اعتزاز احسن نے سینٹ میں ا پوزیشن اتحادی جماعتوں کو 2جون کو ناشتے پر بلا لیا ، صدارتی خطاب کے حوالے سے حکمت عملی طے کی جائے گی ، صدر کے خطاب کے دوران وزیراعظم کے سینٹ میں نہ آنے پر احتجاجاً واک آؤٹ پر غور کیا جائے گا ،پیپلز پارٹی اور اے این پی کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطہ ،صدارت خطاب پر پرامن احتجاج پر زور دیا گیا ،پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم کے سینٹ کے ساتھ ناروا رویئے بارے بتایا جائے گا ، ذرائع

ہفتہ 31 مئی 2014 07:31

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31مئی۔ 2014ء)سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے اپوزیشن میں اتحادی جماعتوں اے این پی ، مسلم لیگ (ق) اور پی ایم پی عوامی کو صدارتی خطاب کے حوالے سے حکمت عملی طے کرنے کیلئے 2جون کو ناشتے پر بلا لیا ۔ اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ اپوزیشن صدارتی خطاب کیلئے بلائے گئے مشترکہ اجلاس میں صدر کے خطاب کیلئے ڈائس پر آمد پر وزیراعظم کے سینٹ میں نہ آنے پر احتجاجاً واک آؤٹ کرنے پر غور کیاجائے گا ۔

اگر پیپلز پارٹی نے صدارتی خطاب کے حوالے سے سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے حوالے سے حکمت عملی پر اتفاق نہ کیا تو باقی جماعتیں پیپلز پارٹی کے بغیر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائینگی ۔ باوثوق ذرائع نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے صدارتی خطاب پر احتجاج کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس حوالے سے لابنگ کی جارہی ہے پیپلز پارٹی کے ساتھ اے این پی کا اعلیٰ سطح پر رابطہ ہوا ہے اور صدارتی خطاب کے دوران پیپلز پارٹی کو بھی پرامن احتجاج کرنے کیلئے زور دیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ مشترکہ اجلاس میں شرکت کی جائے گی تاہم جب صدر خطاب کیلئے ڈائس پر آئینگے اور تو اجلاس سے واک آؤٹ کردیا جائے گا اور پھر پریس کانفرنس کے ذریعے بتایا جائے گا کہ یہ واک آؤٹ صدر کیخلاف نہیں بلکہ وزیراعظم کے غیر جمہوری رویئے کیخلاف ہے وزیراعظم سینٹ کو اہمیت نہیں دیتے اور پورے ایک سال گزرنے کے باوجود ایک سال میں بھی سینٹ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جو آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے ذرائع کے مطابق سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے صدارتی خطاب کے حوالے سے حکمت عملی طے کرنے کیلئے اتحادی جماعتوں کو پیر کی صبح ناشتے پر بلالیا ہے ۔

اجلاس میں غور کیاجائے گا کہ صدارتی خطاب کے دوران بائیکاٹ کیاجائے یا واک آؤٹ کیاجائے ۔ ذرائع نے بتایا اگر پیپلز پارٹی نے صدارتی خطاب کے دوران احتجاج پر رضا مند نہ ہوئی تو اے این پی ، ایم کیو ایم بی این پی عوامی اور مسلم لیگ (ق) پرامن طور پر احتجاج ضرور ریکارڈ کروائینگی ۔