یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف اور امین فہیم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں، آصف زرداری، ملک انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے،آصف زرداری ، ہم نے جمہوریت کے تسلسل اور میثاق جمہوریت کے معاہدے کی پاسداری کی خاطر انتخابی نتائج قبول کئے ، ایسی کسی سوچ کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے جمہوریت پٹڑی سے اترے یاملک کو دہشتگروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے، باخبر ہوں اور ان سیاسی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سیاسی تدابیر بناتا ہوں، کارکن اپنی سیاست کرے باقی فیصلے لیڈرشپ کرے گی، محترمہ بی بی بے نظیر بھٹو کی سوچ آخری دم تک جاری رہے گی، نوشہرہ میں انٹر پارٹی انتخابات کیلئے منعقدہ ورکرز کنونشن سے ٹیلی فونک خطاب

اتوار 1 جون 2014 07:20

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1جون۔2014ء)سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی،راجہ پرویز اشرف اور امین فہیم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں،سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر حکومت جمہوریت کو نقصان پہنچا رہی ہے،حکومت پالیسیوں پرت نظرثانی کرے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پی پی پی رہنماؤں پر کیسز بنانے پر سابق صدر نے اظہارناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ تینوں رہنماؤں کو احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے،اس اقدام پر برداشت،رواداری اور مفاہمت کی سیاست کو زک پہنچے گی،حکومت مخالفین کو ہراساں کرکے جمہوری قوتوں کے اتحاد کو نقصان پہنچا رہی ہے،انہوں نے کہا کہ سیاسی لیڈروں کو نشانہ بنانا خطرناک عادت ہے،جس کے نتائج دورس ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ حیران کن بات ہے کہ صرف عوامی نمائندوں کے خلاف ریفرنسز بنائے جارہے ہیں،پاور پراجیکٹس کے کسی اسپانسر پر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا،بغیر کسی ثبوت اختیارات کا ناجائز استعمال مخالفین کو بدنام کرنا ہے،یہ نہ احتساب ہے اور نہ ہی گڈ گورننس۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ محترمہ شہید کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا،حکومت جمہوری قوتوں کو نقصان پہنچانے سے باز رہے اور پالیسی پر نظرثانی کرے۔

ادھر پاکستان پیپلزپارٹی کے کو چےئرمین وسابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے ہم نے جمہوریت کے تسلسل اور محترمہ بے نظیر کی میثاق جمہوریت کے معاہدے کی پاسداری کی خاطر یہ جان کر انتخابات شفاف نہیں ہوئے یہ انتخابی نتائج قبول کئے تاکہ ملک میں جمہوری عمل جاری رہے اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں ہم ایسی کسی سوچ کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے جمہوریت پٹڑی سے اترے یاملک کو دہشتگروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے، اب محترمہ بے نظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں کہ وہ پھر آکر مزاکرات کے ذریعے کسی آمر سے وردی اتارے دنیا اور پاکستان کے سیاسی حالات کس ڈگر پر جارہے ہیں میں اس سے باخبر ہوں اور ان سیاسی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اپنی سیاسی تدابیر بناتا ہوں کارکن اپنی سیاست کرے باقی فیصلے لیڈرشپ کرے گی محترمہ بی بی بے نظیر بھٹو کو جس سوچ نے شہید کیا ہماری اس سوچ کے ساتھ طویل جنگ جاری ہے اور آخری دم تک جاری رہے گی ایوان صدر میں رہنے کے باعث خیبرپختونخواہ اور باقی صوبوں کے کارکنوں سے میرا رابطہ کٹ چکا تھا جس کی اپنی وجوہات ہیں لیکن میں خیبرپختونخواہ اور فاٹا کے حالات سے بے فکر نہیں ہوں میری تمام صورتحال پر نظریں ہیں ان خیالات انہوں نے خٹک باغ نوشہرہ میں انجینئر طارق خٹک کی رہائش گاہ پر انٹر پارٹی انتخابات کیلئے منعقدہ ورکرز کنونشن سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کیا جس کی صدارت سابق وفاقی وزیر میاں مظفر شاہ نے کی جبکہ ورکرز کنونشن سابق گورنر خیبرپختونخواہ بیرسٹر مسعود کوثر ، سابق سپیکر صوبائی اسمبلی عبدالاکبر خان، سابق وفاقی وزیر میاں مظفر شاہ ایڈوکیٹ، یاور نصیر، طاہر عباس، سابق وفاقی وزیر لعل محمد خان، انجینئر طارق خٹک ، سابق ایم این اے نورعالم خان، سوات کے ضلعی صدر شمشیر علی خان، اعظم آفریدی، ذوالفقار افغانی ، ملاکنڈ کے قاسم قصاب، ایوب شاہ، بہرمند تنگی، میر حیدر خان لالا سمیت کئی صوبائی ومرکزی رہنما اور سابق ضلعی صدور نے خطاب کیا آصف علی زرداری نے ٹیلی فونک خطاب میں کہا میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے حالات کیا ہیں اور دنیاکس طرف جارہی ہے میں سوچ سمجھ کر سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے تدبیر بناتا ہوں اور اسی پر ہم چلتے ہیں ماضی میں کچھ دوستوں نے مجھ سے ناراضگی بھی کی کہ میں نے خیبرپختونخواہ کی وزارت اعلیٰ کی سیٹ نہیں لی لیکن ہم نے پختونوں کو شناخت دی پختونخوں کو اپنے وسائل کا اختیار دیا ہم نے اس سوچ کے خلاف طویل جنگ کااعلان کیا جس سوچ نے ہماری بے نظیر بھٹو کو شہید کیا اب بھی وہ جنگ جاری ہے انہوں نے کہا کہ سیاسی حکمت کے طورپر ہم بہت دور کا سوچتے ہیں اور ہم بہت دور تک سمجھ سکتے ہیں سیاست میں میرے استاد شہید ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں ان کی سوچ کو ملا کر میں چلتا ہوں اگر دوستوں کا یہ خیال ہے کہ مجھے پختونخواہ کا خیال نہیں یا فاٹا کی سوچ نہیں ہے یا پیپلزپارٹی کو یہاں سیاست نہیں کرنی ہے تو یہ غلط ہے انہوں نے کہا کہ ہماری سیاست یہ ہے کہ ہم سروں کی قربانی اور خون دیکر سیاست کرتے ہیں آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم ڈرائینگ روم کی سیاست نہیں کرتے پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ آخر دم تک اصولوں کا ساتھ دیا ہے آج بھی پیپلزپارٹی اپنے اصولوں کے ساتھ کھڑی ہیں ہم نے اس جمہوریت کو اس لئے قبول کیا یہ جانتے ہوئے کہ یہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے یہ نتائج قبول کئے تاکہ جمہوریت کا تسلسل جاری رہے کیونکہ اس جمہوریت کیلئے شہید ذولفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جانوں کے نذرانے پیش کئے انہوں نے کہا کہ ہم میثاق جمہوریت انہوں نے کہا کہ آج بھی یہ مانتا ہوں اور کہتا ہوں ہم سب مل جائے پختونخواہ میں پیپلزپارٹی کے چھوٹے چھوٹے گروپ آپس میں لڑنا چھوڑ دے پیپلزپارٹی کاورکر آپ کاانتظار کررہا ہے وہ میرا انتظار کررہا ہے وہ بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو کا انتظار کررہا ہے ورکرز ہمارے ساتھ ملنے ،بیٹھنے کیلئے بیتاب ہیں ہم نے کافی منٹنگیں کی جب میں اسلام آباد میں تھا اور ایوان صدر میں تھا میں آپ کے پاس کم آسکاہوں پختونخواہ میں دوسرے صوبوں میں بھی کم جاسکا ہوں اس کی اپنی وجوہات ہیں میں دور کی سوچ رکھتا ہوں اور آنے والے انتخابات کیلئے سوچ رہا ہوں یہ ضروری نہیں کہ سیاسی پارٹی ہمیشہ حکومت میں ہو سیاسی پارٹی کو ہمیشہ سیاست کرتے رہنا ضروری ہے میری کارکنوں سے یہ درخواست ہے یہی سوچ ہے آپ سیاست کی بات کرے باقی آپ ہم پے چھوڑ دے وہ لیڈرشپ کا کام ہے ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کس طرح پارٹی کو بچانا ہے کس طرح پارٹی کو چلانا ہے جو میرے پرانے دوست یہاں بیٹھے ہیں ان سے پوچھ لے محترمہ جب جیل میں تھی یا ملک سے باہر تھی تو اس وقت ہمارے جلسوں میں کوئی نہیں آتاتھا ہمارے گھر کوئی نہیں آتاتھا یہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کرکے واپس آئی اس کے بعد پیپلزپارٹی کی سیاست کا زور چلا ہے یہ انہوں نے مزاکرات کرکے شہید محترمہ بے نظیربھٹی ایک آمر کی وردی اتاری ہے میں نہیں چاہتا کہ آج کی جمہوریت کو بھی کمزور کردوں کل کے آمر کیلئے کوئی بے نظیر نہیں کہ اس کی وردی اتار سکے تودوستوں ہوش کے ناخن لیجئے کچھ سمجھے اورسوچیں دیکھیں اور پاکستان کا سوچیں اپنے پختونخواہ کا سوچیں اگرہم نے ایسا نہیں کیا اگر ہم ساتھ نہیں کھڑے رہے تو کل جس طرح طالبان سوات پر قبضہ کرگئے پہلے بیٹے مانگے اور پھر بیٹیاں مانگی شروع کردی انہوں نے کہا کہ کل کو وہ ہمارے ساتھ بھی ایسا کریں اور آپ کے ساتھ بھی کریں گے اور ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان اس حد تک پہنچے کہ ہم اسے دہشتگروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دے وہ ہمارے حکمران بن جائے اور ملک کا نظام چلائے ان لوگوں کو آگے نہیں لاسکتے کنونشن سے کارکنوں نے خطاب کرتے ہوئے انٹر پارٹی انتخابات کا خیر مقدم کیا تاہم انہوں نے مرکزی اور صوبائی قیادت سے یہ مطالبہ کیا کہ پارٹی میں انتخابات وارڈ سے لیکر صوبائی کابینہ تک کئے جائے کیونکہ صوبہ خیبرپختونخواہ سمیت ملک میں پیپلزپارٹی کو شدید دھچکا لگاہے کہ پارٹی قیادت نے کارکنوں کی عزت نفس کا کوئی خیال نہیں رکھا اور وفاقی وصوبائی وزراء نے پارٹی سیاست چھوڑ کر پارلیمانی سیاست شروع کی کرپشن اور کمیشن کے ریکارڈ توڑے اس لئے عام انتخابات میں پارٹی کو اتنا نقصان پہنچا کہ پارٹی آخری نمبر پر چلی گئی انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد پیپلزپارٹی کو بنیادی پروگرام کی طرف لانا ہے یہ کنونشن کسی کے خلاف نہیں ہم شہید ذوالفقار علی اور شہید بے نظیر کی پارٹی کوزندہ دیکھنا چاہتے ہیں اور پارٹی کے دستور کو زندہ کرنا ہے اور پیپلزپارٹی کو پارلیمانی پارٹی بننے کی بجائے عوامی پارٹی بنانا ہے اور شہداء کے مشن کو آگے بڑھانا اور پارٹی کے لاکھوں کارکنوں، غریبوں ،کسانوں ، مزدوروں اورطالب علموں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہے انہوں نے کہاکہ ہمارا مقصد پارٹی کارکنوں کی عزت نفس کی بحالی اور پارٹی کو کرپٹ مفاد پرستوں، فصلی بٹیروں اور پیپلزپارٹی کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے والے عناصر سے پاک کرنا ہے۔

سابق گورنر خیبرپختونخواہ بیرسٹر مسعود کوثر نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اس ملک کی ایک مضبوط اور فعال اور بڑی پارٹی ہے کئی انتخابات ہم جیتے ہیں اور کئی ہارے ہیں پچھلے انتخابات جو صورتحال بنی اس پر غوروعوض کرنے کیلئے ہمارے تمام ساتھیوں نے یہ اجلاس طلب کیا ہے تاکہ ہم اکھٹے ہوکر ان وجوہات کو معلوم کرسکے جس کی وجہ سے پارٹی کو شکست ہوئی ہم اپنی کمزوریوں پر نظر دوڑائیں کہ یہ تنظیمی،نظریاتی یا لیڈر شپ کی کمزوری ہے اس پر بحث کرے تاکہ پارٹی کو عہد تک پہنچایا جائے جو ذوالفقار علی بھٹو کی دور میں تھی اور ایک بار پھر ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی بنائے اقتدار میں جو لوگ رہے ہیں ان کی کمروزیوں کا جائزہ لے میں خود بھی اقتدار میں رہاہوں کارکنوں کے اعتراضات سنے کہ ان کے ہمارے سے کیا گلے شکوے ہیں پارٹی میں کوئی گروپ بندی نہیں پیپلزپارٹی صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے پارٹی کی ناکامی کی وجوہات ہماری اپنی کوتاہیاں اور کمزوریاں ہیں ہم اپنے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ ہم ایسے حالات سے بچے رہیں صوبائی صدر اور سابق وزراء سب کو دعوت دی گئی تھی ان کو آنا چاہیے تھا اور ادھر کارکنوں کے اعتراضات کے جوابات دئیے جانے چاہیے تھے کیونکہ پارٹی کے کو چےئرمین آصف علی کاخطاب کیا اس لئے میں نے بھی بحیثیت پارٹی ورکر شرکت کی اس موقع پر سابق سپیکر عبدالاکبر خان نے کنونشن سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم کنونشن میں اپنی غلطیوں کے ازالے کا سوچ رہے ہیں تحریک انصاف پنجاب میں دھاندلی کا واویلہ کررہے ہیں خیبرپختونخواہ میں دھاندلی نہیں ہوئی یہاں پر ناکام حکومت ہے عمران خان اور پرویز خٹک کو اتنا معلوم نہیں کہ صوبے کا 14فیصد 84ارب روپے وصول کرسکے حالت یہ ہے کہ چائنا کی طرف سے 32ارب ڈالر کی امداد ملی خیبرپختونخواہ کو ایک ڈالر نہیں دیا جارہا یہاں کی حکومت اپنی حق کیلئے آواز کیوں نہیں اٹھا رہی اگر یہ حکومت اسمبلی میں آواز نہیں اٹھائیں گے تو ہم عدالت سے رجوع کرکے صوبے کے حقوق کیلئے رٹ پیٹیشن دائرکریں گے۔