چیف جسٹس جسٹس تصدق حسین جیلانی کا لاہور میں خاتون کے بہیمانہ قتل کے واقعہ کا نوٹس ، آئی جی پنجاب سے 48گھنٹوں کے اندر رپورٹ طلب کرلی،وزیراعلیٰ کے سخت نوٹس پر پولیس نے چوبیس گھنٹے میں خاتون کے قتل میں ملوث اس کے والد ، ماموں ، دو کزن سمیت ایک ڈرائیور کو گرفتار کرلیا ،واقعہ کی عبوری رپورٹ عدالت عالیہ کو وصول

ہفتہ 31 مئی 2014 07:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31مئی۔ 2014ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے لاہور میں خاتون کے بہیمانہ قتل کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے لاہور ہائیکورٹ کے باہر پسند کی شادی کرنے والی خاتون کو اس کے اہل خانہ کی جانب سے اینٹیں مار کر قتل کرنے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کو جلد گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لانے کا حکم دیا ہے اس کے علاوہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کی خاموشی پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ وہ 48 گھنٹوں کے اندر واقعہ کی رپورٹ پیش کریں۔ادھرڈی آئی جی انوسٹی گیشن سول لائن نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے باہر حاملہ فرزانہ کے قتل میں ملوث خاتون کے والد ، ماموں ، دو کزن سمیت ڈرائیور کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے جنہیں عدالت میں آج پیش کیاجائے گا ۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے لاہور ہائی کورٹ کے باہر خاتون کے قتل کے واقع کا نوٹس لینے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے محکمہ پولیس میں ملزموں کی گرفتاریوں کیلئے کہرام مچا دیا اور جمعہ کے روز پولیس کے اعلیٰ افسران کو ہدایت کی کہ وہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں ملزمان کو گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لائیں کیونکہ پولیس کی موجودگی میں لاہور ہائی کورٹ کے اندر حاملہ خاتون کا قتل انسانیت سوز اور ناقابل معافی جرم ہے جس کے بعد پولیس نے تندوتیز سے کام لیتے ہوئے فرزانہ نامی خاتون کے ماموں عطاء اللہ ، دو چچا زاد بھائیوں سمیت ڈرائیور کوبھی گرفتار کرلیا جبکہ مقتولہ کا باپ عظیم پہلے ہی پولیس کی حراست میں ہے جسے عدالت میں آج پیش کیاجائے گا ۔

ذرائع نے بتایا کہ مقتولہ فرزانہ کے قتل میں گیارہ افراد کیخلاف مقدمہ درج کرایا گیا ہے ۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں لاہور میں قتل ہونے والی فرزانہ قتل کے کیس سے متعلق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی، جس کے بعد ملزمان کی عدم گرفتاری پر وزیراعلیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دیگر ملزموں کی گرفتاری کیلئے24گھنٹے کی ڈیڈ لائن دے دی۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ملزمان پر مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا، جب کہ کیس سے متعلق قائم کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر کیس کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے۔وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ پولیس کی موجودگی میں انسانیت سوز واقعہ افسوس ناک ہے ۔واضح رہے کہ دو روز قبل بدھ کے روز لاہور ہائی کورٹ کے باہر جڑانوالہ کی فرزانہ کو اس کے گھر والوں نے اینٹیں مار مار کر موت کی نیند سلا دیا، جڑانوالہ کی فرزانہ نے اقبال نامی شخص سے پسند کی شادی کی تھی، جس پر لڑکی کے گھر والوں نے لڑکے کے خلاف اغواء کا مقدمہ درج کرا دیا تھا۔

جس کے بعد بدھ کے روز جب وہ مقدمہ کی سماعت کے لیے لاہور ہائی کورٹ پہنچی تو وہاں منصوبے کے تحت پہلے سے موجود اس کے بھائیوں، والدہ اور والد نے گھیراوٴ کرکے اس پر اینٹوں سے حملہ کردیا۔اسپتال ذرائع کے مطابق قتل ہونے والی فرزانہ حاملہ تھی۔جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے قریب پسند کی شادی کرنے والی حاملہ خاتون کو اسکے باپ، بھائیوں نے اینٹوں کے وار کر کے موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعہ سے متعلق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور کی عبوری رپورٹ لاہور ہائی کورٹ کو موصول ہو گئی۔

رپورٹ کی روشنی میں عدالت عالیہ کے کمپلینٹ سیل نے مذکورہ سیشن جج کو ہدایت دی ہے کہ معاملہ کی انتظامی سطح پر پیروی کو یقینی بنایا جائے۔تفصیلات کے مطابق جڑانوالہ کے علاقہ سیدوالا میں رہائش پذیر محمد اقبال نے اپنے گاؤں کے رہائشی عظیم کی بیٹی فرزانہ سے محبت کی دوسری شادی کی جس کا لڑکی کے گھر والوں کو رنج تھا اور انہوں نے اقبال کے خلاف تھانہ سیدوالا میں اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا۔

لیکن فرزانہ نے پولیس کو بیان دیا کہ محمد اقبال کے ساتھ اس نے مرضی سے شادی کی ہے اور ہائیکورٹ میں درخواست دی کہ اقبال کے خلاف اغوا کا مقدمہ ختم کیا جائے۔ اسی سلسلے میں منگل کو وہ عدالت آ رہے تھے کہ ہائیکورٹ کے قریب گھات لگائے بیٹھے اسکے باپ، ماموں زاد سابقہ منگیتر اور مسلح بھائیوں نے لڑکی کو دبوچ لیا اور اس کے سر پر اینٹوں کے وار کرکے ہلاک کر دیا۔

عدالت عالیہ کے کمپلینٹ سیل نے مذکورہ افسوسناک واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور سے ایک دن میں رپورٹ طلب کی گئی تھی۔ جس پر سیشن جج نے کہاہے کہ خاتون کے قتل کا مقدمہ تھانہ مزنگ میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 149,147 اور 302 سمیت 7ATA کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔پولیس نے مقدمہ میں نامزد ملزمان میں سے ایک ملزم عظیم جو کہ متوفی لڑکی کا باپ ہے کہ گرفتار کر لیا ہے۔

مزید برآں دیگر ملزمان کی گرفتار ی کیلئے مختلف ٹیمیں روانہ کر دی گئیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سیشن جج نے متعلقہ SDPO اور SHO کو ہدایت کی ہے کہ معاملہ کی صاف و شفاف تحقیقات کو یقینی بنایا جائے اور ملزمان کے خلاف رپولیس رپورٹ مرتب کرکے 14 دن کے اندر ٹرائل کورٹ میں پیش کی جائے تاکہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے ۔