باجوڑ ایجنسی میں سرحد پارسے فائرنگ کے پے درپے 3واقعات،11سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ،باجوڑ میں فورسز پر حملوں پر پاکستان کا شدید احتجاج،افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دے،پاکستان،قبائلی علاقوں میں فیصلہ کن آپریشن کے تمام تر انتظامات مکمل ، آپریشن میں پاک فضائیہ کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی

جمعرات 5 جون 2014 04:05

پشاور (رحمت اللہ شباب۔ اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5جون۔ 2014ء)باجوڑ میں دہشت گردوں کی سرحد پارسے فائرنگ سے 11 سیکیورٹی اہلکار شہید اور11زخمی ہوگئے۔عسکری ذرائع کے مطابق باجوڑ میں سیکورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ ، 7اہلکار شہید ،سرکاری ذرائع کے مطابق بدھ کی رات عسکریت پسندوں کے افغان بارڈر کے قریب مڑازنگل میں واقع سیکورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ سے7سیکورٹی اہلکار شہید جبکہ 7زخمی ہو گئے ہیں ۔

زخمیوں کو ملٹری ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ علاقے میں سرچ آپریشن مزید تیز کر دیا گیا ہے ۔اس سے پہلے باجوڑ میں منو زنگل اور مکا ٹاپ پر پاکستانی بارڈر پوسٹس پر آج صبح دہشت گردوں نے سرحد پارسے فائرنگ کی جس سے 2 سیکیورٹی اہلکار شہید اور ایک افسر سمیت 4 فوجی زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد آج دوپہر سرحد پار سے دہشت گردوں نے مکا ٹاپ کی بارڈر پوسٹ پر دوبارہ فائرنگ کی جس سے مزید 2سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے۔

(جاری ہے)

عسکری ذرائع کے مطابق 25 مئی سے اب تک افغانستان سے بلا اشتعال فائرنگ کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔

ادھرپاکستانی حکومت نے افغان حکومت سے باجوڑ میں فورسز پر حملے کی شدید مذمت اور احتجاج کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے سرحد پار سے ہونے والے حملے پر افغانستان سے شدید احتجاج کیا ہے اور افغان حکومت کو آگاہ کیا کہ ایک ہفتے کے اندر باجوڑ کے سرحدی علاقے میں یہ تیسرا حملہ ہے جو کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی جانب سے افغانستان سے کیا گیا جبکہ پاکستان نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان حکومت اپنی سرزمین کو پاکستان پر حملے کرنے والوں کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کرے۔

دوسری جانب حکومت نے قبائلی علاقہ جات میں روپوش عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کیلئے تمام تر انتظامات مکمل کر لئے ۔ عسکری ذارئع کے مطابق چونکہ آخری ہفتے میں وزستان سمیت دیگر قبائلی علاقہ جات میں آپریشن شروع کیا جائے گا۔آپریشن میں پاک فضائیہ کی خدمت بھی حاصل کی جائے گی ۔ اس آپریشن کیلئے پیرامیٹری کے خصوصی دستے پہنچا دئے گئے ہیں جب ایف سی کو سٹینڈ بائی کی ہدایت کر دی گئی ہے ذرائع کے بقول یہ آپریشن پچھے ماہ شروع کیا جانا تھاتاہم آپریشن سے متاثر ہو نے والے متاثرین کی آباد کاری کی وجہ سے شروع نہیں کیا گیا تھا۔

اور فیصلہ کیا گیا تھا۔ کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں خالی سکولوں میں متاثرین کو آباد کیا جائے گا۔دوسری طرف وزیرستان ،مہمند ایجنسی اور باجوڑ سے نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔وزیرستان سے اب تک سینکڑوں خاندان افغانستان جبکہ ہزاروں ملک کے دیگر شہروں میں آباد ہو چکے ہیں۔آپریشن کے خدشات کے پیش نظر عسکریت پسندوں کے سینئر قیادت بھی افغانستان اور صوبہ بلوچستان کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ادارے کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ عسکریت پسندوں ایک سینئر کمانڈر نے جمعیت العلماء کے سربراہ مولانا فضل رحمان کو فون کرکے حکومت کو اس آپریشن باز رکھنے کی درخوست کی ہے۔اور اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے مولانا فضل رحمان کو اختیار دیا ہے۔

متعلقہ عنوان :