بجٹ میں عام آدمی پر کسی قم کا ٹیکس نہیں لگایا گیا ، کسی کو بجٹ کی آڑ میں منافع خوری اور من مانیاں کرنے کی اجازت نہیں دینگے،اسحاق ڈار ،بجٹ میں ا ْمراء پر ٹیکس لگائے گئے ہیں ، یہ کہنا درست نہیں غریبوں کو صرف مونگ پھلی کے دانے پر ٹرخایا گیا ہے ، زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے کو مراعات دی گئی ہیں ، لاکھوں افراد کو تربیت اور ماہانہ وظیفہ دینگے ، انکم سپورٹ پروگرام میں پچھلی حکومت نے پانچ سال میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا ہم نے ایک سال میں اس سے ملنے والی امداد میں پچاس فیصد اضافہ کیا ہے جبکہ پنشن سو فیصد بڑھائی گئی ہے ، کم از کم تنخواہ 12ہزار ہوگی اور اس کا نجی شعبے پر بھی اطلاق ہوگا عملدرآمد یقینی بنائینگے ، تین سال میں ایس آر اوز اور گوشوارے جمع نہ کرانے کا کلچرختم کردینگے ،پچیس لاکھ سے زائد پرچون فروش موجود ہیں لیکن ان میں سے صرف چند ہزار ہی رجسٹرڈ ہیں، بین الاقوامی چینز ، شاپنگ مالز سے لیکر ایک کھوکھے تک سب کی رجسٹریشن کرینگے ،وزیر خزانہ کا پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 5 جون 2014 04:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5جون۔ 2014ء)وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یقین دلایا ہے کہ بجٹ میں عام آدمی پر کسی قم کا ٹیکس نہیں لگایا گیا تاہم کسی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ فنانس بل یا بجٹ کی آڑ میں منافع خوری اور من مانیاں کرے حکومت اسے قابو میں لائے گی ،بجٹ میں ا ْمراء پر ٹیکس لگائے گئے ہیں ، یہ کہنا درست نہیں کہ غریبوں کو صرف مونگ پھلی کے دانے پر ٹرخایا گیا ہے ، زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے کو مراعات دی گئی ہیں ، لاکھوں افراد کو تربیت اور ماہانہ وظیفہ دینگے ، انکم سپورٹ پروگرام میں پچھلی حکومت نے پانچ سال میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا ہم نے ایک سال میں اس سے ملنے والی امداد میں پچاس فیصد اضافہ کیا ہے جبکہ پنشن سو فیصد بڑھائی گئی ہے ، کم از کم تنخواہ 12ہزار ہوگی اور اس کا نجی شعبے پر بھی اطلاق ہوگا عملدرآمد یقینی بنائینگے ، تین سال میں ایس آر اوز اور گوشوارے جمع نہ کرانے کا کلچرختم کردینگے ،پچیس لاکھ سے زائد پرچون فروش موجود ہیں لیکن ان میں سے صرف چند ہزار ہی رجسٹرڈ ہیں، بین الاقوامی چینز ، شاپنگ مالز سے لیکر ایک کھوکھے تک سب کی رجسٹریشن کرینگے ۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے بجٹ کے بعد ایک خصوصی پریس کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واقعتاً ان کی بجٹ کی تقریر کافی لمبی تھی تاہم جب کام زیادہ ہونگے تو عوام کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا ہی جائے گا ۔ تمام چیزیں شیئر کرنا ضروری تھی کیونکہ متعلقہ تھیں انہوں نے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایک دو جگہ یہ تاثر دیا گیا کہ بجٹ میں امیر آدمی کو سہولیات فراہم کی گئی ہیں جبکہ غریب آدمی کیلئے بجٹ 2014-15ء ایک مونگ پھلی کا دانہ ثابت ہوا ہے جو کہ غلط ہے ۔

بطور انسان غریبوں کا خیال رکھنا اور ان کی بہتری کیلئے اقدامات کرنا ہمارا فرض ہے اور اسلام بھی ہمیں اس چیز کی تعلیم دیتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں اس چیز کا خصوصی خیال رکھا گیا کہ وہ افراد جو دو ڈالر یومیہ سے نیچے رہتے ہیں ان کی امداد کو یقینی بنایا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہی ہے جس نے پچھلے دور حکومت میں مستحق افراد کیلئے قرض حسنہ اور رواں برس مائیکرو فنانس اور یوتھ لون پروگرام متعارف کروایا اسی طرح لیپ ٹاپ کی تقسیم اور سکل ڈویلپمنٹ و تربیت کی سکیمیں بھی متعارف کروائی گئی ہیں تاہم ہر جگہ پر شفافیت اور میرٹ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا ۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آپ کو مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملے گا کہ جس میں وزیراعظم کسی وفاقی وزیر یا میں نے کسی دوسرے فرد کو ناجائز فائدہ پہنچانے کیلئے ٹیلی فون یا سفارش کی ہو ۔ بجٹ 2014-15ء میں عوام کو دیئے گئے ریلیف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اگر زراعت کا شعبہ ٹھیک ہوجائے تو ملک میں بہت بہتری آسکتی ہے رواں بجٹ میں زراعت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور اس حوالے سے سخت ترین اہداف رکھے گئے ہیں ۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ تین لاکھ کسانوں کو فی کس ایک لاکھ روپے قرضہ اور پچیس ایکڑ رقبہ پر فصلوں کی انشورنس ہوگی۔ ہم نے یہ بجٹ کسانوں اور تاجروں کے مشورے سے بنایا ہے اور انہیں مراعات بھی دی ہیں ایک سکیم کے تحت تین لاکھ کسانوں کو ایک لاکھ فی کس قرضہ دیا جائے گا اس کے ساتھ ساتھ زرعی اور ڈیری کے شعبہ کیلئے بیمہ پالیسی بھی لائی جارہی ہے جس سے یہ شعبہ مستحکم ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ لائیو سٹاک پر انشورنس کا کوئی انتظام نہیں تاہم حکومت تحفظ کو یقینی بنائے گی پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے ویژن کے مطابق ملک کو لے کر آگے بڑھنا ہے اور عوام کی معاشی حالت کو بہتر کرنا ہے ۔

ٹیکسٹائل صنعت کے حوالے سے چیدہ چیدہ نکات بیان کرتے ہوئے اور ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو مستحکم بنانے اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے ایک لاکھ بیس ہزار افراد کو تربیت دینے کے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر خواتین کو گارمنٹس کی تربیت دی جائے گی تاکہ وہ اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکیں۔ اس سکیم کے تحت آٹھ ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جائے گا اور اس سکیم پر مجموعی طور پر چار ارب چالیس کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ، گڈ گورننس کا قیام اور ٹیکس کے حوالے سے لیکجز کا خاتمہ کرنا ہے اور تین برس کے اندر اس ہدف کو حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اگر سب لوگ اپنے اپنے حصے کا ٹیکس دیں تو ملکی حالات جلد بہتر ہوسکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں تیس ارب روپے کی اضافی ٹیکس آمدن ملے گی تاہم اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ۔ وفاقی وزیر خزانہ نے عوام پر زور دیا کہ وہ کوئی بھی چیز خریدتے ہوئے رسید ضرور لیں تاکہ معیشت کو دستاویزی بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام بڑے شاپنگ مال کی رجسٹریشن کریں گے‘ ہمارے ہاں پچیس لاکھ سے زائد پرچون فروش موجود ہیں لیکن ان میں سے صرف چند ہزار ہی رجسٹرڈ ہیں۔

معیشت کو دستاویزی بنانے اور امیر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اس قسم کے اقدامات ضروری ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ایس آر او کلچر تین سال میں ختم کردیا جائے گا جبکہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا کلچر بھی ختم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ امیر لوگ بڑی مراعات حاصل کرلیتے ہیں اور سبسڈی کا غریب کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ایس آر او کلچر ختم کرنے سے 103 ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوگی جبکہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرنے کی روایت کے خاتمہ سے ٹیکس نیٹ بڑھے گا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ چند دن کے بعد دس جون کی تاریخ آرہی ہے اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے جن افراد نے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے ان کو چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ نے نوٹس جاری کردیئے ہیں تاکہ وہ بروقت اپنے ٹیکسوں کی ادائیگی یقینی بنائیں ورنہ ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بااثر افراد اور اداروں نے اپنے لئے خصوصی ایس آر اوز جاری کروائے وہ ایسا ایس آر اوز آج بھی قائم ہیں اور نہ صرف کرپشن کا باعث بن رہے ہیں بلکہ کرپشن کے فروغ کی وجہ بھی ہیں ۔

ٹیکس وصولی مہم مستقل نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ میں لانا ہے ۔ 70،70شاخوں والے بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز اور انٹرنیشنل چین سے لیکر ایک عام کھوکھے تک ہر بندے کو لازمی رجسٹریشن کروانا پڑے گی ایف بی آر نے ہر صورت ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا عزم کیا ہے ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ منافع خوروں کو بجٹ کے نام پر گرانی پھیلانے اور مہنگائی بڑھانے سے باز رکھے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ فنانس بل یا بجٹ کے نام پر منافع خوری اور من مانیاں کرے ۔

پریس کانفرنس میں ایک موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ روپے کے استحکام سے ملکی قرضوں میں چار سو سے سات سو ارب روپے کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روپے کے استحکام سے معاشی حالت بہتر ہوئی ہے اس سے تاجروں کو بھی فائدہ ہوا ہے اور ملکی سطح پر قرضے چار سو سے سات سو ارب کم ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قرضے ضرور لئے ہیں لیکن یہ قرضے ماضی میں لیے گئے قرضوں کی واپسی کیلئے تھے اگر ہم یہ قرضے ادا نہ کرتے تو ملک دیوالیہ ہوسکتا تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ محکمہ بیت المال اور اس قسم کے غریبوں کی امداد کے دیگر اداروں کو ایک ادارے میں ضم کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیرخزانہ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ محکمہ بیت المال بھی انتہائی غریب لوگوں کو امداد دیتا ہے اور ہمارے ہاں کئی ادارے اس مقصد کیلئے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایڈوائزری کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ چھ ماہ میں اس حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائے اس مقصد کیلئے ٹاسک فورس بنائی جارہی ہے جس میں ارکان پارلیمنٹ اور دیگر متعلقہ شعبوں کے ماہرین شامل ہوں گے اور اس کی رپورٹ کی بنیاد پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ صورتحال یہ ہے کہ زکوٰة کا محکمہ صوبوں کو دیا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی وزارت مذہبی امورمیں ایک سیل اس حوالے سے قائم ہے جس پر بھاری اخراجات ہوتے ہیں۔ ٹاسک فورس ان تمام امور کا جائزہ لے گی اور اپنی سفارشات پیش کرے گیانہوں نے کہا کہ ہیلتھ انشورنس اسکیم کے بارے میں ایک کمیٹی غور کررہی ہے اور اس کی سفارشات ملنے کے بعد اس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ مجموعی ڈیوٹی میں پانچ فیصد اضافے کے باوجود کاسمیٹکس ‘ ڈیری اور دیگر آئٹمز کی قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوگی کیونکہ ان پر پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ اگرچہ عام ڈیوٹی تیس فیصد سے کم کرکے پچیس فیصد کی گئی ہے لیکن کاسمیٹکس ‘ ڈیری آئٹمز اور پیک شدہ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی کیونکہ ان پر پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے اور یہ اس مقصد کیلئے لگائی گئی ہے کہ ایک طرف تو حکومت کو آمدنی ہو اور دوسری جانب ڈیوٹی میں کمی کا کوئی غلط فائدہ نہ اٹھایا جاسکے۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی میں یہ پہلا پی ایس ڈی پی ہے جو کہ جتنا رکھا گیا اتنا ہی فراہم بھی کیا گیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی کفایت شعاری مہم جاری ہے ۔ بجٹ میں پی ایم ہاؤس اور ایوان صدر پر گزشتہ برس اسٹیپ کٹ لگایا گیا تھا اور ان کو پہلے ہی کافی کم بجٹ پیش کیاجارہا تھا لہذا اس مرتبہ مزید کمی کی گنجائش نہیں تھی ۔

انہوں نے کہا کہ ہیلتھ انشورنس پر کام ہورہا ہے ایلمنٹری کام صوبوں کا ہوگا جبکہ باقی وفاق کا مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ای او بی آئی کے پنشنرز کی پنشن میں اضافہ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) ایک خود مختار ادارہ ہے جس کے تمام فیصلے بورڈ آف ڈائریکٹرز کرتا ہے جس طرح فوج کا ادارہ خود اپنے اہلکاروں کی پنشن کا فیصلہ کرتا ہے اس طرح اس ادارے میں بھی فیصلے ہوتے ہیں تاہم وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ ای او بی آئی کو خط لکھیں گے کہ وہ اپنے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے پنشنرز کی پنشن میں مناسب اضافہ کرے۔

ای او بی آئی کا بورڈ آف ڈائریکٹرز پنشن کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گا ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی لندن میں گرفتاری کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اس خبر کو سن کر کسی کو بھی خوشی نہیں ہوئی ۔ حکومت نے برطانیہ پاکستانی قونصلیٹ میں موجود قونصلر کو ہدایت کی ہے کہ وہ الطاف حسین سے رابطہ کریں اور تفصیلات معلوم کریں کیونکہ الطاف حسین ایک پاکستانی شہری ہیں حکومت اس حوالے سے بھرپور مدد کررہی ہے اور جو ہمارے بس میں ہوگا ہم کرینگے ۔

منی لانڈرنگ کے حوالے سے ملک میں قوانین موجود ہیں قومی اسمبلی میں گزشتہ دنوں ایک قانون پاس کیا گیا جو کہ اب سینٹ کی کمیٹی کے زیر غور ہے ۔

اس موقع پر ایک صحافی نے وزیر خزانہ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملک بھر میں کم سے کم تنخواہیں 12000 رویپ ماہانہ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے وہ اس تنخواہ میں ایک گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں جس پر وزیر خزانہ نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو مصیبتیں ہم نے تو نہیں دیں نہ یہ ہماری وجہ سے آئی ہیں تاہم فوراً ہی اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ درحقیقت یہ مصیبتیں ماضی کی حکومتوں کی دی ہوئی ہیں ان کو حل کرتے کرتے وقت تو لگے گا ۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی آمدن سولہ یا اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ ہے گھر تو اس میں بھی چلانا مشکل ہے تاہم حکومت اس حد تک ہی امداد کرسکتی ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ تنخواہوں میں مزید اضافہ نہیں کر سکتے تھے اس کیلئے مزید قرضے لینے پڑتے اور مالیاتی خسارہ بڑھتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری مجبوری تھی اگر ہم مزید تنخواہوں میں اضافہ کرتے تو اور قرضے لینے پڑتے اور مالیاتی خسارہ بڑھتا جس سے ملک پر معاشی بوجھ پڑتا۔

پریس کانفرنس کے دوران جب ایک صحافی نے وزیر خزانہ سے سوال کیا کہ آپ ڈالر کی قدر نیچے آنے پر شیخ رشید سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کرتے تو انہوں نے کہاکہ میں نے بجٹ تقریر میں بھی ایسا مطالبہ نہیں کیا تھا اور اب بھی شیخ رشید سے استعفیٰ نہیں مانگتا۔ ہر قسم کے لوگ جمہوریت کیلئے ضروری ہوتے ہیں معلوم نہیں میں نے روپے کی قدر بڑھانے کیلئے کتنی دعائیں مانگیں اور کتنی محنت کی ہے۔

وزیر خزانہ کی تقریر جوں جوں طویل ہوتی گئی صحافیوں نے ان پر اعتراض کرنا شروع کردیا حتی کے ایک صحافی نے اپنی نشست پر کھڑے ہوکر کہا آپ بجٹ تقریر کو دوبارہ آج دوہرا رہے ہیں یہ ساری باتیں آپ کل کرچکے ہیں جس پر وزیر خزانہ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ جا کر پانی پی آئیں تاکہ وہ اس دوران اپنی تقریر مکمل کرسکیں ۔

متعلقہ عنوان :