39کھرب 45ارب روپے کا بجٹ پیش ، خسارے کا تخمینہ 1422 ارب روپے رکھا گیا،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد ایڈہاک ریلیف اور پنشن میں10فیصد اضافے ، مزدور کی کم سے کم اجرت 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار اور کم از کم پنشن 5 ہزار روپے سے بڑھا کر 6 ہزار کر نے کااعلان ، گریڈ1 سے 15تک فکس میڈیکل الاؤنس حاصل کرنیوالے ملازمین کے الاؤنس میں دس فیصد اضافہ،سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ٹیکسوں کی مد میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا تاہم ٹیکس ریٹرن نہ جمع کروانے والوں پر گاڑی کی رجسٹریشن اور بنک سے رقم نکلوانے پر اضافی ٹیکس لاگو ہوگا، دفاع کیلئے 700 ارب روپے رکھے گئے ہیں ، وفاقی وزیر خزانہ

بدھ 4 جون 2014 06:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4جون۔2014ء)وفاقی حکومت نے 39کھرب 45ارب روپے کے آئندہ مالی سال 2013-14کیلئے بجٹ پیش کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد ایڈہاک ریلیف اور پنشن میں10فیصد اضافے ، مزدور کی کم سے کم اجرت 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار اور کم از کم پنشن 5 ہزار روپے سے بڑھا کر 6 ہزار کر نے کااعلان کیا ہے ، اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں گریڈ1 سے 15تک کے ملازمین کو ماہانہ ایک ہزار روپے فکس میڈیکل الاؤنس حاصل کرنیوالے ملازمین کے الاؤنس میں دس فیصد اضافہ کیا جائیگا ،بجٹ خسارے کا تخمینہ 1422 ارب روپے رکھا گیا ہے ،صوبوں کو 1720 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے جس کے بعد وفاق کے پاس 2کھرب 25 ارب روپے کے فنڈز ہوں گے ،کارپوریٹ ٹیکس 34 فیصد سے کم کرکے 33 فیصد کم کرنے کی تجویز ہے ،آئندہ سال بجلی اور گیس کے تجارتی و صنعتی کنکشن حاصل کرنے کے لیے نیشنل ٹیکس نمبر ہونا لازمی ہو گا ، ٹیلی فون سروسز پر ودہولڈنگ انکم ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 14 فیصد کرنے کا فیصلہ ، اسٹیٹ بینک کے ذریعے برآمدی قرضے پر مارک اپ کی شرح کو 9.4 فیصد سے کم کرکے 7.5 پانچ کیاجائیگا ،بجٹ میں کراچی لاہورموٹروے کیلئے رواں مالی سال 25ارب رکھے گئے ،دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 15 ارب روپے مختص کئے گئے ، ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانیوالوں کے منافع اورحصص کی آمدن پر5فیصداضافی ٹیکس عائدکیا جائیگاجبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے مشکل فیصلوں سے ملکی معیشت کی سمت درست ہوچکی ہے،روشنی کایہ سفرجاری رہے گا ،ہمیں مستقل مزاجی کے ساتھ مزید آگے بڑھنا ہوگا، امید ہے پارلیمنٹ کے دونوں جانب سے اس حوالے سے ہماری رہنمائی کی جائیگی ،سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ٹیکسوں کی مد میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا تاہم ٹیکس ریٹرن نہ جمع کروانے والوں پر گاڑی کی رجسٹریشن اور بنک سے رقم نکلوانے پر اضافی ٹیکس لاگو ہوگابجٹ دستاویز میں دفاع کے لیے 700 ارب روپے رکھے گئے ہیں ، نئے بجٹ میں کسی بھی قسم کا سیلز ٹیکس یا فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نہیں بڑھائی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی میں مالی سال 2041-15کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہ موجودہ جمہوری حکومت کادوسرا بجٹ پیش کرتے ہوئے میں اللہ تعالیٰ کابے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے اپنے خصوصی کرم سے پچھلے بجٹ میں پیش کی گئی ہماری پالیسیوں اور اقدامات کو بے پناہ کامیابی عطا فرمائی ہے یہ کامیابی جمہوری عمل کانتیجہ بھی ہے جس کی بناء پر لوگوں کو اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کاموقع ملا اور اب ان کے نمائندے عوام کی امیدیں پوری کرنے کیلئے بھرپور جدوجہد کررہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہاکہ معاشی جدوجہد کے اس سفر کے آغاز میں ہمیں ایک شکستہ معیشت کی بحالی کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہم نے معیشت کی بحالی کیلئے اقتصادی اصلاحات کے ایک جامع ایجنڈے پرعملدرآمد شروع کیا تاکہ معاشی ترقی میں اضافہ ہو، قیمتوں میں استحکام لایا جائے نوجوانوں کو روزگار ملے اور ملک کے ٹوٹے پھوٹے انفراسٹرکچر کو نئے سرے سے تعمیر کیاجائے وزیراعظم محمد نوازشریف نے دور اندیشی ،دلیری اور سیاسی بالغ نظری کامظاہرہ کرتے ہوئے مشکل فیصلے کئے جو کہ ملکی اقتصادی صحت کی بحالی کیلئے لازمی تھے میں انتہاائی عاجزی سے کہنا چاہوں گا کہ ان مشکل فیصلوں کی بدولت آج اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے نہ صرف ملکی معیشت بحال ہوچکی ہے بلکہ استحکام اور ترقی کے راستے پرگامزن ہے۔

اسحاق ڈار نے کہاکہ میں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرونگا کہ ہم نے آسمانوں پر کمند ڈال لی ہے یا اپنے پیش نظر تمام منزلیں طے کرلی ہیں لیکن میں اللہ تعالیٰ کے احساس تشکر کے ساتھ انتہائی عاجزی کے ساتھ اس معزز ایوان کو ضرور آگاہ کرسکتا ہوں کہ آج کاپاکستان ایک سال پہلے کے پاکستان سے کہیں زیادہ توانا، کہیں زیادہ صحت مند اور کہیں زیادہ روشن ہے میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ انشاء اللہ روشنی کا یہ سفر جاری رہے گا لیکن اب تک کامیابی سے ہم تساہل اور غیر ضروری اطمینان میں مبتلا نہیں ہورہے ہمیں معلوم ہے کہ ہماری حقیقی منزل ابھی دور ہے لہٰذا ہمیں مسلسل جدوجہد اورمستقل مزاجی کے ساتھ مزید آگے بڑھانا ہوگا تاکہ ہم دنیا کی قوموں میں عزت اور وقار کا وہ مقام حاصل کرلیں جو ہماری صلاحیت اوراہلیت کے مطابق ہے یہ ایک قومی ایجنڈا ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس کے حصول میں پارلیمنٹ کے دونوں اطراف سے ہماری رہنمائی کی جائے گی اور مفید مشورے دیے جائیں گے۔

مالی سال 2013-14ء کی معاشی کارکردگی کاجائزہ پیش کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہاکہ میں اس معزز ایوان کے سامنے چند اقتصادی اشاریے پیش کرتاہوں جو رواں مالی سال کے تازہ ترین اعداد وشمار پرمشتمل ہیں اور یقیناً معیشت کی بحالی کی طرف اشارہ کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ معاشی ترقی کی رفتار جو کہ پانچ برسوں میں اوسطاً تین فیصد کے قریب رہی حالیہ اندازے کے مطابق بڑھ کر 4.14 فیصد ہوگئی ہے گزشتہ چھ برسوں میں معاشی ترقی کی یہ بہترین شرح ہے۔

فی کس آمدنی میں گزشتہ ایک سال میں3.5 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جو 1339 ڈالر فی کس کی سطح سے بڑھ کر1386 ڈالرفی کس ہوگئی ہے۔صنعتی شعبہ جس میں گزشتہ سال جولائی سے فروری کے دورا ن صرف1.37 فیصد ترقی ہوئی تھی اس میں بجلی کی بہتر فراہمی اور گیس سپلائی کی بہتر منیجمنٹ کی بدولت 5.84 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی ہے یہ ترقی گزشتہ چھ برسوں کی بلند ترین شرح ہے انہوں نے کہاکہ افراط زر ٹیکسوں اورتوانائی کی قیمتوں میں اضافے کے مشکل اور تکلیف دہ مگر ضروری فیصلوں کے باوجود جو کہ گزشتہ حکومت نے ایک عرصے سے التواء میں ڈالے ہوئے تھے جولائی ،مئی 2013-14ء کے دوران افراط زر کی شرح8.6 فیصد رہی جو ہماری حکومت سے پہلے کے پانچ سالوں میں اوسطاً12 فیصد تھی۔

ایف بی آر ریونیوز جن میں 2012-13ء میں فقط تین فیصد اضافہ ہوا تھا موجودہ سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران 16.4 فیصد کی شرح سے بڑھتے ہوئے 1,679 ارب روپے سے بڑھ کر1,955 ارب روپے ہوگئے۔ مالیاتی خسارہ جو جولائی اپریل 2012-13 کے دوران 5.5 فیصد رہا موجودہ سل کے اسی عرصے کے دوران کم ہوکر چار فیصد رہ گیا ہے یہاں میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمیں مالی سال2012-13 کے نظرثانی شدہ تخمینے میں یہ بتایا گیاتھا کہ مالی خسارہ 8.8 فیصد ہوگا۔

ہم اس سے چند روز پہلے ہی حکومت میں آئے تھے لیکن پھر بی جون2014 کے تین ہفتوں میں ہم نے اخراجات میں اعتدال لانے کی سرتوڑ کوششیں کیں جس کے نتیجے میں حقیقی خسارہ کم ہوکر8.2 فیصد تک ہوگیاتھا رواں مالی سال کیلئے مالی خسارے کاہدف کم کرتے ہوئے6.3 فیصد تک لانا تھا لیکن ہم خسارے کو5.8 فیصد تک لے آئے ہیں جو کہ ایک شاندار کامیابی ہے۔ وفاقی وزیراسحاق ڈارنے کہاکہ نجی شعبے کو ملنے والاقرضہ جو یکم جولائی 2012ء سے 9 مئی2013ء کے دوران 92.5 ارب روپے رہا اس سال کے اسی عرصے کے دوران بڑھ کر296.4 ارب روپے ہوگیا یہ 218 فیصد کااضافہ ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے ککہ حکوممت کے اسٹیٹ بنک اور دیگر بنکوں سے لئے جانیوالے قرضوں کی خاطر خواہ کمی آئی ہے جو پچھلے برس کے417 ارب روپے کی حد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں منفی11ارب روپے پراچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات جو گزشتہ برس جولائی اوراپریل کے دوران20ارب10 کروڑ ڈالر تھیں رواں مالی سال کے اسی عرصے میں بڑھ کر21ارب ڈالر ہوگئیں جو کہ 4.24 فیصد کااضافہ ہے۔ درآمدات مالی سال2013-14 میں جولائی سے اپریل کے دوران درآمدات 37.1 ارب ڈالر رہیں جو کہ پچھلے سال کے 36.7 ارب ڈالر سے صرف1.2 فیصد زیادہ ہیں تاہم مشینری کی درآمدات میں11 فیصد کامتاثر کن اضافہ ہوا ہے جو کہ سرمایہ کاری میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ترسیلات زر جو مالی سال 2012-13 میں جولائی اپریل کے دوران 11ارب60 کروڑ ڈالر ہیں ان میں رواں مالی سال کے پہلے10 ماہ میں 11.5فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جو بڑھ کر 12.9ارب ڈالر ہوگئیں انہوں نے کہاکہ اس شاندار اضافے پربیرون ملک مقیم پاکستانی بہن بھائیوں کو سلام پیش کرتاہوں جو ملکی میشت میں ایک نہایت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ شرح مبادلہ میں شروع شروع میں قیاس آرائیوں، عالمی مالیاتی ادارے کاقرضہ ادا کرنے کیلئے ہونیوالی بھاری ادائیگیوں اورزرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کی بناء پرکچھ دیر کیلئے عدم استحکام آیا تھا قیاس آرائیاں کرنیوالوں نے سوچا تھا کہ وہ شرح مبادلہ کے ساتھ خطرناک کھیل کھیلتے رہیں گے اور حکومت ماضی کی طرح سٹیٹس کو پرچلے گی 3 دسمبر2013ء تک وہ شرح مبادلہ کو تقریباً 111روپے فی ڈالر تک لے گئے یہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں تھا کیونکہ اس کا کوئی معاشی جواز نہیں تھا ہم نے اس کاسخت نوٹس لیا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام لانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کیں اوربنیادی اقتصادی اشاریے بہتر بنائے ۔

تین دسمبر2013ء کے اب تک روپے کی قدر میں تقریباً 11 فیصد تک کااضافہ ہوچکاا ہے گزشتہ تین ماہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 98 اور99 کی سطح پرمستحکم ہے شرح مبادلہ کااستحکام اقتصادی استحکام کاسب سے اہم اشاریہ ہے کیونکہ یہ دیگر معاملات مثلاً قیمتوں اورپیداواری لاگت کو بھی متاثر کرتی ہے مستحکم زرمبادلہ ہی مستحکم معیشت کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہاکہ زرمبادلہ کے ذخائر اسٹیٹ بنک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر جون2013ء میں کم ہوکر فقط چھ ارب ڈالر رہ گئے تھے جن میں دو ارب ڈالر تو صرف کرنسی کیلئے ایک تبادلے کی بناء پر حاصل ہوئے تھے جن کی ادائیگی اگست2013ء میں ہوناتھی اس کے علاوہ قرضوں کی ہوئے تھے جس کی ادائیگی اگست 2013ء میں ہونی تھی اس کے علاوہ قرضوں کی عام ادائیگیاں اور تین ارب 20 کروڑ ڈالر کے عالمی مالیاتی ادارے کی ادائیگی بھی مالی سال کی پہلی ششماہی میں ہونی تھی۔

10 فروری 2014ء کو زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو کر 7 ارب 58 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے جن میں سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے ذخائر صرف 2 ارب 70 کروڑ ڈالر تھے جبکہ 4 ارب 88 کروڑ ڈالر کمرشل بینکوں کے تھے ۔ بہت سے لوگ کہہ رہے تھے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا اور اپنے قرضے ادا نہیں کر سکے گا ۔ ہم نے بلندی سے گرتی ہوئی معیشت کو بچایا ہے اور اس کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا ہے زر مبادلہ کے ذخائر اب محفوظ سطح تک پہنچ گئے ہیں اور معیشت کو ان سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اس سسلے میں آگے جا کر میں کچھ اور گزارشات پیش کروں گا اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر تقریباً13 ارب 50 کروڑ ڈالر ہیں جلد ہی یہ بڑھ کر 15 ارب ڈالر ہو جائیں گے جو کہ 31 دسمبر 2014 تک ہونا تھے ہم یہ ہدف وقت سے بہت پہلے حاصل کر لینگے۔

کراچی سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس جو 11 مئی 2013 کو انتخابات کے روز 19,916 تک پہنچ چکا تھا ، 29 مئی 2014 تک بڑھ کر 29,543 ہو گیا ہے یہ 46 فیصد کا اضافہ ہے اور اس کی بنا پر روپے اور ڈالر کے حساب سے مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں تقریباً 39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نئی کمپنیوں کا اجراء جو گزشہ برس جولائی سے اپریل کے دوران 3,212 ریکارڈ کیا گیا تھا اس برس کے اسی عرصے میں 13.79 فیصد کے حساب سے بڑھ کر 3,655 ہو گیا ہے ۔

یہ کامیابی وزیراعظم نواز شریف کی قیادت اس معزز ایوان کی رہنمائی اور عوام کی پذیرائی کی وجہ سے ممکن ہو سکی ہے اور سبھی اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ ہم نے کچھ ایسے نتائج بھی حاصل کئے ہیں جو گزشتہ 5 سے 7 سالہ مدت میں کوشش کے باوجود حاصل نہ ہو سکے۔یورو بانڈ 2007-08 سے ہر سال یورو بانڈ کے ذریعہ زر مبادلہ حاصل کرنے کا پروگرام بنایا جاتا رہا مگر ہر سال غیر تسلی بخش معاشی کارکردگی کی بنا پر یہ کوشش ترک کر دی جاتی۔

2011 میں تو ایسا بھی ہوا کہ روڈ شوز کے بعد مارکیٹ میں پاکستانی بانڈ کیلئے عدم دلچسپی اور اس کی طلب میں کمی کی بنا پر ہماری ٹیم اسے درمیان میں ہی چھوڑ کر واپس آ گئی ۔ اللہ کے فضل و کرم سے یورو بانڈ جاری کرنے کی ہماری حکومت کی کوششوں کو پہلے سال میں ہی بے پناہ کامیابی ملی ہے ۔ معاشی استحکام حاصل کرنے کے فوراً بعد ہم نے بین الاقوامی کیپیٹل مارکیٹ سے وسائل حاصل کیے ہیں ہم نے فقط 500 ملین ڈالر کا ہدف مقرر کیا تھا تاہم جب ہم نے 7 اپریل 2014 کو روڈ شوز مکمل کیے اور سرمایہ کاروں کو اپنی پالیسیوں اور اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کے حوالے سے معلومات فراہم کیں تو انہوں نے غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔

ہمارے 500 ملین ڈالر کے ہدف کے مقابلے میں سرمایہ کاروں نے ہمیں 7 ارب ڈالر کی پیشکشیں کیں جو کہ اصل ہدف سے تقریباً 14 گنا زیادہ تھیں۔ اس غیر معمولی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ہم نے اس میں سے دو ارب ڈالر کی پیشکشیں قبول کر لیں۔ سرمائے کے حصول کی قیمت عالمی وسائل کی بنیاد پر ہمیں زیادہ مہنگا مقامی قرضہ اتارنے میں مدد ملی اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا اس طرح نجی شعبے کو قرضہ حاصل کرنے کیلئے زیادہ وسائل میسر آ گئے۔

ایک طویل عرصے سے آئی ایم ایف کے ایک سابقہ پروگرام پرعملدرآمد میں ناکامی کی بنا پر ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کو پروگرام لون دینا بند کر دیئے تھے یہ قرضے ، خصوصاً عالمی بنک کے سستے قرضے، بجٹ سپورٹ اور ادائیگیوں کے توازن کیلئے زر مبادلہ کے وسائل کی دستیابی کیلئے دیئے جاتے ہیں حکومت کی شاندار معاشی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ان مالی اداروں کا جب پاکستان کی معیشت پراعتماد بحال ہوا تو پھر اس سال ہمیں توانائی کے شعبے کی اصلاحات اور معاشی مسابقت اور شرح نمو بڑھانے کیلئے اصلاحات کی مد میں ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے پروگرام لونز ملے ہیں ۔

سپیکٹرم لائسنس کی نیلامی کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 3G اور 4G کے ریڈیو سپیکٹرم کی کامیاب نیلامی ہماری حکومت کی ایک اور قابل ذکر کامیابی ہے اس سلسلے میں بھی 2009-10 سے مسلسل بجٹ میں 50 سے 79 ارب روپے کا وعدہ کیا جاتا رہا مگر کبھی کامیابی نہ ہو سکی۔ ہم نے اس بولی سے حاصل ہونے والی رقم کا باقاعدہ تحقیق کے بعد تخمینہ بڑھا کر 2013-14 کے بجٹ میں 120 ارب روپے کر دیا تھا مگر پھر بھی ہم یہ بڑا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔

نہ صرف یہ کہ ہم اس بولی کیلئے طے کی گئی قیمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ ہمارے پاس اب بھی 2 مزید لائسنس باقی ہیں جنہیں ہم اگلے مالی سال میں نیلام کرینگے ۔ نیلام کی شرائط میں اس طرح کی سخت پیمنٹ کنڈیشن رکھی گئیں کہ 4 میں سے 2 کامیاب بولی دہندگان نے لائسنس ملنے کے ساتھ ہی انسٹالمنٹ کے بجائے 100 فیصد ادائیگی کر دی یہ سب بڑے شفاف انداز میں ہوا اور سب کو مقابلے کا موقع ملا ۔

پاکستان میں نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے میں کافی سال پیچھے رہ گیا تھا مگر اب ہم نے یہ رکاوٹ دور کر دی ہے جن کمپنیوں نے یہ لائسنس حاصل کیے ہیں وہ پاکستان میں ترقی کے امکانات کے حوالے سے بہت پر امید ہیں اس شعبے میں ترقی کی گنجائش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں 13 کروڑ موبائل فون کنکشن ہونے کے باوجود براڈ بینڈ کے ذریعے ڈیٹا ٹرانسمیشن کی شرح صرف 10 فیصد سے کم ہے ۔

اس نیلامی کے بعد لوگ سمارٹ فون کے ذریعے انٹرنیٹ سے منسلک ہو سکیں گے اور صارفین کی گلوبل کنیکٹوٹی میں اضافہ ہو گا ۔ ملک میں اس ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے سے معاشی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ نجکاری پروگرام کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری شعبے کے اداروں کی مکمل نجکاری یا کیپیٹل مارکیٹ کے ذریعے ان کے حصص فروخت کرنے کے حوالے سے اصلاحات کرنا پاکستان مسلم لیگ کے منشور کا حصہ تھا اور ہم نے گزشتہ سال بجٹ کی حکمت عملی میں بھی اس کا اعلان کیا تھا۔

یہ کام بھی بچھلی حکومت کی منظوری، اعلان اور 65 اداروں کی نشاندہی کے باوجود کئی برس سے پورا نہیں ہو پا رہا تھا ہم نے اس پروگرام کو پچھلی حکومت کے اعلان کے مطابق دوبارہ سے شروع کیا اور سال کے اختتام سے پہلے ہم حبیب بنک، یونائیٹڈ بنک اور الائیڈ بنک کے حصص فروخت کیلئے پیش کرینگے اور پاکستان پیٹرولیم اور او جی ڈی سی ایل کے بھی مزید حصص فروخت کئے جائیں گے ۔

اس کے علاوہ مختلف سرکاری کارپوریشنوں کی سٹریٹجک پارٹنر شپ کے ذریعے نجکاری کیلئے مالی مشیر مقرر کیے جا چکے ہیں ۔ مسلسل خسارے میں رہنے کی بنا پر ان میں سے بیشتر ادارے سرکاری خزانے پر شدید بوجھ ہیں نجی شعبے کے ساتھ شراکت کے ذریعے ان اداروں کو مافع بخش بنایا جائے گا اور سرکاری خزانے کو ان کے بوجھ سے آزاد کیا جائیگا ۔ علاوہ ازیں اس سے ایک طرف تو ملک میں بین الاقوامی سرمایہ کاری آئیگی دوسرے اس سے قومی قرضے کا بوجھ کم ہو گا اور نجکاری کے قانون کی روشنی میں غربت کم کرنے کے منصوبوں کیلئے مزید وسائل دستیاب ہونگے میں اس ایوان کو یقین دلانا چاہوں گا کہ اس پروگرام کو آگے بڑھاتے وقت حکومت کارکنوں اور سرکاری اداروں کے ملازمین کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریگی ان کی فلاح اور حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائیگا ۔

ایل این جی درآمد کے حوالے سے اسحاق ڈار نے کہا کہ ماضی میں ایل این جی کی درآمد کی بھی کئی کوششیں ہوئیں جو کامیاب نہ ہو سکیں ہماری گیس کی مقامی پیداوار حالیہ ضرورت کی صرف 50 فیصد طلب کو پورا کرتی ہیں ۔ ایل این جی کی درآمد صنعت، بجلی کی پیداوار اور کھاد بنانے کیلئے نہایت ضروری ہے ۔ ہم نے نجی شعبے کو ایل این جی کا 200 ایم ایم سی ایف ڈی کا ٹرمینل بنانے کی دعوت دی ہے جسے بعد میں بڑھا کر 400 ایم ایم سی ایف ڈی کر دیا جائیگا۔

ہم ایک شفاف طریقے سے پورٹ قاسم پر ٹرمینل بنانے کے کام کا ٹھیکہ دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ ٹرمینل پر کام شروع ہو چکا ہے اور ایک سال کے اندر اندر گیس کی سپلائی شروع ہو جائے گی ہم نے نہایت شفاف طریقے سے عالمی منڈی سے 35 لاکھ ٹن ایل این جی خریدنے کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ معاشی کارکردگی کی اس مختصر سی تصویر سے پتہ چلتا ہے کہ معیشت مستحکم ہے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ بہتر مستقبل کی امیدیں باندھ رہے ہیں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت اور ہماری حکومت کی بہتر پالیسیوں کی بنا پر ممکن ہوا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے میں نے اس تصور کا ذکر کیا تھا جو حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی رہنمائی کر رہا ہے یہ وژن چھ عناصر پر مبنی ہے ۔ تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ اور اقتصادی خود مختاری کا تحفظ ،نجی شعبے کواقتصادی ترقی کابنیادی ذریعہ بنانا: سڑکوں، شاہراؤں، ریلویز، بندرگاہو، پانی، آبی بجلی اور اس طرح کے دوسرے شعبوں میں بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے حکومتی سرمایہ کاری،تمام شعبوں پر ترقی کی یکساں ذمہ داری ڈالنے کیلئے ٹیکسوں کی چھوٹ کے کلچرکا خاتمہ اور اس بات کو یقینی بنانا کہ پبلک سروسز کی لاگت کو وصول کیا جائے تاکہ ان خدمات کا تسلسل یقینی رہے، حکومتی اخراجات میں کفایت شعاری سے کام لینا اور انہیں دستیاب وسائل تک محدود رکھنا اورآبادی کے کمزور اور غریب طبقات کو افراط زر کے اثرات سے بچانا اور اقتصادی اصلاحات کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی بدحالی کا اثر کم کرنے کیلئے انہیں نقد امداد مہیا کرنا۔

انہوں نے کہا کہ ہم بہت احتیاط اور سنجیدگی کے ساتھ اس تصور کے تحت کام کررہے ہیں ہم نے وہ ہی کچھ کیا جس کا ہم نے وعدہ کیا تھا، ہمارے عزم کا اظہار اوپر بیان کردہ کارکردگی سے بخوبی ہو جاتا ہے اور مستقبل میں اس تصور کے حصول میں ہمارے ارادے کی پختگی کا مزید مظاہرہ اس تقریر کے اگلے حصے میں بیان کردہ حقائق سے ہو جائیگا، اس سے ایک ذمہ دار منتخب حکومت کی نشاندہی ہوتی ہے جو اللہ تعالی کے بعد اس ایوان اور عوام کے سامنے جوابدہ ہے جنہوں نے اس کام کیلئے منتخب کیا ہے اور اب جبکہ ہم اپنی حکومت کے دوسرے سال میں داخل ہو رہے ہیں تو یہ نیا بجٹ ہمارے اسی عزم وارادے کا آئینہ دار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم مالی سال 2014-15ء کے دوران مالیاتی خسارے کو مجموعی قومی پیداوار کے 5.8 فیصد سے مزید کم کر کے 4.9 فیصد تک لے جائینگے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں سے حاصل شدہ آمدنی میں اضافہ، مالیاتی خسارے میں کمی وصولی میں بہتری اور اخراجات میں کمی کی پالیسی کے ذریعے عمل میں لائی جائیگی، اس سلسلے میں تفصیلات میں اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں بیان کرونگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پہلے بجٹ میں کئے گئے مشکل فیصلوں کی بناء پر ہونیوالے ممکنہ افراط زر کو روکنے میں کامیاب رہے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ افراط زر کو یک ہندسی شرح کے اندر محدود رکھا گیا ہے ہم پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے اثر سے عوام کو بچانے کیلئے رواں مالی سال میں 20 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دے چکے ہیں، گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران کم از کم آٹھ مہینے ایسے تھے جب ہم نے قیمتوں کو یا تو برقرار رکھا یا ان میں کمی کی، درج ذیل اقدامات افراط زر کی صورتحال کو مزید بہتر بنائینگے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلے سال سٹیٹ بینک سے قرضے لینے کے عمل میں کمی کی گئی اور اگلے سال اس سطح کو مزید نیچے لایا جائیگا۔بیرون ملک سے حاصل کردہ قرضوں پر مارک اپ کی اوسط شرح پانچ فیصد سے کم ہے جو کہ مقامی قرضوں کی شرح سے نمایاں طور پر کم ہے جو کہ اوسطا بارہ فیصد سے زائد ہے اس طرح ہمیں تقریبا چوبیس ارب روپے سالانہ کی بچت ہوگی جو قرضوں کے اخراجات میں کمی کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ تمام اجناس کی مناسب مقدار میں فراہمی کو یقینی بنانے اور قیمتوں میں استحکام لانے کیلئے قیمتوں کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی ہے، کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی باقاعدگی سے قیمتوں کا جائزہ لیتی ہے وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی وزارتوں پر مشتمل ایک نگران کمیٹی بنائی گئی ہے جو قیمتوں کے استحکام کو یقینی بنانے کیلئے ہر دو ماہ میں ایک بار اپنا اجلاس کرتی ہے، صوبائی حکومتوں نے ملک بھر میں جمعہ بازاروں اور اتوار بازاروں کا ایک وسیع جال پھیلا دیا ہے یہ بازار ضروری اشیاء کی مارکیٹ کی نسبت سستے داموں خریداری کا اضافی ذریعہ ہیں جب بھی کسی جنس کی کمی ہو جاتی ہے تو اس کی فراہمی کیلئے فوری اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، اشیاء کی رسد اور قیمتوں میں استحکام لانے کیلئے ٹریف ، ٹیکس اور تجارتی پالیسی کو استعمال میں لایا جاتا ہے اور جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں وہاں قلت کو پورا کرنے کیلئے ضروری درآمدات کی جاتی ہیں اور اگر ضروری ہو تو ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی چھوٹ بھی دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے منشور میں 4-Es کا ذکر کیا تھا جس میں معیشت، توانائی، تعلیم اور شدت پسندی کا خاتمہ شامل ہیں اس طرح توانائی کو ہمارے پروگرام میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ہمیں ورثے میں توانائی کا وہ شعبہ ملا جو مکمل تباہی کے دہانے پرکھڑا تھا، شہروں میں 16 گھنٹے اور دیہات میں بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی ، پانچ سو ارب روپے سے زیادہ کے گردشی قرضے نے بجلی کی پیداواری صلاحیت کو بری طرح متاثر کررکھا تھا، انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے مثلا نندی پور اور نیلم جہلم لاپرواہی، بے حسی اور غفلت کی بناء پر تاخیر کا شکار تھے یا انہیں ترک کردیا گیا تھا ہم اس شعبے کو درپیش مشکلات کو دیکھ کر خوفزدہ نہیں ہوئے کیونکہ ہمیں اس بات کا پورا احساس تھا کہ اس شعبے کو راہ راست پر لائے بغیر اقتصادی ترقی کی امید رکھنا ناممکن ہے ، ہم نے گردشی قرضہ ادا کیا اور نیشنل گرڈ میں تقریبا 1700 میگا واٹ کا اضافہ کیا، ان اقدامات کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں کیونکہ نظرثانی شدہ قومی کھاتوں کے مطابق توانائی کے شعبے میں 3.72 فیصد کی ترقی ہوئی ہے بمقابلہ پچھلے سال کے جب یہ شرح منفی 16.33 فیصد تھی لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم توانائی کے مجموعی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ایک جامع منصوبہ پر کام کررہے ہیں جس کے ذریعے مزید توانائی پیدا کی جائیگی ، بجلی کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے مہنگی اور سستی بجلی کے تناسب کو بہتر کیا جائیگا، نجی شعبے سے سرمایہ کاری لائی جائیگی اور
بجلی کی ترسیل وتقسیم کے نظام کو بہتربنایا جائیگا، میں ان اقدامات کی تفصیل ترقیاتی منصوبوں کے ضمن میں بیان کرونگا۔

برآمدات میں اضافہ :۔ ہمارے سامنے درپیش ایک بڑا چیلنج برآمدات میں اضافے کے ذریعے ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال کو مستقل بنیادوں پر بہتر بنانا ہے ، 2000-2001 سے ہماری برآمدات میں اضافے کی شرح آٹھ فیصد رہی ہے جبکہ درآمدات میں تیرہ فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا ہے ، اس صورتحال نے تجارتی توازن کو بری طرح متاثر کیا ہے اسی عرصے میں ایکسپورٹ ٹو جی ڈی پی ریشو13 فیصد سے کم ہو کر دس فیصد ہوگئی ہے جبکہ امپورٹ تو جی ڈی پی ریشو 15 فیصد سے بڑھ کر 19 فیصد ہوگئی، تجارتی عدم توازن کی اس صورتحال کو بڑی حد تک بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافے نے سہارا دیا جو کہ اس عرصے میں پچیس فیصد تک بڑھی ہیں اور نتیجتا ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ اس عرصے میں بڑی حد تک مستحکم رہا ہے چنانچہ یہ باعث حیرت نہیں ہے کہ اس عرصے کے دوران ملک کا تجارتی توازن مسلسل خراب ہو رہا ہے اور اس نے ہماری برآمدات کے شعبے میں مسابقت کو بری طرح متاثر کیا ہے یہ کوئی خوش کن صورتحال نہیں ہے برآمدات کی دگرگوں صورتحال سے پیدہ شدہ تجارتی عدم توازن ہمارے اقتصادی پوٹینشل سے مطابقت نہیں رکھتا ہمیں ہر حال میں کم ہوتے ہوئے ایکسپورٹ ٹو جی ڈی پی ریشو کے رجحان کو بہتر بنانا ہے اور اس کیلئے ہمیں اپنی توانائیاں صنعت اور زراعت کے شعبے پر مرکوز کرتے ہوئے برآمدات میں اضافہ کرنا ہے اس مقصد کیلئے اس بجٹ میں بہت سے بنیادی اقدامات کا اعلان کیا جارہا ہے۔

نئے روزگار کے مواقع کی فراہمی:۔ نوجوان مردوں اور عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہمیں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اس مقصد کیلئے بنیادی کر دار نجی شعبے کو ادا کر نا ہے اور ہمارا کام نجی شعبے کیلئے ایک ایسا ماحول پیدا کر نا ہے جو سرمایہ کاری کو فروغ دے تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجیز جنہیں ہماری حکومت نے بڑی کامیابی سے متعارف کروایا ہے معاشی ترقی میں اضافے کا سبب بنیں گی ان کے ذریعے صارفین کو اپنی استعداد اور پیداوار میں اضافے کاموقع ملے گا تھری جی اور فورجی ٹیکنالوجی کے بیروز گاری پر اثرات کے حوالے سے ایک تفصیلی جائزہ رپورٹ کے مطابق اس عمل سے اگلے چار سالوں میں تقریباً نو لاکھ کو روز گار ملے گا اس کے علاوہ ہمارے دوسرے اقدامات مثلاً حکومتی قرضوں میں کمی اور نتیجتاً نجی شعبے کو سرمائے کی بہتر فراہمی سے سرمایہ کاری کے رجحان میں اضافہ ہوگا پی ایس ڈی پی کو 525ارب روپے تک بڑھایا جارہاہے جو کہ 2013-14کے 425ارب روپے کے مقابلے میں تقریبا چوبیس فیصد زیادہ ہے انہوں نے کہاکہ شرح نمو میں بہتری کیلئے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے سرمایہ کاری ہماری معیشت کا ایک بڑا چیلنج ہے اس سلسلے میں ہم اپنی تیاریوں کے آخری مراحل میں ہیں اور کچھ میگا پراجیکٹ پر کام کا آغاز ہونے کو ہے تاہم اس سے پہلے نجی شعبہ کو سرمائے کی بہتر فراہمی کیلئے کئے گئے جن اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے پچھلے دس ماہ کے اعدادو شمار سرمایہ کاری کے رجحان کی پوری طرح نشاندہی نہیں کرتے آنے والے مہینوں اور سالوں میں ڈ ملک میں سرمایہ کاری کی شرح میں انشاء اللہ نمایاں اضافہ ہوگا حالیہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی بجٹ کو تمام تر دستیاب وسائل دیتے ہوئے 425ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں یہ ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس سال ہم نے مالی خسارے میں بھی 2.4فیصد کمی کی ہے ماضی میں اکثر خسارے میں کمی ترقیاتی اخراجات کم کر نے کے ذریعے کی جاتی رہی ہے ہم نے یہ روایت ختم کر دی ہے انہوں نے کہاکہ قومی قرضے کی ماہیت میں پچھلے کچھ سالوں میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے جس کے تحت بیرونی قرضے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے تھوڑی مدت کے مقامی قرضوں کا حصہ بڑھ گیا ہے جس کی واپسی جلدی کرنا ہوتی ہے اسی طرح ماضی قریب میں روپے کی قدر میں اچھی خاصی کمی کی وجہ سے قومی قرضے کی کل مقدار میں اضافہ ہوا موجودہ حکومت نے پاکستان کے قومی قرضے کا انتظام بہتر طورپر چلانے کیلئے فوری اقدامات کئے ہیں اس ضمن میں ہماری پالیسی کے چیدہ نکات درج ذیل ہیں قرضوں کے بندوبست کی وسط مدتی حکمت عملی بنائی گئی ہے جس کے تحت ادائیگی کی مدت میں اضافہ کر ن ے اور خاطر خواہ بیرونی ترسیلات کے ذریعے مقامی قرضے کے دباؤ کو کم کر نے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ نجی شعبے کو بینکوں سے مزید قرضے مل سکیں سرمایہ کاری کی بنیاد وسیع کر نے اور گور نمنٹ سیکورٹی مارکیٹ میں آسانی پیدا کر نے کیلئے ٹریژری بل کی تجارت تاریخ میں پہلی بار اسٹاک ایکسچینج پر بھی شروع کی گئی ہے اس سے عام سر مایہ کاروں کو سرمایہ کاری کا ایک اضافی ذریعے دستیاب ہوا ہے پاکستان نے سات سال کے وقفے کے بعد کامیابی سے بین الاقوامی سرمائے کی منڈی سے سرمایہ اٹھایا انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کا ایک نمایاں مقصد غریبوں تک رسائی ہے اس سلسلے میں نیشنل اکنامک سپورٹ پروگرام ہمارا سب سے بڑا اقدام ہے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور وزیر اعظم کے نو جوانوں کیلئے مختلف پروگرام اسی کا حصہ ہیں اس سلسلے میں درج ذیل تفصیل ایوان میں پیش کی جارہی ہے 2008 میں میں نے بطور وزیر خزانہ بی آئی ایس پی کیلئے 34ارب روپے مختص کئے تھے لیکن جب پچھلے سال ہمیں یہ پروگرام ملا تو اس کے تحت صرف چالیس ارب روپے خرچ کئے گئے تھے غریبوں کی فلاح میں ہماری گہری دلچسپی کی بناء پر ہم نے فوری طورپر اس رقم کو بڑھا کر 75ارب روپے کر دیا جبکہ اس سکیم میں وزیر اعظم کے نو جوانوں کے پروگرام کا اہم جز بھی شامل کر دیا گیا ہم اس رقم کو بڑھا کر مالی سال 2014-15کیلئے 118ارب روپے کررہے ہیں جو کہ 2012-13کے مقابلے میں تقریباً 200فیصد کا اضافہ ہے 2012-13تک نقد امداد کے پروگرام کے تحت 41لاکھ گھرانوں کو امداد فراہم کی گئی تھی جسے رواں مالی سال میں بڑھا کر 48لاکھ کر دیا گیا ہے مالی سال 2014-15میں ہم یہ امداد مزید بڑھا کر 53لاکھ گھرانوں تک پہنچائیں گے جوکہ 2012-13کے مقابلے میں 29فیصد زیادہ ہے انہوں نے کہاکہ اس پروگرام کے تحت شروع میں ماہانہ وظیفہ 1000روپے مقرر کیا گیا جو پانچ سال تک جاری رہا پچھے سال ہم نے اس میں بیس فیصد اضافے کر کے 1200روپے کر دیا تھااس سال ہم اس میں مزید 25فیصد کا اضافہ کا اعلان کرتے ہوئے اسے 1500روپے کررہے ہیں اس طرح یکم جولائی 20013سے ہم کیش گرانٹ میں 50فیصد اضافہ کیا ہے اس کے علاوہ پہلے سے اعلان شدہ نو جوانوں کیلئے وزیر اعظم کے پروگرام کے تحت خصوصی اسکیموں کیلئے بھی 21ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے بیشتر سکیمیں اب پوری طرح فعال ہوچکی ہیں اور باقی وہ ہی ہیں جن کا اس بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم اپنے غریب بہن بھائیوں اور نوجوانوں کی مدد کرنے پر فخر اور اطمینان محسوس کرتے ہیں، یہ ان کا ہی پیسہ ہے جو بوقت ضرورت ان کے کام آرہا ہے میں یہاں اس بات پر زور دینا چاہونگا کہ ہم محتاجی کے کلچر کو فروغ نہیں دینا چاہئے، اس لئے اس سکیم کے تحت امداد حاصل کرنیوالوں کی معاشی حالت کا سلسل اندازہ لگایا جاتا ہے اور اگر کسی کی صورت حال بہتر ہو تو اس کو معاشی خود کفالت کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے یہ ضرورتمند خاندانوں کی مدد کرنے کا پروگرام ہے اور اس کے ذریعے انہیں ایسی زندگی اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جس میں انہیں کسی کی مالی مدد کی ضرورت نہ رہے۔

انہوں نے کہا کہ غریبوں کی امداد اور سماجی تحفظ کے پروگرام بہت سی وزارتوں اور محکموں میں بکھرے پڑے ہیں اور ان کا آپس میں کم ہی رابطہ ہوتا ہے ان پروگراموں کو بہتر بنانے کیلئے ایک اعلی سطحی ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو ان پروگراموں کی کارکردگی اور غریبوں کو حاصل ہونیوالے فوائد کا جائزہ لیکر یہ طے کرے گی کہ ان پروگراموں سے کس حد تک فائدہ اٹھایا جارہا ہے اور ایک ہی کام ایک سے زیادہ ادارے تو نہیں کررہے، ٹاسک فورس کی رپورٹ کی روشنی میں ایک نئی پالیسی بنائی جائیگی جس کے تحت حکومت کی سماجی تحفظ کی خدمات زیادہ مربوط طور پر فراہم کی جاسکیں گی، انہوں نے کہا کہ حکومت انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت اور تجارت ، بیرونی سرمایہ کاری ، خواتین کو اختیار دینے، روزگار ، تعلیم، مسابقت اور معاشی ترقی میں اس کے کردار سے بخوبی آگاہ ہے، ہم نے اس بجٹ میں آئی سی ٹی جیسے اہم شعبے کی ترقی اور فروغ کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے ہیں، انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کی گونا گوں خدمات مثلا نادرا کی سہولیات، سمز کے اجراء کیلئے بائیو میٹرک تصدیق کے آلات اور صحت زراعت ، تجارت ، گورننس اور تعلیم میں ای فیسیلی ٹیشن وغیرہ کی سہولیات بہم پہہنچانے اور مقامی سطح پر روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے یونیورسل سروسز فنڈ ملک بھر میں یونیورسل ای ٹیلی سنٹرز کے قیام کیلئے بڑے پیمانے پر فنڈ فراہم کریگا، پہلے مرحلے میں اسلام آباد اور چاروں صوبوں میں پانچ سو ٹیلی سنٹرز قائم کئے جائینگے ، آئندہ تین سالوں میں اس پروگرام کے تحت تقریبا بارہ ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائیگی، انہوں نے کہا کہ اس سال دو ارب اسی کروڑ روپے کے خرچ سے بلوچستان، فاٹا، خیبرپختونخواہ کے دیہاتی علاقوں اور ملک کے دیگر دور دراز علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپٹک فائبر بچھانے کے ذریعے ان علاقوں کی کنیکٹی ویٹی بہتر بنائی جائیگی اس کے علاوہ یو ایس ایف کے تین ارب ساٹھ کروڑ روپے سے دیہاتوں میں ٹیلی فون کی سہولیات کو مزید وسیع کیاجائیگا، ان اقدامات سے پسماندہ علاقوں میں جدید دور کی آئی سی ٹی سروسز فراہم کی جائیگی، انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت دیہاتی علاقوں کے طلبہ وطالبات کو ملک کی بہترین یونیورسٹیوں میں انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائینگے، اس سال آر اینڈ ڈی فنڈ سے ساڑھے بارہ کروڑ روپے شفاف انداز میں پانچ سو وظائف دیئے جائینگے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی ہماری بجٹ کی حکمت عملی تین سالہ وسط مدتی تناظر میں بنائی گئی ہے جس کے چیدہ نکات مندرجہ ذیل ہیں، انہوں نے کہا کہ مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو کو 2016-17ء تک بتدریج 7.1 فیصد تک لے جایا جائیگا، افراط زر کو سنگل ڈیجٹ تک محدود رکھا جائیگا، سرمایہ کاری کا تناسب بیس فیصد تک بڑھایا جائیگا، مالیاتی خسارے کو 2015-16ء تک چار فیصد کر دیا جائیگا جس کے بعد اس کو اسی سطح پر مستحکم رکھا جائیگا، ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح کے تناسب 2016-17ء تک تیرہ فیصد تک بڑھایا جائیگا، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو 2016-17ء تک بائیس ارب ڈالر تک بڑھا دیا جائیگا، انہوں نے کہا کہ پہلے سال کی کارکردگی سے حوصلہ افزائی پا کر ہم پراعتماد ہیں کہ استقامت اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے ہم یہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائینگے ، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے پاکستان کو وافر آبی وسائل سے نوازا ہے پاکستان کے پاس آبپاشی کا بہت بڑا نیٹ ورک موجود ہے ملکی تاریخ کے ابتدائی سالوں میں ہم نے تربیلا اور منگلا جیسے پانی کے بڑے ذخائر تعمیر کئے جنہوں نے ہماری آبپاشی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں بہت مدد دی لیکن بہت عرصے سے ہم نے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چھوڑ دیا ہے جبکہ موجودہ ڈیموں کی تہہ میں سالوں کی مٹی جمع ہو چکی ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے ترقیاتی پروگرام میں پانی اہم سب سیکٹر ہے جس میں ملک کے مختلف حصوں میں چلنے والے منصوبوں کیلئے 42 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے ان میں سب سے اہم منصوبہ دیا میر بھاشا ڈیم ہے جس میں 4.7 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش اور 4500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اس منصوبے کیلئے زمین حاصل کرنے کی خاطر رواں مالی سال میں دس ارب روپے فراہم کئے جاچکے ہیں اور اس عمل کو مکمل کرنے کیلئے مزید پندرہ ارب روپے رکھے گئے ہیں، ہم اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اور جلد ہی اس کے تعمیراتی کام کا آغاز ہو جائیگا، بلوچستان میں پانی کے منصوبے اس شعبے کی دوسری اہم ترجیح ہیں جس کے تحت ڈیلے ایکشن ڈیمز اور فلڈ ڈسپرسل سٹرکچر، نہروں اورچھوٹے ڈیموں کی تعمیر عمل میں لائی جارہی ہے وہ منصوبے جو پہلے ہی کافی تاخیر کا شکار ہوچکے ہیں ان کی تکمیل پر ہماری خصوصی توجہ ہے ، انہوں نے کہا کہ ان میں کچھی کینال ، نولنک ڈیم (جھل مگسی)، پٹ فیڈر کینال کی ڈیرہ بگٹی تک توسیع اور شادی کوڑ ڈیم (گوادر) شامل ہیں، سندھ میں رینی کینال اور آر بی او ڈی کی سہون شریف سے سمندر تک توسیع کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائیگی، پنجاب میں گھابیر ڈیم (چکوال) اور آزاد جموں وکشمیر میں منگلا ڈیم ریزنگ منصوبے کیلئے فنڈز رکھے گئے ہیں، خیبرپختونخوا میں پلال، کنڈال اور صنم ڈیمز اور فاٹا میں کرم تنگی ڈیم (شمالی وزیرستان) اور گومل زام ڈیم (جنوبی وزیرستان) کیلئے بھی رقوم رکھی گئی ہیں اس کے علاوہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخواہ میں سیلاب سے تحفظ اور پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے کھالوں کی پختگی اور ملک بھر میں نکاسی آب کے منصوبے شامل ہیں اس کے علاوہ پانی کے شعبے میں چند نئے منصوبے بھی شروع کئے جارہے ہیں جن کے تحت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بہت سے چھوٹے ڈیم بنائے جائینگے ان میں اوڑماڑہ میں بسول ڈیم ، تھر میں مکھی فراش لنک کینال اور پنجاب میں نالہ ڈیک پر کام کیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے پر ہماری سب سے زیادہ توجہ ہے، توانائی کے ملک گیر بحران نے ہمارے صنعتی شعبہ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ہمارے عوام کی تکالیف میں اضافہ کیا ہے ۔ وزیراعظم محمد نواز شریف توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور سرمایہ کاری پر ذاتی توجہ دے رہے ہیں ، پاکستان میں توانائی کی فراہمی کی صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے بہت سے اصلاحی اقدامات اٹھائے گئے ہیں ، بجلی کے ضیاع، بلوں کی وصولی کو بہتر بنانا، چوری کے خاتمے اور گردشی قرضے کا باعث بننے والے نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے بہت سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم ہماری توجہ توانائی کے اضافی وسائل پیدا کرنے پر ہے تاکہ اس مصیبت سے مستقبل طورپر چھٹکارا پایا جاسکے چنانچہ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ہم نے وسائل کا ایک بڑا حصہ توانائی کی صلاحیت میں کفایت کے حصول کیلئے مختص کیا ہے اس سال اس شعبے میں 205 ارب روپے کی خطیر رقم کی سرمایہ کاری کی جائیگی اس پروگرام میں درج ذیل منصوبے شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ نیلم جہلم منصوبہ (969 MW)، دیا میر بھاشا ڈیم (4500MW)، تربیلا چوتھا توسیعی منصوبہ (1410 MW)، تھرکول گیسی فیکیشن منصوبہ (100MW)، چشمہ نیوکلیئر منصوبہ (600MW)، چین کی مدد سے کراچی کوسٹل پاور کے دو منصوبے (2200 MW)، کھیال کھوار منصوبہ (122 MW)، علئی کھوار منصوبہ (122 MW)، نندی پور (425 MW) اور چیچو کی ملیاں میں کمبائنڈ سائیکل پاور منصوبے (525 MM) ، منگلا پاور سٹیشن کے پیداواری یونٹ کی اپ گریڈیشن اور ریفربشمنٹ ، گدو پاور پراجیکٹ (747 MW) کی اپ گریڈیشن، مظفر گڑھ اور جامشورو کے پاور پراجیکٹس کی کوئلے پر منتقلی (3120mw) ، جھم پیر اور گھارو میں ہوا سے چلنے والے پاور پراجیکٹس کیلئے ترسیلی نیٹ ورک کا قیام، چشمہ نیوکلیئر III اور IV کا انٹرکنکشن ، تھرکول سے چلنے والے اینگرو (1200 MW) کا انٹر کنکشن اور بجلی کی تاروں، گرڈ سٹیشنوں اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے خطیر رقوم رکھی گئی ہیں، ہم نے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے غیر معمولی کوششیں کی ہیں ، ورلڈ بینک جلد ہی اس اہم منصوبے کیلئے تقریبا ستر کروڑ ڈالر کے فنڈ منظور کریگا اس منصوبے کی تکمیل سے 4500 میگا واٹ سستی بجلی حاصل ہوگی ہم اس منصوبے کو کم سے کم مدت میں مکمل کرنے کیلئے ضروری رقوم کا بندوبست کرنے کیلئے انوشیٹو طریقے اختیار کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ پانی، کوئلے ، ہوا اور ایٹمی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی وجہ سے پاکستان میں انرجی مکس بہتر ہوگا جس سے عوام کو سستی بجلی میسر آئیگی، اسی طرح ترسیل وتقسیم کے نظام کی بہتری سے بجلی کا زیاں کم ہوگا جبکہ بجلی چوری کیخلاف چلائی جانیوالی مہم کی بناء پر بھی عام آدمی کا بوجھ کم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس خطے میں ایک مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب کی طرف تین خطوں اور دنیا کی چند تیزی سے بڑھنے والی معیشتوں کو آپس میں ملاتا ہے تاہم اس قدرتی برتری سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیں ریل، شاہراؤں اور پائپ لائنوں کا جدید ترین انفراسٹرکچر تعمیر کرنا ہوگا، ، انہوں نے کہا کہ دور اندیشی اور مستقبل شناسی قومی رہنماؤں کا خاص وصف ہوتا ہے ، وزیراعظم محمد نواز شریف نے 1990ء میں دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ ملک کے دور دراز مقامات کو آپس میں ملانے کیلئے موٹرویز کا وسیع نیٹ ورک قائم کئے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا اس لئے انہوں نے جدید مواصلاتی نظام کا تصور پیش کیا جس پر پچھلی حکومتوں کی غفلت کی بناء پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکا لیکن ہم نے اس تصور پر دوبارہ سے کام شروع کردیا ہے اور ہم اگلے چار سال میں شمال سے جنوب کی اکثر شاہراؤں کو مکمل کر لینگے، جدید مواصلاتی نظام کے تصور کو مزید وسعت دیتے ہوئے وزیراعظم نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ مل کر پاک چین اقتصادی راہداری کا تصور تیار کیا ہے جس کے تحت کاشغر اور گوادر کو موٹرویز اور ریلوے کے ذریعے آپس میں ملایا جائیگا، اس تاریخ ساز منصوبے سے شروع ہونیوالی بے تحاشا معاشی ترقی کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، منصوبے کے مختلف حصوں پر اس برس سے کام کا آغاز ہو چکا ہے ، انہوں نے کہا کہ نارتھ ساؤتھ کوریڈور کے منصوبے کا اہم ترین جزو 1186 کلو میٹر لمبی کراچی، لاہور، موٹروے ہے جو سندھ کو تیز رفتارسڑکوں کے ذریعے ملک کے دیگر حصوں سے ملائیگی اس منصوبے کیلئے زمین حاصل کرنے کی خاطر رواں مالی سال میں پچیس ارب اور آئندہ مالی سال میں تیس ارب روپے رکھے گئے ہیں جس کے ذریعے منصوبے کیلئے مطلوب تمام زمین خریدی جاسکے گی 276 کلو میٹر لاہور سے خانیوال سیکشن، 387 کلو میٹر ملتان سے سکھر سیکشن، 296 کلو میٹر سکھر سے حیدر آباد سکیشن اور 136 کلو میٹر حیدر آباد سے کراچی سیکشن کی تعمیر کا کام عنقریب شروع ہو جائیگا اور اس پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے عملدرآمد کیا جائیگا، انشاء اللہ ہماری حکومت کے موجودہ دور میں یہ منصوبہ مکمل ہو جائیگا، دوسری طرف 892 کلو میٹر گوادر رتو ڈیرو موٹروے کے باقی حصوں پر کام کی رفتار کو تیز کر دیا گیا ہے اور دو سو کلو میٹر گوادر تربت ہوشاب سیکشن کی تمام مالی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اس کام کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جارہا ہے اسی طرح راہداری کے شمالی حصے کی تکمیل کیلئے 460 کلو میٹر طویل رائے کوٹ حویلیاں اسلام آباد سیکشن پر بھی جلد کام شروع ہو رہاہے اور قراقرم ہائی وے کے خنجراب رائے کوٹ سیکشن کی توسیع کیلئے بھی وسائل مختص کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی پروگرام میں اس کے علاوہ بھی بہت سی شاہراؤں کے منصوبے شامل ہیں ان میں ایم فور کے فیصل آباد سے خانیوال تک 184 کلو میٹر سیکشن اور 57 کلو میٹر خانیوال سے ملتان سیکشن شامل ہیں، علاوہ ازیں دور دراز کے علاقوں تک رسائی کو بہتر بنانے کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل بہت سے پلوں اور سرنگوں کیلئے بھی وسائل رکھے گئے ہیں ان میں لواری ٹنل کی تیزی سے تکمیل ، وادی لیپا ٹنل، سلطان باہو کے نزدیک دریائے چناب پر پل، ، پاک پتن کے نزدیک بابا فرید پل ، ننکانہ صاحب کے نزدیک دریائے راوی پر سید والا پل اور دریائے سندھ پر این 5 اور این 55 کو ملانے کیلئے ایک پل شامل ہے، انہوں نے کہا کہ شہر میں ٹریفک کے دباؤ کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے بائی پاس بنانے کے مختلف منصوبوں کیلئے بھی وسائل مختص کئے گئے ہیں ان میں پشاور نادرن بائی پاس ، کراچی نادرن بائی پاس ، لیاری ایکسپریس وے ، سکھر بائی پاس کا ڈیولائزیشن اور لاہور ایسٹرن بائی پاس شامل ہیں اس کے علاوہ ترسیل کو بہتر کرنے کیلئے رتو ڈیرو ، دادو سہون روڈ اور دیگر سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں، انہوں نے کہا کہ حکومت موٹرویز، شاہراؤں، پلوں، سرنگوں اور علاقائی سڑکوں کے 74 منصوبوں پر سرمایہ کاری کررہی ہے ، شاہراؤں کے شعبے کیلئے اس بجٹ میں 113 ارب روپے رکھے گئے ہیں ان منصوبوں پر عمل پیرا ہونے سے روزگار کے لاتعداد مواقع پیدا ہونگے، انہوں نے کہا کہ ریلوے سفر کا ایک باکفایت ، تیز رفتار اور آرام دہ ذریعہ ہے باوجود اس کے کہ ہمیں پاکستان میں پھیلا ہوا ریلوے کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ورثے میں ملا ہم نے بد انتظامیوں کی بدولت اس کا وہ حشر کیا کہ اب کوئی بھی اس کو پہلی ترجیح نہیں دیتاجب پچھلے سال مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو ریلوے کا شعبہ تباہی کے نزدیک تھا ، ریلوے کی یہ حالت ہمارے لئے بالکل ناقابل قبول تھی کیونکہ پوری دنیا میں یہ شعبہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کررہا ہے اس میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور مسافروں اور اشیاء کی نقل وحمل کیلئے تیز سے تیز تر ٹرینیں چلائی جارہی ہیں۔

بجٹ2014-15ء میں خانیوال سے لالہ موسیٰ تک ریلوے ٹریک کوڈوالائز کرنے کیلئے فنڈز رکھے گئے ہیں اس میں نرتھ ساؤتھ مین لائنز کابڑاحصہ شامل ہوجائے گا آنیوالے سالوں میں باقی پٹریوں کو بھی ڈوالائز کردیاجائیگا اسی طرح کراچی سے خانپور اورخانپور سے لودھراں ٹریک کی بحالی کیلئے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں ریلوے کے159 ک�

متعلقہ عنوان :