قومی اسمبلی میں سانحہ کراچی اور سانحہ تفتان پر مذمتی قراردادیں متفقہ طور پر منظور،بہادر افواج اور بہادر سپوتوں کے باعث ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہے،خراج تحسین،تحقیقات کی جائے گی کہ کراچی میں بھاری اسلحہ والے دہشت گردوں کو کیوں نہیں روکا گیا،سیکورٹی فورسز نے پونے دو گھنٹے میں آپریشن مکمل کر لیا تھا،چوہدری نثار،دہشت گرد خدوخال سے غیر ملکی لگتے ہیں مگر پڑوسی ممالک کے بھی نہیں لگتے،آپریشن میں کوئی ٹینک استعمال نہیں ہوا البتہ بلٹ پروف گاڑیاں ضرور استعمال ہوئیں،مارچ میں دی گئی انٹیلی جنس رپورٹ میں اس گیٹ تک کا بھی ذکر تھا کہ یہاں سے حملہ ہو سکتا ہے یہ سیکورٹی رسک ہے،ہم حالت جنگ میں ہیں میڈیا بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، اگر الزام تراشی ہوگی تو ہم بتانے پر مجبور ہوں گے کہ کس کی کیا ذمہ داری ہے،وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کراچی سانحہ پر قومی اسمبلی میں پالیسی بیان

بدھ 11 جون 2014 07:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جون۔2014ء)قومی اسمبلی نے سانحہ کراچی اور سانحہ تفتان کی مذمتی قرار داد متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کی جوان مردی اور بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ بہادر افواج اور بہادر سپوتوں کے باعث ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہے ۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی جائے گی کہ کراچی میں بھاری اسلحہ والے دہشت گردوں کو کیوں نہیں روکا گیا،سیکورٹی فورسز نے پونے دو گھنٹے میں آپریشن مکمل کر لیا تھا،دہشت گرد راکٹ لانچرز سے مسلح تھے او ر اس کا سب سے زیادہ استعمال کیا،سات دہشت گرد فائرنگ سے ہلاک ہوئے تین نے خود کو اڑا دیا،اس آپریشن میں کوئی ٹینک استعمال نہیں ہوا البتہ بلٹ پروف گاڑیاں ضرور استعمال ہوئیں۔

(جاری ہے)

دہشت گردوں کے خدوخال سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ غیر ملکی ہیں اور پڑوسی ممالک کے بھی نہیں لگتے ۔مارچ میں دی گئی انٹیلی جنس رپورٹ میں اس گیٹ تک کا بھی ذکر تھا کہ یہاں سے حملہ ہو سکتا ہے یہ سیکورٹی رسک ہے،ہم حالت جنگ میں ہیں میڈیا بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، اگر الزام تراشی ہوگی تو ہم بتانے پر مجبور ہوں گے کہ کس کی کیا ذمہ داری ہے۔سی سی ٹی وی فوٹیج میں سیکورٹی اہلکاروں جوانمردی و بہادری کے مناظر دیکھ کر ایمان تازہ ہوگیا۔

انٹیلی جنس کی ناکامی کی باتیں بے بنیاد ہیں ۔ہمیں ملکر اس ملک کو دہشت گردی سے چھٹکاراد لانا ہوگا ۔تفتان کا سانحہ ایک قومی سانحہ ہے۔ خود کش حملہ آوروں نے زائرین کی ہوٹلوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم مشکل فیصلے کریں۔جبکہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت مشترکہ موقف اپنانے کاہے، امن قائم کرناصوبائی اور وفاقی حکومت کی مشترکہ ذمہ داری ہے،حکومت بتائے طالبان مذاکرات کہاں تک پہنچے۔

اس معاملے پر بھی اعتماد میں لیاجائے۔

سید نوید قمر نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے پیچھے سے کون سے عناصر ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ طالبان سے حکومت نے مذاکرات نہیں مذاق رات ہو رہے ہیں۔منگل کو یہاں قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی سانحہ پر ایوان کو پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز کراچی جانے کے باعث ایوان کو اعتماد میں نہیں لے سکا۔

انہوں نے کراچی کے حوالے سے ایوان کو بتایا کہ 11 بجکر 5 منٹ پر ایک ہائی ایس گاڑی رکی اور حملہ کراچی ائیرپورٹ پر نہیں، ایک پرانے ائیر پورٹ کے ٹرمینل پر ہوا ہے اور کراچی ائیر پورٹ اس سے دو کلو میٹر تک دور ہے اگر ان کی جانب سے براہ راست جایا جائے۔ دہشت گردوں کا مقصد جہازوں کو نشانہ بنانا اور قبضہ کر کے لوگوں کو یرغمال بناناتھا ۔ دو مختلف ٹرمینل سے 11 بج کر پانچ منٹ پر پانچ ،پانچ دہشت گردوں کی ٹولیاں داخل ہوئیں ۔

ائیر پورٹ سکیورٹی فورس نے ان کا بہادری سے مقابلہ کیا حالانکہ سکیورٹی فورسز کے پاس اس طرح کے ہتھیار نہیں کہ جو دہشت گردوں کے پاس تھے ۔15 منٹ تک ائیر پورٹ سکیورٹی فورس نے ان کو روکے رکھا ساڑھے گیارہ بجے تک رینجرز اور پاک فوج پہنچ چکی تھی ۔ دہشت گرد اس وقت پانچ سکیورٹی جوانوں کو شہید کر چکے تھے اور بعد ازاں دہشت گردوں نے آگ لگا دی اور کولڈ سٹوریج کے علاقے میں پہنچے اور ساڑھے گیارہ بجے سے شروع ہونے والی لڑائی1.45 منٹ پر ختم ہوگئی اور ڈی جی رینجرز نے اطلاع دی کہ دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔

سات دہشت گرد گولیوں کا نشانہ بنائے گئے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس آپریشن میں کوئی ٹینک استعمال نہیں ہوا البتہ بلٹ پروف گاڑیاں ضرور استعمال ہوئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے تجویز آئی کہ صبح ہونے کا انتظار کیا جائے مگر پھر فیصلہ ہوا کہ رات کو ہی ان کا صفایا کیا جائے ۔انہوں نے مزید کہا کہ دو بج کر پانچ منٹ پر جو فائرنگ ہوئی وہ خبرداری کا الارم تھی۔

سات دہشت گرد گولیوں سے ہلاک ہوئے اور تین دہشت گردوں نے خود کو اڑا لیا۔ دہشت گرد اے ایس ایف کی طرح کے لباس میں تھے ۔دہشت گردوں کے پاس کلاشنکوف ،گرینڈ اور بھاری اسلحہ راکٹ لانچر تھے اور افسوس کہیں ان کو کراچی میں روکا نہیں گیا ۔انہوں نے مزید بتایا کہ دہشت گرد مکمل طور پر اپنے مقاصد میں ناکام ہوگئے۔ دہشت گردوں کے بیگ میں دوائیں ،خشک کھانا اور دیگر چیزیں تھیں اور وہ لوگوں کو شاید یرغمال کر کے اپنے مطالبات منوانا چاہتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سوا دو گھنٹے میں ان دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا ۔2 بجے سے 6 بجے تک کلین اپ آپریشن کیا گیا۔ 6 بجے سکیورٹی ایجنسی نے سول ایوی ایشن کے حوالے علاقے کو کر دیا کہ ائیر پورٹ کو فنکشنل کیا جائے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے خود سی ٹی وی فوٹیج دیکھی۔ زیادہ تر دہشت گرد کلین شیو تھے اور کم داڑھی تھی اور سات دہشت گردوں کے خدوخال سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ غیر ملکی ہیں اور پڑوسی ممالک کے بھی نہیں لگتے ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ائیر پورٹ سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران نے بہادری سے جس طرح مقابلہ کیا یہ انتہائی جرات مندانہ اقدام ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پانچ منٹ تک گیٹ کے اہلکاروں نے ان دہشت گردوں کو روکے رکھا اور گرتے ہوئے بھی اہلکار دہشت گردوں کے ساتھ مزاحمت جاری رکھتا ہے اوردونوں اسی جوانمردی میں شہید ہو جاتے ہیں اور پھر دیگر اہلکار بھی شہید ہو جاتے ہیں اس کے بعدایک نارمل اہلکار بھی ان پانچدہشت گردوں کو روک لیتا ہے اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے، ان مناظر کو دیکھ کر ایمان تازہ ہوتاہے کہ پاکستان کے ان سپوتوں نے ملک کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس معاملے پر رینجرز پانچ منٹ اور فوج 15 منٹ میں پہنچ گئی ۔اس موقع پر اپوزیشن اراکین نے کہا کہ اس وقت بھی کراچی میں اے ایس ایف اکیڈمی پر حملے کی خبریںآ رہی ہیں جس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ہم ایک مشکل صورت حال سے گزر رہے ہیں اور اس صورت حال کا سامنا ہمیں گزشتہ 13 سالوں سے درپیش ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ انٹیلی جنس کے 5 اہم الرٹ بھیجے گئے جن میں دو کراچی کے حوالے سے تھے کہ دہشت گردی کے حملے ہو سکتے ہیں۔

اس لئے یہ کہنا کہ انٹیلی جنس ناکامی ہے،درست تاثر نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وقت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا نہیں ۔ آج تک ایک سال کسی صوبائی حکومت کو اس کی ذمہ داریاں نہیں یاددلائیں جبکہ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوا ہے تو اس پر پوری سپورٹ دی ۔انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے تو جواب دوں گا کہ کس کی ذمہ داری تھی اور کس نے کیا کیا؟۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ ہم آپس میں تنقید کریں اور لڑیں بھڑیں۔اب ہمیں اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ ایک خصوصی رپورٹ مارچ میں سندھ حکومت کو بھجوائی گئی اور جس گیٹ سے حملہ ہوا ہے اس کے بارے میں بتایا گیا تھاکہ یہاں سے دہشت گردی کا حملہ ہو سکتا ہے اور اس طرح کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں مگر اس پر توجہ کیوں نہیں دی گئی؟ ۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ کراچی کے واقعہ کو ناکام بنانے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہے شہید ہونے والے ملک پر قربان ہوگئے ہیں حکومت شہداء کے لواحقین کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کر قدم اٹھائے گی ۔ پورے ملک میں سکیورٹی معیار کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ مشکل وقت صوبوں اور وفاقی حکومت کو مشترکہ موقف اپنانا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیار دیا گیا صوبے بھی اپنے ذمہ داریوں کا احساس کریں سب مل کر پاکستان کومشکل حالات سے نکالنے کیلئے اکٹھیہونا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ایران بارڈر پر حملے سے چوبیس قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور چودہ زخمی ہیں کراچی کے واقعہ میں چوبیس لوگ شہید ہوئے اس میں چودہ زخمی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایکسٹ ٹیکٹر منگوائے گئے اور کولڈ سٹوریج میں پھنسے لوگ دم گھٹنے کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی سلامتی کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہونگے ۔ زائرین کے حوالے سے شیعہ برادری پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی زمینی راستہ غیر محفوظ ہے فضائی راستہ استعمال کیا جائے اس لیے ضروری ہے کہ اپ گریڈیشن پر غور کریں فیری سروس اور جہاز سروس کی جانب توجہ دی جائے اس پر حکومت نے فضائی سروس کیلئے اقدام بھی اٹھائے ہیں مگر کچھ زائرین اور ٹورز آپریٹرز نہیں چاہتے کہ یہ پرخطر روٹ ختم ہو اس میں مشکلات ہیں عوام کو بتانا ہوگا کہ 800میل کا فاصلہ انتہائی پرخطر ہے اور مکمل سکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہے ۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے امن وامان کی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں نے دہشتگردی کیخلاف جانوں کا نذرانہ پیش کیا انہیں سلام پیش کرتے ہیں اس وقت ملک میں مشترکہ موقف اپنانے کی ضرورت ہے امن وامان قائم کرنا صوبائی اوروفاقی حکومت کی ذمہ د اری بنتی ہے انہوں نے کہا کہ حکومتی اداروں کا مشترکہ موقف نہیں ہے سول اور ملٹری تعلقات ناخوشگوار ہیں بے شک صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی منزل ایک ہی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت طالبان مذاکرات کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لے پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ ہمارے ادارے ملک پر جان قربان کرنے سے نہیں گھبراتے اور ان شہداء کو قومی میڈلز دینا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم کو دیکھنا ہوگا کہ دہشتگردی کے پیچھے کون لوگ ہیں انہیں بے نقاب کرنا ہوگا ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل نے کہا کہ دنیا نے ڈیٹکٹر نکارہ سمجھ کر پھینک دیا گیا ہے لیکن یہاں تو اب بھی استعمال کیا جارہاہے دہشتگردی کے خلاف مل کر لڑنا ہوگا ورنہ دہشتگردی ختم نہیں ہوگی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ مذاق رات ہورہے ہیں ۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زاہد حامد نے کراچی ، بلوچستان واقعہ کی مذمتی قرارداد پیش کی اور دہشتگردوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کیا جنہیں متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ۔