آئندہ مالی سال کے بجٹ میں لاکھوں پرچون فروش تاجروں کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن کیلئے نیا نظام متعارف کرانے کا فیصلہ ،ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئروں، ڈینٹسٹ، انٹیریر ڈیکورٹیز اورآرکٹیکٹس سمیت دیگر سروسز فراہم کرنے والوں پر10فیصد قابل ایڈجسٹ ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز،بجٹ میں کلب ، بزنس کلاس کے ذریعے بیرون ملک سفر کرنے والے مسافروں پر عائد قابل ایڈجسٹ ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر10 فیصدکرنے کا فیصلہ،غیر قانونی درآمد اور اسمگلنگ روکنے کے لئے سونے کی درآمد پر عائد پانچ فیصد ٹیکس صفر اعشاریہ صفر پانچ فیصد کی شرح تک لانے کی تجویز

پیر 2 جون 2014 07:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2جون۔2014ء)آئندہ مالی سال2014-15کیلئے بجٹ میں لاکھوں پرچون فروش تاجروں کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن کیلئے نیا نظام متعارف کرانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے،بجٹ میں کلب اور بزنس کلاس کے ذریعے بیرون ملک سفر کرنے والے مسافروں پر عائد قابل ایڈجسٹ ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر10 فیصد، چارٹرڈ فلائٹس کے ذریعے سفر کرنے والوں کیلئے ایئرٹکٹ پر10 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کے علاوہ ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئروں، ڈینٹسٹ، انٹیریر ڈیکورٹیز اورآرکٹیکٹس سمیت دیگر سروسز فراہم کرنے والوں پر بھی10فیصد قابل ایڈجسٹ ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اگر بجٹ میں فیڈرل ایکسائزڈیوٹی کی معیاری شرح16سے بڑھا کر17فیصد کی جاتی ہے تو چارٹرڈ فلائٹس کے ذریعے سفر پر بھی17فیصد کے حساب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائیگی۔

(جاری ہے)

بجٹ میں پنشن کیلیے 163ارب روپے جبکہ تنخواہوں کیلیے 294 ارب جبکہ دفاعی بجٹ کی مد میں690ارب مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ سبسڈی کا حجم ساڑھے3کھرب جبکہ مالیاتی خسارہ15 کھرب 50ارب روپے ہونے کا امکان ہے۔

پی ایس ڈی پی کے تحت ترقیاتی کاموں کیلیے525 ارب مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ پولٹری فیڈ پربھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے وفاقی بجٹ میں 250 ارب روپے کے ریونیو اور ایڈمنسٹریٹو اقدامات کی منظوری کے ساتھ3.7 سے 3.8 ٹریلین روپے حجم کے وفاقی بجٹ کے مسودے کی منظوری دیدی ہے۔تاہم وفاق اور صوبوں کے مشترکہ و مجموعی کانسالیٹیڈ حجم4ٹریلین روپے سے زائد ہونے کی توقع ہے۔

یہ منظوری وزیراعظم نے اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ کے اہداف کے تعین کے بارے میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دی۔ اجلاس میں آئندہ مالی سال کیلئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2810 ارب روپے مقررکرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ دو سے ڈھائی سو ارب روپے مالیت کے اضافی ریونیو اور ایڈمنسٹریٹو اقدامات میں سے70 سے 80 ارب روپے کا اضافی ریونیو ٹیکسوں میں دی جانیوالی چھوٹ اور رعایات کے ایس آراوز واپس لینے سے حاصل ہونگے جبکہ باقی170 ارب کا اضافی ریونیو نئے ٹیکس لگا کر اور نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے ساتھ انتظامی اور انفورسمنٹ اقدامات کے تحت اکٹھے کیے جائیں گے۔

اس بارے میں وزارت خزانہ کے سنیئر افسر نے بتایاکہ نواز شریف نے آئندہ مالی سال 2014-15 کیلیے2810 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کے ہدف پر مشتمل بجٹ کے مسودے کی منظوری دیدی ہے جس میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کا حجم 3.8 ٹریلین کے لگ بھگ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی بجٹ کے ابتدائی خدوخال کے مطابق پنشن اور تنخواہوں میں5 سے10فیصد اضافے کے ساتھ ملازمین کے ہاوس رینٹ، ہائرنگ اور دیگر الاونسز میں اضافے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

البتہ اس بارے میں حتمی فیصلہ بجٹ کے روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہوگا۔ذرائع نے یہ بھی بتایاکہ حکومت نے سابق دور حکومت میں گریڈ 20 تا 22 کی طاقتور بیوروکریسی کو لازمی ٹرانسپورٹ مونیٹائزیشن پالیسی کے تحت ملنے والے الاونس کیلیے انکم ٹیکس میں دی جانیوالی رعایت واپس لینے کی بھی تجویزدی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈزکی روک تھام کیلیے فیڈرل بورڈ ااف ریونیو نے فیصلہ کیا ہے کہ ترمیم شدہ رولز متعارف کرائے جائیں گے جن میں مینوفیچرنگ یونٹس کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن کیلیے مینوفیکچرنگ یونٹ کی فزیکل تصدیق کو بھی لازمی قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ آئندہ وفاقی بجٹ میں ٹیکسٹائل، لیدر، گارمنٹس اور سرجیکل سمیت پانچ زیرو ریٹڈ شعبوں کیلیے سیلز ٹیکس کی موجودہ رجیم پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ علاوہ ازیں انجینئرنگ، پروکیورمنٹ اور کنسٹرکشن کمپنیوں کیلیے سیلزٹیکس رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔سونے کی غیر قانونی درآمد اور اسمگلنگ روکنے کے لئے یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال 2014 -15کے بجٹ میں سونے کی درآمد پر عائد پانچ فیصد ٹیکس میں کمی کرکے صفر اعشاریہ صفر پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے ۔

ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انکم ٹیکس آرڈیننس2001کے سیکشن 148کے تحت سونے کی درآمدی مقدار پر صفر اعشاریہ صفر پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے بشرطیکہ کہ یہ سونا پاکستان مرکینٹائل ایکسچینج لمیٹڈ (پی ایم ای ایکس )میں فروخت کے مقاصد کیلئے درآمد کیا جائے ۔

ذرائع کے مطابق سونے کی کمرشل درآمد پر ابتداء میں دو روپے فی تولہ کے حساب سے ٹیکس اکٹھا کیا جاتا تھا جو بعد میں مالی سال 2006-07کے دوران ایک فیصد تک بڑھا دیا گیا تھا اورانکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے سکینڈ شیڈول کے (13G)آف پارٹ ٹو کے تحت فروری 2013تک ایک فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد رہا جبکہ 13Gکے ختم ہونے کے بعد انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے سیکشن 148کے تحت سونے کی درآمد پر پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا ۔

ذرائع کے مطابق سونے کی درآمد پر جب ایک فیصد کی شرح سے ٹیکس لاگو تھا تو اس مد میں محصولات میں نمایاں طور پر کمی ہوئی جبکہ پانچ فیصد کے نفاذ سے صورت حال مزید گھمبیر ہوئی ،اس لئے نئے مالی سال کے بجٹ میں درآمدی سٹیج پر سونے کی مقدار پر صفر اعشاریہ صفر پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے ۔ذرائع کے مطابق سونے کی ان ڈاکومینٹڈ درآمد کیو جہ سے جہاں حکومت کو ایک طرف ٹیکسز کی مد میں نقصان اٹھانا پڑا رہا ہے تو وہیں دوسری طرف پی ایم ای ایکس کے تاجر وں کو مکمل ٹیکس کے ادائیگی کیو جہ سے نقصانات کا سامنا ہے جبکہ صفر اعشاریہ صفر پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس کا نفاذ سونے کی قانونی درآمد کو یقینی بنانے اور سونے کی تجارت کو دستاویز شکل دینے میں مدددیگا ۔

اسی طرح پی ایم ای ایکس کے ذریعے سونے کی درآمد ڈاکومینٹڈ ہونے سے حکومتی محصولات میں اضافہ ہوگا اور مذکورہ سہولت کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے ایک میکانزم ترتیب دیا جاسکتا ہے اور سکینڈ شیڈول کے پارٹ ٹو میں ایک نئی شق شامل کی جاسکتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :