جج جسٹس جواد ایس خواجہ کی اہلیہ نے کبھی حکومت پنجاب کو اراضی فروخت کرنے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا،ریونیو بورڈ نے جبراً رِنگ روڈ کیلئے اراضی حاصل کی،وکیل ، دی گئی رقم پر بھی فاضل جج اوران کی اہلیہ کو اطمینان نہیں تھااور یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب جسٹس جواد ایس خواجہ کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا، الزامات عدلیہ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ ہیں،نجی چینل کے پروگرام کے بارے میں پیمرا کو وضاحت جمع کرادی گئی

بدھ 4 جون 2014 07:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4جون۔2014ء )سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ کی اہلیہ نے کبھی حکومت پنجاب کو اراضی فروخت کرنے میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا تاہم ریونیو بورڈ نے جبراً رِنگ روڈ کیلئے اراضی حاصل کی جس کی دی گئی رقم پر بھی فاضل جج اوران کی اہلیہ کو اطمینان نہیں تھااور یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب جسٹس جواد ایس خواجہ کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا،ایک چینل کی طرف سے الزامات عدلیہ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ ہیں۔

یہ بات اس حوالہ سے اے آروائی کے پروگرام پر خواجہ آصف محمودایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی طرف سے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو جمع کرائی گئی وضاحت میں کہی گئی ہے۔وضاحت میں کہاگیاہے کہ فاضل جج کی اہلیہ کی کبھی یہ خواہش نہ رہی ہے کہ وہ اپنی اراضی بیچیں جبکہ مذکورہ بالا ٹی وی پروگرام کا تمام تر زور اس بات پر رہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج جواد ایس خواجہ نے اپنا سرکاری اور منصبی اثر و رسوخ غیر قانونی طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کی زمین پنجاب حکومت کو نہایت مہنگے داموں فروخت کی اور اس طرح ایک غیرمعقول رقم حکومت سے بٹوری۔

(جاری ہے)

منسلکہ استغاثہ /شکایت سے اس جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے کیونکہ حکومتِ پنجاب نے رقبہ 2 کنال 9 مرلے جبری طور پر لاہور رنگِ روڈ کے لئے جبری حصولِ اراضی قانون 1894 کے تحت حاصل کیا۔ فاضل جج کی اہلیہ کی کبھی یہ خواہش نہ رہی ہے کہ وہ اپنی اراضی بیچیں۔ ٹی وی پروگرام کا مقصد ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ صریح جھوٹے اور من گھڑت الزامات فاضل جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف نشر کئے جائیں۔

خبر رساں ادارے کے پاس موجود تحریری وضاحت کے مطابق حکومت نے اراضی جبراًلی ہے اے فاضل جج کی اہلیہ سے خریدانہیں گیا اور اس حوالہ سے ٹی وی پروگرام میں غلط بیانی کی گئی ہے ۔حکومتِ پنجاب کے بورڈ آف ریونیو نے 26 فروری 2008 کو خود سے اراضی کی مالیت کا تخمینہ لگایا، اس تخمینے کے مطابق حکومت نے 6 لاکھ روپیہ فی مرلہ بمطابق ایک کروڑ 20 لاکھ روپے فی کنال معاوضہ طے کیا۔

فاضل جج کی اہلیہ اور تمام دیگر مالکانِ اراضی دیہہ حکومتی تخمینے سے مطمئن نہ تھے کیونکہ انہیں قیمت کے تعین کے لئے موقع زیرِ قانون جبری حصولِ اراضی 1894 نہیں دیا گیا جیسا کہ اس قانون کی دفعہ 11 میں درج ہے۔

اس بات سے واضح ہے کہ دفعہ 11 کا اطلاع نامہ جس کے تحت مالکان اراضی کو عذر کا موقع دیا جانا لازم ہے 13مئی 2008 ء کو جاری ہوا۔ اگلے ہی روز یعنی 14.05.2008 کو کلیکٹر نے معاوضے کا ایورڈ سُنا دیا۔

یہ محض کاغذی کارروائی تھی۔کلیکٹر نے پہلے سے ہی طے کر رکھا تھا کہ معاوضہ اُتنا ہی دیا جائے گا جتنا ریونیو بورڈ نے طے کیا تھا۔ تمام مالکان اراضی کو معاوضہ حکومت کے طے شدہ شرح کے تحت دیا گیا ۔ ایوارڈ میں کسی ایک مالک کو تخمینے سے زیادہ یا کم معاوضہ نہیں دیا گیا۔قانون دفعہ 18 قانون جبری حصولِ اراضی کے تحت ہر مالک کو حق ہے کہ وہ معاوضہ بڑھانے کی درخواست دے۔

تمام دیگر کی درخواستیں ابھی زیر سماعت ہیں جبکہ فاضل جج کی زوجہ کی درخواست پچھلے سال خارج ہو چکی ہے گو کہ بحالی کی درخواست زیر تجویز ہے۔

اہم ترین معاملہ بہرحال یہ ہے کہ اینکر پرسن نے جان بوجھ کر جھوٹ اور من گھڑت واقعات پروگرام میں نشر کئے۔خبر رساں ادارے کے پاس موجود تحریری وضاحت کے مطابق یہ اس بات سے واضح ہے کہ کارروائی جبری حصولِ اراضی اور معاوضہ برائے اراضی کا نوٹیفیکیشن زیر دفعہ 17 اور اطلاع نامہ زیر دفعہ 11 اور ایوارڈ معاوضہ تمام اس وقت جاری ہوئے اور عمل میں لائے گئے جبکہ فاضل جج کے پاس کوئی سرکاری منصب اور عہدہ نہیں تھا۔

فاضل جج نے19مارچ 2007ء میں ہائی کورٹ سے استعفیٰ دیا تھا۔ جبکہ ایوارڈ معاوضہ14مئی 2008ء کو صادر ہوا۔ یہ تمام کارروائی اس وقت ہوئی جبکہ فاضل جج لمزیونیورسٹی میں بطور پروفیسر درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔

متعلقہ عنوان :