مالاکنڈ سے اٹھائے گئے 35 لاپتہ افراد کے مقدمے سمیت تمام لاپتہ افراد کے مقدمات ایک ہی بنچ کے روبرو لگانے کی وزارت دفاع کی استدعاء منظور، لارجر بنچ کے قیام کیلئے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال ،سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی،ملک کے تمام ادارے قوم کی مشکلات دور کرنے کیلئے کوشاں ہیں، عدالت بھی قوم کی مشکلات کا حل چاہتی ہے‘ لاپتہ افراد کے مقدمے کی ان کیمرہ سماعت نہیں کرسکتے، بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں‘ دوران سماعت کمرہ خالی کرایا جاسکتا ہے یا کوئی اور طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے،معاملے کی کھلی عدالت میں سماعت کرنا چاہتے ہیں،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس،آئین وفاقی حکومت نے نافذ کرنا ہے اگر نہیں ہوگا تو ہمیں نافذ کرنا آتا ہے اور ہم کریں گے، جسٹس گلزار

جمعہ 6 جون 2014 07:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ 6جون۔2014ء) سپریم کورٹ نے مالاکنڈ سے اٹھائے گئے 35 لاپتہ افراد کے مقدمے سمیت تمام لاپتہ افراد کے مقدمات ایک ہی بنچ کے روبرو لگانے کی وزارت دفاع کی استدعاء منظور کرتے ہوئے لارجر بنچ کے قیام کیلئے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کردیا اور ان اسے استدعاء کی ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت چار مختلف بنچ کررہے ہیں اور اس دوران آئینی اور قانونی ایشوز اور سوالات ایک ہی جیسے ہیں‘ مختلف فیصلے آنے پر مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں علاوہ ازیں بعض حساس اداروں پر بھی ان لاپتہ افراد کے مبینہ طور پر اٹھانے کے الزامات ہیں اسلئے ان تمام لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کیلئے ایک لارجر بنچ تشکیل دیا جائے جو ان تمام مقدمات کی سماعت کرکے ان کا فیصلہ کرے‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے تمام ادارے قوم کی مشکلات دور کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور عدالت بھی قوم کی مشکلات کا حل چاہتی ہے‘ لاپتہ افراد کے مقدمے کی ان کیمرہ سماعت نہیں کرسکتے اس سے بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں‘ دوران سماعت کمرہ خالی کرایا جاسکتا ہے یا کوئی اور طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

معاملے کی کھلی عدالت میں سماعت کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے عبدالمنان لاپتہ کیس میں پولیس حکام سے دس روز میں پیشرفت رپورٹ طلب کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے دوران سماعت کچھ خفیہ معلومات عدالت کے روبرو رکھتے ہوئے لاپتہ افراد کے مقدمات کی ایک ہی بنچ میں سماعت کی استدعاء کی ہے۔

35 لاپتہ افراد کیس میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ خفیہ دستاویزات داخل کرکے آپ کے جائزے کیلئے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ اس میں لیگل ایشو ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ممکن ہے کہ اس میں کوئی اور ایشو بھی ہو۔ یہ ایک عجیب سا تاثر قائم ہورہا ہے۔ آئین وفاقی حکومت نے نافذ کرنا ہے اگر نہیں ہوگا تو ہمیں نافذ کرنا آتا ہے اور ہم کریں گے۔

ہم ان کیمرہ پروسیڈنگ نہیں کریں گے اس سے بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں کورٹ روم خالی کراسکتے ہیں کوئی اور طریقہ بھی اختیار ہوسکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کی کھلی سماعت ہو۔ اے جی نے کہا کہ اسی طرح کے اور بھی مقدمات دیگر بنچوں میں زیر سماعت ہیں اور یہ انسٹیٹیوشنل لیول پر بھی سماعت ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ عابدہ ملک اور دیگر مقدمات یہاں لگتے رہے ہیں۔

بنچوں کی تشکیل چیف جسٹس کرتے ہیں ہم کسی الجھن میں نہیں پڑنا چاہتے ممکن ہے کہ ادارے کا معاملہ ہو۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کتنے بنچوں میں یہ مقدمات لگ رہے ہیں۔ جسٹس ناصرالملک اور جسٹس انور ظہیر جمالی کے بنچوں میں بھی مقدمات چل رہے ہیں قانونی ایشو سب بنچوں کیلئے برابر ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے‘ مختلف فیصلے آسکتے ہیں‘ رپورٹ ہم نے دیکھ لی ہے اور سربمہر کرکے آپ کو رپورٹ اور ڈاکومنٹ واپس کررہے ہیں۔

کچھ سوالات کے جوابات کے حوالے سے چیف جسٹس کو ارسال کرنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی لارجر بنچ قائم ہوسکے۔ ہر ملکی ادارہ اس کی وجہ سے سفر کررہا ہے ہم اس کا حل نکالنا چاہتے ہیں جہاں تک ہوسکے ہم قوم کی مشکلات کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ تمام ادارے اپنے اپنے طور پر کوششیں کررہے ہیں۔

عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ کچھ معلومات جن کیلئے اٹارنی جنرل نے خفیہ رکھنے کی استدعاء کی ہے‘ جمع کرائی ہیں جن کا مطالعہ کیا گیا اور انہیں سربمہر کرکے واپس کردیا گیا ہے۔

لاپتہ افراد کے مقدمات 4 مختلف بنچوں میں سماعت کیلئے لگائے جارہے ہیں۔ کچھ قانونی معاملات اور ایشوز فریم کئے گئے ہیں جن میں سوالات کے جوابات چاہتے ہیں‘ بہتر ہوگا کہ ان مقدمات کو لارجر بنچ قائم کرکے سنا جائے۔ ایک ہی بنچ میں ان مقدمات کو لگایا جائے اور اس حوالے سے معاملہ چیف جسٹس کو ارسال کیا جائے۔ اٹارنی جنرل کی استدعاء اور عدالتی رائے پر ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ان معاملات کے تین سے چار مختلف فیصلے آئیں۔

اس آرڈر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے روبرو رکھا جائے تاکہ وہ اس پر کوئی حکم جاری کریں۔ کرنل (ر) انعام الرحیم نے عدالت سے استدعاء کی کہ محبت شاہ کو گرفتار نہ کیا جائے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 2010ء سے یہ معاملہ چل رہا ہے ان کی گرفتاری کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ اس پر عدالت کو بتایا کہ ان کو پیش ہونے کا کہا گیا تھا مگر وہ پیش نہیں ہوئے تھے اسلئے گرفتاری کا حکم جاری کیا تھا۔

عدالت نے کہا کہ محبت شاہ کے معاملے پر کوئی حکم جاری نہیں کررہے۔ اس دوران عدالت نے دیگر لاپتہ شخص کے مقدمہ ہے کی بھی سماعت کی ۔آمنہ مسعود جنجوعہ اور کامران مرتضی بھی پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پراگریس ہوئی ہے۔27 مئی کی رپورٹ ہے۔عدالت نے پوچھا کہ باچا حسین کو شامل تفتیش کیا گیا ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ہم نے آرمی حکام کو لیٹر بھجوایا تھا ۔

کمیشن میں بھی اس کی سماعت ہوچکی ہے ۔ایس پی تفتیشی بھی پیش ہوئے اور بتایا کہ درخواست گزار کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے ۔ہم نے وزارت دفاع کو لیٹر لکھا تھا ۔لاپتہ نوجوان وہاں نہیں ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ معاملہ ایف آئی آر کے تحت ہی چلتا ہے ۔حکومت نے جو معلومات حاصل کرنا تھیں وہ مل چکی ہیں ۔خیبر پختونخوا اے جی کے تحت رپورٹ جمع کرائیں ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ پولیس تحقیق کرے کیونکہ سارا معاملہ ان پر آتا ہے۔

عدالت نے فیصلہ لکھواتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے رپورٹ جمع کرائی ہے۔ پنجاب حکومت نے بھی رپورٹ داخل کی ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں لاپتہ شخص کی بازیابی کے لئے مستعد ہونا پڑے گا ۔کے پی کے لاء افسر نے بھی معلومات حاصل کی تھیں ۔وزارت دفاع نے بھی معلومات بھجوا دی ہیں ۔کے پی کے حکومت اس حوالے سے وقت چاہتی ہے تا کہ اس پر اپنی رپورٹ جمع کروا سکے۔

کیس کی مزید سماعت اگلے ہفتے ہوگی ۔پولیس کا کام تفتیش کرنا ہے وہ اس حوالے سے رپورٹ جمع کرائیں۔لاپتہ عبد المنان ولد بہادر خان کیس کی بھی سماعت کی گئی ۔حکومت پنجاب کی جانب سے لاء افسر نے بتایا کہ انہوں نے ایک رپورٹ پہلے بھی جمع کروائی تھی مگر کیس کی سماعت نہیں ہو سکی تھی ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ جس گاڑی میں لاپتہ نوجوان کو لیکر گئے تھے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی اگر کار وہی تھی تو اس کا اب تک جائزہ کیوں نہیں لیا گیا۔

عدالت کو پولیس حکام نے بتایا کہ کار نمبرا ور موٹر سائیکل نمبر ایک جیسا ہے ۔کار خاتون کی ملکیت ہے ۔اس سے ملاقات بھی کی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ رپورٹ نہیں دیکھ سکا ہوں۔پولیس نے بتایا کہ دو سیل نمبر اور ایک پی ٹی سی ایل نمبر کا جائزہ لیا ہے ۔پی ٹی اے سے رابطہ کیا تھا ۔چیئرمین پی ٹی اے کو خط لکھا تھا ۔لاپتہ نوجوان کی سم پر دس سے بیس افراد کے ناموں سے کالیں آئی تھیں۔

دس مختلف نمبرز استعمال کئے گئے تھے ۔ایک جنوبی وزیرستان سے کال کی گئی تھی۔عبد العزیز میرانشاہ کا رہائشی ہے ۔اس حوالے سے معلومات منگوائی ہیں کہ اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے یا نہیں۔ تفصیلات آ جائے گی ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ لاپتہ شخص کے والد سے ہمیں ہمدردی ہے ۔آپ معلومات حاصل کریں ہم اس کو دس روز بعد سماعت کے لئے لگا دیں گے ۔آپ آزادانہ تحقیقات کرائیں کہ منان کہاگیا ہے۔

ابھی معلومات نامکمل ہیں ۔تفصیلات آنے کے بعد فیصلہ کردیں گے۔ پولیس کو وقت دینا چاہتے ہیں۔بہادر کے بیٹے کا معاملہ جذبات سے نہیں صبروتحمل سے دیکھنا ہوگا ۔رام کہانی میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔عدالت نے 6 مئی 2014 کے آرڈر پڑھا اور پھر آرڈر لکھوایا ۔ایس پی نے تحقیقات کی ہیں کچھ نمبرز بھی ٹریس ہوئے ہیں۔10 اضافی نمبروں کا پتہ چلا ہے جو جنوبی وزیرستان ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کا مکمل ڈیٹا حاصل کرنا ضروری ہے ۔تبی حتمی نتیجے تک پہنچ سکیں گے کہ آیا منان کا کیس زبردستی لاپتہ کئے جانے کا ہے یا رضا کارانہ طور پر کہاں گیا ہے ۔پولیس حکام اس پر دس روز میں رپورٹ دی جائے ۔عدالت نے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی۔