سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے دور میں غیر قانونی ترقیاتی سکیموں کے مقدمے میں آڈٹ کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل کمرشل آڈٹ کی رپورٹ مسترد کردی،تحریری جواب طلب کر لیا،عدالت کا آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کی جانب سے آڈٹ رپورٹ پیش نہ کرنے اور ذاتی طور پر پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار ، ‘ عدالت کی سکیموں کو مکمل کرنے والے کنٹریکٹرز کو 2012ء سے اب تک رقوم کی عدم ادائیگی پر اٹارنی جنرل کو وزارت خزانہ سے اس حوالے سے ہدایات حاصل کرکے 13 جون تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت،آڈیٹر جنرل پاکستان نے رپورٹ پیش کرنا تھی‘ قانون کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے،چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی

منگل 3 جون 2014 07:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3جون۔2014ء) سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے دور میں غیر قانونی ترقیاتی سکیموں کے مقدمے میں آڈٹ کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل کمرشل آڈٹ روبینہ فیصل کی رپورٹ مسترد کردی اور ان سے تحریری جواب طلب کرلیا جبکہ عدالت نے آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کی جانب سے آڈٹ رپورٹ پیش نہ کرنے اور ذاتی طور پر پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ نندی پور پاور پراجیکٹ کا افتتاح تو دو روز قبل کردیا گیا تھا اب آڈیٹر جنرل لاہور میں کیا کررہے ہیں‘ عدالت نے سکیموں کو مکمل کرنے والے کنٹریکٹرز کو 2012ء سے اب تک رقوم کی عدم ادائیگی پر اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ وزارت خزانہ سے اس حوالے سے ہدایات حاصل کرکے 13 جون تک عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آڈیٹر جنرل پاکستان نے رپورٹ پیش کرنا تھی‘ قانون کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دئیے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران ڈائریکٹر جنرل کمرشل آڈٹ روبینہ فیصل نے عدالت کو بتایا کہ 54 سکیموں میں سے 51 سکیموں میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی ہے جبکہ صرف تین سکیمیں قانون کے مطابق تھیں ان کا آڈٹ جاری ہے اس پر عدالت نے ان سے کہا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کہاں ہیں اور ان کی رپورٹ کہاں ہے؟ اس پر روبینہ فیصل نے عدالت کو بتایا کہ آڈیٹر جنرل نندی پور پاور پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب کی وجہ سے لاہور میں ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ افتتاح تو دو روز قبل تھا آپ انہیں بتائیں کہ عدالت نے اظہار ناپسندیدگی کیا ہے آپ اور آڈیٹر جنرل نے جو کچھ کہنا ہے وہ تحریری شکل میں پیش کریں۔

اس دوران کنٹریکٹرز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ترقیاتی سکیموں کیلئے 2012ء میں فنڈز رکھے گئے تھے جو 2013ء میں بھی عدالتی احکامات کی وجہ سے استعمال نہیں کئے جاسکے اور کنٹریکٹرز اور مزدور طبقہ اس وجہ سے پریشانی کا شکار ہے اس حوالے سے اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کو خط بھی لکھا گیا ہے اس پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اب تک حکومت نے اس حوالے سے کوئی حکم جاری کیا ہے یا نہیں۔ بعدازاں عدالت نے مزید سماعت 13 جون تک ملتوی کردی۔