سپریم کورٹ کی پشاور چرچ حملہ کیس میں وفاقی اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت کو20 کروڑ روپے کا ٹرسٹ فنڈ قائم کر کے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت، حیدر آباد میں ٹمپل پر حملہ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کا حکم ،تین ہندو لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیل کرانے پرسندھ،بلوچستان اورپنجاب سے رپورٹ طلب، اقلیتوں کی شادیوں،پیدائش اور وفات کے اندراج کے لئے قانون سازی کا حکم،ہمارا مذہب اور آئین بالغ لڑکیوں کو اپنی پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے،چیف جسٹس، اقلیتوں کے حوالے سے واقعات دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں،ہر بات پر قانون سازی کا نہیں کہہ سکتے،ریمارکس،حیدرآباد پولیس ٹمپل پر حملے کے ملزمان کو گرفتار نہیں کر سکتی تو مچھلی بیچا کرے، جسٹس عظمت سعید، پولیس کا کام ملزمان کو گرفتار کرنا ہے،مقدمہ ختم کر کے اپنی کارکردگی ظاہر کرنا نہیں، جسٹس اعجاز

جمعرات 5 جون 2014 04:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5جون۔ 2014ء)سپریم کورٹ نے پشاور چرچ حملہ کیس میں وفاقی اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت کو20 کروڑ روپے کا ٹرسٹ فنڈ قائم کر کے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے حیدر آباد میں ٹمپل پر حملہ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ تین ہندو لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور لاپتہ ہونے کے مقدمے میں سندھ،بلوچستان اور حکومت پنجاب سے رپورٹ طلب کی ہے۔

اقلیتوں کی شادیوں،پیدائش اور وفات کے اندراج کے لئے جہاں ضروری ہو قانون سازی کی جائے۔ اقلیتوں کو سرکاری ملازمتوں میں اگر کوئی خصوصی کوٹہ موجود ہے تو اس کی تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں۔ ہندوؤں کے ہنومان مندر کی اراضی سکولوں پر قبضے سمیت وقف املاک پر قبضوں بارے قائم مقام چیئرمین وقف املاک بورڈ سے رپورٹ طلب کی ہے جبکہ وادی کیلاش میں کے پی کے حکومت کی جانب سے سکیورٹی کے اقدامات کے بعد از خود نوٹس کیس نمٹا دیا ہے ۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا مذہب اور آئین بالغ لڑکیوں کو اپنی پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے ۔مذہب کی تبدیلی اور ایک مذہب سے دوسرے مذہب تے تعلق رکھنے والے لڑکے لڑکیوں کی شادیوں کے واقعات بھارت اور پاکستان دونوں جگہوں پر ہوتے ہیں۔ اقلیتوں کے مقدمات میں پولیس کوتحقیقات میں لوگوں کی معاونت نہ کرنے کی وجہ سے کچھ مشکلات بھی درپیش ہوتی ہیں ۔

اقلیتوں کے حوالے سے واقعات دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں۔اس طرح کے واقعات بھارت اور افغانستان میں بھی ہو چکے ہیں ۔ہر بات پر قانون سازی کا نہیں کہہ سکتے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر حیدرآباد پولیس ٹمپل پر حملے کے ملزمان کو گرفتار نہیں کر سکتی تو پھر حیدر آباد میں پلا اور مچھلی بیچا کریں۔اگر ٹمپل پر انسانوں نے حملہ نہیں کیا تھا تو آسمان سے لوگوں اترے تھے۔

جبکہ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ پولیس جوڈیشل پالیسی کو ہدف تنقید نہ بنائے ۔اس پالیسی کا مقصد یہ نہیں کہ اگر پولیس کسی مقدمے میں کوئی پیش رفت نہ کر سکے تو پالیسی کو وجہ قرار دیتے ہوئے مقدمات کو اے کلاس بنا دے۔پولیس حکام اس طرح کی ٹرم استعمال کر کے تھرڈ کلاس کام کررہے ہیں۔ پولیس کا کام ملزمان کو گرفتار کرنا ہے،مقدمہ ختم کر کے اپنی کارکردگی ظاہر کرنا نہیں ہے۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔چیف جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔اس دوران اقلیتوں کے نمائندے،وکلاء اور دیگر حکام پیش ہوئے ۔ پشاور میں چرچ حملہ سمیت مختلف مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے اس بارے پوچھا تو بتایا کہ سندھ حکومت نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے تو یہ بتائیے کہ جنہوں نے ٹمپل حملہ کر کے تباہ کیا تھا اس حوالے سے ملزمان کے خلاف کارروائی ہوئی ہے تو پولیس حکام نے بتایا کہ رپورٹ جمع کرا دی گئی ہے ۔

آرڈر میں دو چیزوں کا مسئلہ تھا ایک یہ کہ کون سی دفعات شامل ہوں گی ۔پانچ مذہب میں سے دو کا تعین کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو بلایا تھا اجلاس کیا گیا اور لوگں کے اعتماد کرنے پرا یک پولیس افسر تحقیقات کے لئے مقرر کیا ہے ۔جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ ملزمان کیوں گرفتار نہیں ہوئے یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہوا ہے ۔تحقیقات کی گئی ہیں۔ پولیس نے کہا کہ ہندوؤں نے حملہ نہیں کیا تھا اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہندوؤں نے حملہ نہیں کیا تو آسمان سے لوگ اترے تھے اور حملہ کیا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ حیدر آباد میں ٹمپل پر حملہ کرنے والے لوگ نامعلوم ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اے کلاس بی کلاس کر کے معاملے کو گول مول نہ کریں۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ جوڈیشل پالیسی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کیس ختم کر کے اے کلاس بتا دیں۔ایک کلاس کر کے فراڈ نہ کریں ۔آپ اپنا کام نہیں کرتے اور آپ ٹرم استعمال کر کے جان بچا رہے ہیں یہ تو آپ تھرڈ کلاس کام کررہے ہیں۔

آپ نے دھوکہ دہی سے کام لے رہے ہیں ۔ملزمان کو گرفتار کرنا ہی آپ کا کام ہے آپ اپنی پراگریس شو کر کے جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔جسٹس عظمت نے کہا کہ حیدر آباد میں ٹمپل پر حملہ کرنے والے ملزمان کو گرفتار نہیں ہوئے تو پولیس افسران حیدر آباد میں پلا اور پلو مچھلی بیچا کریں۔ دوسرے کیس میں پولیس نے بتایا کہ پانچ ملزمان گرفتار کر کے چالان پیش کر دیا گیا ہے ۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ نے یہ اے کلاس کام کیا ہے۔پولیس سندھ حکام نے لاڑکانہ کیس کے بارے میں بھی بتایا کہ اے ایس پی تحقیقات افسر مقرر کیا ہے ۔تحقیقات مکمل ہو چکی تھیں ان کی تسلی کے لئے دوبارہ سے تحقیقات کرائیں ۔لینٹر کی وجہ ہے ۔ایک دوسرے کی مخالفت چل رہی تھی ۔مسئلہ یہ تھا کہ یہ کہتے تھے کہ شکار پور کا افسر لگایا جائے۔ ابھی تک اس میں مزید پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

لاڑکانہ میں مارکیٹ تھانہ کا ایک کیس بھی زیر تفتیش ہے۔ پانچ ملزمان نامزد تھے ۔تمام گرفتار کر کے جیل بھجوا دیئے گئے ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو ایک مقدمہ ہے ۔دو کیسے ہو گئے ہیں۔پولیس حکام نے بتایا کہ دو الگ الگ مقدمات ہیں۔ پانچ ملزمان کی گرفتار پر مدعی کہتے ہیں۔دو افراد بے گناہ ہیں ان کو رہا کیا جائے۔ انہوں نے ملزمان کو خود نامزد کیا تھا ۔

سندھ کے حوالے سے یہی مقدمات تھے۔ عدالت نے حکم میں لکھوایا اے آئی جی علی شیر جاکھرانی نے مقدمات کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں جو صوبہ سندھ میں اقلیتوں کے حوالے سے درج ہیں ۔حیدر آباد میں ٹمپل کے حملہ کیس میں تاحال پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ عبوری رپورٹ جمع کرائی گئی ہے جبکہ لاڑکانہ ڈویژن کے مقدمے میں ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں ۔حیدر آباد میں ٹمپل حملہ کیس کے ملزمان نامعلوم ہیں۔

تحقیقات کے دوران بھی یہ نامعلوم ہی رہے ہیں ۔تحقیقات جاری ہیں اور انصاف کی فراہمی کے لئے معاونت کررہے ہیں۔ تیسرے مقدمے میں پانچ ملزمان گرفتار اور حتمی چالان جمع ہو چکا ہے۔ مدعی نے عدالت کو بتایا کہ 4 مختلف مقدمات میں ہم نے پولیس کو ملزمان کے بارے میں بتایا ہے پولیس ٹیلی فون ضرور کرتے ہیں۔تحقیقات پولیس نہیں کررہی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کی کچھ مشکلات ہوتی ہیں۔

عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملزمان کو ٹریس کرنے کے لئے پولیس کی مدد کرنا چاہیے ۔اقلیتوں کے مقدمات میں بہت کم پولیس کی معاونت کی جاتی ہے۔لوگوں کو تعاون کرنا چاہیے اس طرح کے واقعات پر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام کررہے ہیں۔اس طرح کے واقعات افغانستان اور بھارت میں بھی ہو چکے ہیں۔ہندو برادری کے نمائندے نے بتایا کہ نادرا نے ہندو چرچ پر سرٹیفکیٹ ایشو کرنا شروع کر دیا ہے۔

مندر کی مورتیاں توڑ دی گئی اور کہا گیا ہے کہ صرف بلب گرا ہے۔ ہندوؤں کے بچوں کی رجسٹریشن ،پیدائش ،نکاح اور فوتگی سرٹیفکیٹ دینا شروع ہوگیا ہے ۔پنڈت بھی رجسٹرڈ ہونے چاہئیں۔ہمارے مذہب میں طلاق نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پھر خاوندوں کے لئے افسوس ہی کر سکتے ہیں۔ ہندو نمائندے نے بتایا کہ ہندوؤں کے معاملے میں پیش رفت ہوئی ہے ۔تین ہندو بچیاں لاپتہ ہیں ۔

بازیاب نہیں ہوئی ہیں ۔پوچا دیوی کے حوالے سے ہائی کورٹ میں کیس چل رہا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اس میں مداخلت نہیں کر سکتے ۔اگر وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتی تو ہم ان ک عدالت میں پیشی کے احکامات جاری کریں گے۔ ایک بچی بلوچستان سے تعلق رکھتی ہے ۔دوسری کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پونم کماری کا تعلق بلوچستان سے ہے ۔

سندھ سے پوجا داس 21 جنوری2014 سے لاپتہ ہے ۔ڈاکٹر رمیش کمار کے بیان پر عدالت نے آرڈر لکھوایا کہ رمیش کمار کے مطابق ہندو برادری کے معاملات میں پیش رفت ہوئی ہے ان کی شادی کا اندراج کیا جارہا ہے اور نادرا نے اس حوالے سے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ بھی دینا شروع کر دیئے ہیں۔شادی ،ویزہ دیگر معاملات شامل ہیں۔ ہندو مذہب میں طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے اس لئے اس کو فارم سے ختم کیا جائے۔

پاکستان ہندو کونسل کے کہنے پر پنڈت مہاراج یونین کونسل میں رجسٹرڈ ہونے چاہئیں۔ ہندو شادیاں پنڈت،مہاراج کراتے ہیں یہ کونسل کی سفارشات کے مطابق رجسٹرڈ ہونے چاہئیں۔ چیئرمین نادرا اس استدعا کا بغور جائزہ چیئرمین نادرا اس استدعا کا بغور جائزہ لے اور اگر کوئی چیز قانون سے متصادم نہیں ہے تو وہ قانون کے مطابق کرلی جائے۔ بلوچستان،سندھ اور پنجاب کی ایک لڑکی کے لاپتہ ہونے کے معاملے پر عدالت نے آرڈر میں کہا کہ ہم اس حوالے سے کوئی کمنٹس نہیں دیں گے ان کے مقدمات درج ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ،سندھ اور بلوچستان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ان لڑکیوں کے حوالے سے تازہ ترین تحقیقات کر کے رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے ۔رمیش کمار نے کہا کہ مختلف لڑکیوں نے مذہب تبدیل کئے ہیں اور ان کو زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہے اور یہ سعودی عرب میں ہیں۔ قانون سازی کے کے لئے بھی کہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عام چیزوں پر ہم قانون سازی کا نہیں کر سکتے۔

رمیش کمار نے کہا کہ سعودی عرب میں میں مذہب کی تبدیلی کے لئے قانون بنایا ہے ۔مذہب کی تبدیلی کے لئے ماں باپ کی اجازت لازمی قرار دی گئی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ انہوں نے انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لئے ایسا کیا ہے ہم اس طرح کا کام نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں معاملات ٹھیک چل رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ بھارت پاکستان دونوں جگہ ہے ۔

لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی کرتی ہیں۔13 سالہ بچی ہوتی تو ہم اس پر کارروائی کرتے ۔مسلمان بچیاں بھی اس طرح کی شادیاں کرتی ہیں۔ ہمارا ہمذہب اور آئین لڑکیوں کو اپنی مرضی سے شادی کی اجازت دیتا ہے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ شواہد دیکھنا ہوں گے عدالتوں کو فیصلے کرنے دیں پشاور چرچ پر حملہ بارے ازخود نوٹس لینے پر شکریہ ادا کیا گیا ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ چرچ کے حوالے سے وزیراعظم بیس کروڑ روپے امداد کا اعلان کیا گیا تھا دس ماہ گزر گئے ایک پائی بھی نہیں دی گئی اور سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ خالی تصویریں کچھوا رہے ہیں اور کچھ نہیں کیا جارہا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے اٹارنی جنرل کو بلائیں ان سے پوچھتے ہیں ۔

عیسائی نمائندے نے بتایا کہ ہمارے ایک سکول پر قبضہ کرکے اس پر ورلڈ اکیڈمی قائم کردی گئی ہے اب چرچ پر بھی قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ عدالت نے آرڈر جاری کرتے ہوئے کہا کہ ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن کے عہدیدار نے بتایا کہ ان کے سکول پر قبضے پر ڈپٹی کمشنر ساؤتھ نے رپورٹ دی ہے رجسٹرار سپریم کورٹ ایڈیشنل اے جی کو اگلی سماعت پر بلالیں عدالت کو بتایا گیا کہ مری ماتا مندر پر قبضہ ہوگیا اور وقف املاک کی اراضی پر قبضہ ہورہا ہے اس پر عدالت نے کہا کہ چیئرمین مقرر کیا گیا ہے یا نہیں اس پر عدالت کو بتایا گیاکہ ابھی تک مقرر نہیں کیا گیا اس پر عدالت نے آرڈر جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے قائم مقام چیئرمین رپورٹ پیش کریں درخواست گزار کامران راحیل نے بتایا کہ انہوں نے جے سالک کی جانب سے درخواست دے دی ہے اس کی سماعت کے لیے لگایا جائے اس میں کئی اہم ایشوز پر بات کی گئی ہے عدالت نے اس کو عدالت میں لگانے کا حکم دیا ہے ۔

چرچوں میں ہونے والی شادیوں بارے پیش رفت سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے عیسائیوں کے نمائندے شاہد نے بتایا کہ یہ سب سفارشات سے نکاح ہونے چاہیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ عیسائی میرج ایکٹ کے تحت عیسائیوں کی شادی، پیدائش اور دیگر معاملات رجسٹر ہوتے ہیں اب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ان کی شادیاں یونین کونسل سطح پر رجسٹر ہورہی ہیں پاسٹر اور بشپ کو حکومت سے شادیاں کرانے کی اجازت کے لیے لائسنس دیتی ہے مشکل یہ ہے کہ 155 پاسٹر اور بشپ پنجاب میں رجسٹرڈ ہیں کیتھولک اور پرٹسٹ چرچ کے اندراج کے حوالے سے مشکلات ہیں جو غیر تصدیق شدہ بشپ ہیں ان کا اندراج ہوتا ہے ۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ مختلف چرچ ہیں ان کے حوالے سے الگ الگ اقدامات کرنا پڑینگے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ رومن کیتھولک چرچوں کی تصدیق کا مرحلہ آسان ہے ۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ سب چرچوں کو اپنے قوانین کے مطابق رجسٹرڈ کرانا چاہیے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کو چرچ نکاح خواں مقرر کرتا ہے تو وہ جا کر اپنا اندرج کرالے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے بیان کے بعد کوئی ایشو باقی نہیں رہتا کیا آپ ان کے بیان کی تائید کرتے ہیں اس پر عیسائی نمائندے نے کہا کہ ہمارے معاملات حل ہوگئے ہیں عدالت نے آرڈر میں لکھوایا کہ بیس ضلعوں کی تمام یونین کونسلوں میں پاسٹرز اور بشپ کا اندراج کیا گیا ہے اور یہ سب مقامی حکومتوں کے ایکٹ کے تحت ہوتا ہے ان کو لائسنس کرسچین میرج ایکٹ کے تحت جاری ہوتا ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگرپنجاب یہ سب کررہا ہے تو اس کو ملک کا قانون بنانے کے لیے قانون سازی کرلی جائے اے جی پنجاب نے بتایا کہ اقلیتوں کو پنجاب میں پانچ فیصد کوٹہ دیا گیا ہے جسٹس عظمت نے کہا کہ سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کو کوٹہ دیا گیا ہے کیا ان کو یہ کوٹہ دیا گیا ہے یہ سب صوبوں نے محض کاغذوں میں رکھا ہوا ہے اور اس پر عمل نہیں ہورہا ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور لوکل حکومتوں میں بھی اقلیتوں کے لئے نشستیں مخصوص کی گئی ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ ملازمتوں میں اقلیتوں کو پانچ فیصد کوٹے کے حوالے سے پوری معلومات نہیں ہیں کہ آیا یہ قانون میں کوٹہ موجود ہے ۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ پنجاب میں یہ کوٹہ موجود ہے چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری طورپر رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں کہ کیا ملک میں اقلیتوں کو ملازمتوں کو مخصوص کوٹہ کے حوالے سے کوئی قانون موجود ہے آرٹیکل 36کے تحت اس کا جواب ایک ہفتے میں داخل کرایا جائے شاہد نامی عیسائی نمائندے نے بتایا کہ 1842 کے عیسائی سکول جو انار کلی اور دوسرا رنگ محل مشن ہائی سکول واپس نہیں گیا کیا ہے اس حوالے سے حکومت نوٹیفکیشن جاری نہیں کرہی ہے اس پر عدالت نے کہا کہ حکومت پنجاب اس حوالے سے اقدامات کرے کرک میں سمادھی کے حوالے سے عدالت نے کے پی کے پی لاء افسر سے رپورٹ پوچھی تو بتایا گیا کہ ڈی سی کرک نے شیری مہمان جی مہاراج 1919ء میں فوت ہوا تھا اور وہ وہاں دفن ہیں کچھ مسلمانوں نے ان کی عبادت گاہ پر قبضہ کرلیا ہے 1997ء میں مفتی نے یہ اراضی حاصل کی ہے وہ واپس نہیں کر رہا ہے ہندو اور مسلمان علماء سے مشاورت کی جارہی ہے مولانا شریف اس حوالے سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے معاملات خراب کررہے ہیں ۔

مولانا فضل الرحمن نے بھی اس علایق کا دورہ کیا ہے ہندوؤں نے اس عبادت گاہ کو ازسرنو آرائش کرنا شروع کیا تو مفتی صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی ۔ سابق ایم این اے مولانا شاہ عبدالعزیز نے بھی اس معاملے کی مخالفت کی جرگہ مولانا حسن جان کی سربراہی میں کیا گیا ہے شاہ عبدالعزیز مندر کی تعمیر کی مخالفت کررہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو مذہبی کم سیاسی ایشو زیادہ بنا دیا گیا ہے ہم نہیں چاہتے کہ وہاں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہو ۔

وزیراعلیٰ کے پی کے اس حوالے سے اقدامات کرے کسی ایم این اے یا دیگر کیخلاف اگر کوئی ریلیف چاہیے تو ہم اس پر بات نہیں کرینگے عدالت نے آرڈر لکھوایا کہ سمادھی کا جہاں تک تعلق ہے کے پی کے ے جی نے تفصیلی رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں تمام تر حقائق بتائے گئے ہیں حکومت اس معاملے کو حل کرنے میں مصروف ہے اے جی کے پی کے وزیراعلیٰ سے رابہط کریں اور پرامن طریقے سے یہ معاملہ حل کرائیں ۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ پشاور چرچ کے بیس کروڑ روپے کے حوالے سے کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دس کروڑ روپے وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کو منتقل کردیئے ہیں جبکہ بقیہ صوبائی حکومت نے دیئے ہیں ۔ وقفے کے بعد اے جی کے پی کے نے دس کروڑ روپے کے فنڈز کے حوالے سے بتایا کہ انہیں سیکرٹری داخلہ نے بتایا ہے کہ انڈونمنٹ فنڈز کا معاملہ زیر بحث ہے اس پر قانون سازی کی جارہی ہے اس پر وقت دے دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر کافی وقت گزر چکا ہے وزیراعلیٰ کے پی کے کو بتائیں کہ وہ فنڈز قائم کریں اور اس حوالے سے رپورٹ دی جائے ۔ عدالت نے آرڈر لکھوایا کہ ہوم سیکرٹری کے پی کے سے ٹیلی فون پر بات کی ہے اور انہیں صوبائی حکومت نے بتایا ہے کہ پہلے ایک اکاؤنٹ بنا رکھا ہے جس میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کا نشانہ بننے واے لوگوں کو امداد دی جاتی ہے صوبائی حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اگر کوئی فنڈز قائم کیاجاتا ہے کے پی کے اے جی نے بتایا کہ ہم دس کروڑ روپے دے چکے ہیں وفاقی حکومت نے پشاور چرح حملہ میں فنڈز دینے کی بات کی تھی اور اس کا اعلان وزیراعظم نے کیا تھا ہم تو سب کچھ دے چکے ہیں ہم ٹرسٹ کے طور پر بھی کام کرنے کو تیار ہیں بم دھماکے کے بعد ہم نے زخمیوں اور فوت ہوجانے والے افراد کی مالی امداد کردی تھی عدالت نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے ایک الگ فنڈز قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اب وہ وقت مانگ رہے ہیں ۔

ٹارنی جنرل نے بتایا اکہ جس وقت ٹرسٹ قائم کرنے کے اعلان ہوا تھا وزیراعظم نے دس کروڑ روپے دے دیئے تھے اے جے پی کے کے اگلی سماعت تک یہ فنڈز قائم کریں اور رپورٹ دیں اور اس حوالے سے حکومت کو بتائیں اور جو وزیراعظم نے کہا تھا اس پر عمل کرکے رپورٹ دیں ۔ اے جی کے پی کے نے کہا کہ دو سے تین ہفتے کا وقت دے دیں اور پندرہ جون کے بعد کی تاریخ رکھ دیں عدالت نے سماعت سولہ جون تک ملتوی کردی ۔

کیلاش قبیلے کے حوالے سے اے جے کے پی کے نے بتایا کہ تمام تر حالات قابو میں ہیں وہاں کے لوگوں کو تمام تر سکیورٹی فراہم کی جارہی ہے اب تو ان کو بجلی بھی فراہم کردی ہے عدالت نے اے جے کے پی کے کی رپورٹ پر کیلاس قبیلے کو دی جانے والی دھمکیوں بارے ازخود نوٹس کیس کی کارروائی نمٹا دی عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے چرچ پشاور کے حوالے سے اگر امداد کا اعلان کیا تھا تو ان سے معلومات کرکے رپورٹ دی جائے ۔