امریکی فوجی بووی برگڈال کی رہائی کی غرض سے امریکی فوج پاکستانی سرحد کے اندر گھسنے کیلئے پوری طرح سے تیار تھی، ٹھوس خفیہ معلومات کی عدم دستیابی کے باعث ایسا کر سکی،سابق افسر پنٹاگون ڈیوڈ سڈنی کا انکشاف،اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی کے بعد پاک فوج کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باعث یہ فیصلہ مزید مشکل ہو گیا تھا،برطانوی نشریاتی ادارے وامریکی اخبار سے گفتگو

جمعہ 6 جون 2014 07:13

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ 6جون۔2014ء)امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کے ایک سابق افسر نے کہا ہے کہ امریکی فوجی بووی برگڈال کی رہائی کی غرض سے امریکی فوج پاکستانی سرحد کے اندر گھسنے کے لیے پوری طرح سے تیار تھی لیکن ٹھوس خفیہ معلومات کی عدم موجودگی کے باعث وہ ایسا کرنے سے باز رہی۔ گذشتہ سال تک افغانستان پاکستان معاملات پر امریکی وزارت دفاع میں نائب وزیر دفاع رہنے والے ڈیوڈ سڈنی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ 2009 میں برگڈل کو یرغمال بنائے جانے کے بعد سب سے پہلے اس بات کی کوشش کی گئی تھی کہ انھیں پاکستان لے جائے جانے کو روکا جائے۔

انھوں نے کہا کہ لیکن ایک بار جب سارجنٹ برگڈال پاکستان پہنچ گئے تو ان کی رہائی مشکل ہو گئی اور اس کے لیے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی مدد طلب کی گئی۔

(جاری ہے)

دریں اثنا برگڈال کے آبائی شہر ہیلی میں پانچ سال بعد طالبان کی قید سے خلاصی ملنے اور ان کی وطن واپسی کی خوشی میں منعقد کی جانے والی خوش آمدید تقریب کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔

اس کی وجہ جہاں اس میں کثیر تعداد میں شامل ہونے والے لوگوں کی سلامتی کا خدشہ ہے وہیں انھیں بعض حلقوں میں میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے والا کہا جا رہا ہے۔

اور اسی سبب بہت سے مبصرین اور فوجی انھیں بھگوڑا قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں وہ سزا کے مستحق ہیں۔امریکی فوجی برگڈال کی رہائی کے عوض امریکہ کو گوانتانامو جیل سے پانچ افغان قیدی رہا کرنے پڑے تھے۔ڈیوڈ سڈن کا کہنا تھاہمیں یہ معلوم تھا کہ برگڈال حقانی نیٹ ورک کے قبضے میں ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان ایک مخصوص رشتہ ہے، لیکن جہاں تک مجھے علم ہے ہمیں اس معاملے میں پاکستان سے کوئی مدد نہیں ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ برگڈال پاکستانی سر زمین پر تھے اور جس تنظیم کے پاس ان کے بارے میں اہم معلومات تھی وہ پاکستانی حکومت کا حصہ ہے۔انھوں نے کہاایسے میں یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ برگڈال کو رہا کروائیں۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا اور میرے خیال میں مستقبل میں جب امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات کی بات ہو تو اس پر امریکہ کو غور کرنا چاہیے۔

طالبان کی طرف سے برگڈال کی رہائی کا ویڈیو جاری کیے جانے کے بعد سے امریکہ میں اس حالیہ معاہدے کے متعلق بحث مزید تلخ ہوتی جا رہی ہے کہ کیا برگڈال کو رہا کروانے کا یہی واحد راستہ تھا۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق فوجی حکام کو کم از کم دو بار پاکستان میں برگڈال کے ٹھکانے کا سراغ ملا تھا اور واشنگٹن میں اس بات پر بحث بھی ہوئی تھی کہ پاکستان میں گھس کر ان کو رہا کروا لیا جائے۔

بووی برگڈال کے والدین رہائی کے بعد وائٹ ہاوٴس میں امریکی صدر براک اوباما سے ملے،اخبار کے مطابق اس وقت امریکی فوج کے سب سے اعلیٰ افسر ایڈمرل مائیک مولن اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا پاکستان میں اس حوالے سے کارروائی کے حق میں تھے۔

ڈیوڈ سڈنی کے مطابق اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں ہونے والی امریکی کارروائی کے بعد یہ فیصلہ مزید مشکل ہو گیا تھا کیونکہ پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہو گئے تھے۔

انھوں نے بتایاکہ پاکستانی فوج نے یہ حکم جاری کر دیا تھا کہ اگر پاکستانی حدود کے اندر امریکی ہیلی کاپٹر نظر آ جائیں تو انھیں مار گرایا جائے۔ ایسے میں کسی بھی حکمتِ عملی کے لیے ہمیں ٹھوس خفیہ معلومات کی ضرورت تھی جو دستیاب نہیں تھی۔انھوں نے کہا کہ سارجنٹ برگڈال تقریباً پانچ سال تک حقانی نیٹ ورک کی قید میں رہے اور اس دوران برگڈال کی رہائی کے لیے امریکی حکومت نے پاکستانی حکام پر دباوٴ بھی ڈالا تھا۔

متعلقہ عنوان :