جس کی زمین حکومت جبراً حاصل کرے، اِس کو معاوضہ میں اضافہ کے لئے زیر دفعہ 18 قانون حصولِ اراضی درخواست دینے کا حق ہے۔آٹھواں جھوٹ اور ہتک آمیز بیان یہ تھا کہ میری درخواست کو جلدی اور دوسروں سے پہلے سنا گیا۔

حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ اس وقت میرے شوہر کی کوئی سرکاری پوزیشن نہ تھی۔میری درخواست جون 2008 کو عدالت میں دائر ہوئی اور حکومت نے اس کا جواب دینے کے لئے 2 سال سے زائدوقت لگا دیا۔جون 2009 سے میرے شوہر سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ اس وقت سے میرے ریفرنس (درخواست) ان پانچ سالوں میں میرے مقدمہ میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہ ہوئی اور نہ ہی کوئی جلد تاریخ لگائی گئی ۔

حقیقت میں جب میرے شوہر سپریم کورٹ کے جج تھے تو سینئر سول جج لاہور نے میری درخواست برائے ایزاد معاوضہ خارج کر دی۔ نواں جھوٹا اور ہتک آمیز بیان تھا کہ میں نے ایزادی معاوضہ کے لئے رٹ دائر کی۔حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ کوئی رٹ دائر نہیں ہوئی ۔ریفرنس زیر دفعہ 18 ایک معمول کا معاملہ ہے جو میں نے اور تقریباً پندرہ دیگر مالکانِ زمین سہجپال نے دائر کیا ہے۔

تمام متاثرین زمین موضع سہجپال نے ایسے ہی ریفرنس دائر کیے۔تمام تر درخواستوں میں ایزادی معاوضہ مانگا گیا تھا۔مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ 100% لوگوں نے جن کی زمین جبری طور پر حاصل کی ، انہوں نے ریفرنس دائر کیا۔اس کے علاوہ مزید ہتک آمیز بیانات اس پروگرام میں شامل کئے گئے ہیں جن سے ہتک کا پہلو عیاں ہے۔یہ نوٹس آپ کو بھیجا جا رہا ہے کیونکہ یہ ہتک عزت آرڈیننس 2002 کا تقاضہ ہے جو کہ قانونی کارروائی بشمول دعویٰ دیوانی اورہرجانہ اور دیگر قانونی دادرسی کے لئے ضروری ہے۔

14 روز گزرنے کے بعداور اندر قانونی میعاد برائے دائری دعویٰ میں قانونِ ہتکِ عزت2002 کے تحت آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مکمل ارادہ رکھتی ہوں۔ فوجداری مقدمہ دیوانی دعویٰ کے علاوہ ہو گا۔میں نے اس نوٹس کی نقل اپنے ریکارڈ میں محفوظ رکھ لی ہے۔نوٹس ہذا کی کاپی میں نے ہر ممکن طریقے یعنی بذریعہ رجسٹرڈ پوسٹ، کورئیر، ای میل، ٹی سی ایس روانہ کی ہے۔