حکومت کاآئند وفاقی بجٹ میں اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں کیلئے ایمنسٹی اسکیم ختم کرنے کافیصلہ، یکم جولائی سے ذرائع آمدنی بتانے، ود ہولڈنگ اسٹیٹمنٹ وانکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کو لازمی قراردیئے جانے کا امکان

جمعہ 30 مئی 2014 05:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30مئی۔2014ء)وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں کے لیے ایمنسٹی اسکیم ختم کرنے اور یکم جولائی سے ذرائع آمدنی بتانے اور ود ہولڈنگ اسٹیٹمنٹ و انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کو لازمی قراردینے کا فیصلہ کیا ہے۔اس ضمن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے سینئر افسر نے بتایا کہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں سے انویسٹ کی جانے والی رقم کے ذرائع آمدنی نہ پوچھنے کے لیے دی جانے والی ایمنسٹی اسکیم 30جون 2014 کو ختم ہورہی ہے اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو دی جانے والی اس ایمنسٹی میں کسی قسم کی توسیع نہیں کی جائے گی اور آئندہ مالی سال میں اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کو بھی لازمی قرار دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو ودہولڈنگ اسٹیٹمنٹس اور ود ہولڈنگ ری کنسیلیشن اسٹیٹمنٹس بھی ایف بی آر کو جمع کرانا ہوں گی، اس کے علاوہ 30 جون 2014 کے بعد ٹیکس افسران اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں سے انویسٹ کی جانے والی رقم کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرسکیں گے اور پوچھ گچھ کرسکیں گے جو رقم اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کی گئی ہے وہ کہاں سے حاصل کی گئی ہے اس پر ٹیکس ادا کیاگیا ہے یا نہیں اور اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کی جانے والی جس رقم پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہوگا اس پر ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

ایف بی آر کے مذکورہ افسر نے بتایا کہ یکم جولائی 2014 سے اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والی سرمایہ کاری کو منافع حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی دوسری سرمایہ کاری کی طرح ہی لیا جائے گا۔ مذکورہ افسر نے بتایا کہ اگر اسٹاک ایکسچینج کے سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کی رقم کے ذرائع چھپا نا چاہتے ہیں تو اس کے لیے وہ وزیراعظم کے ٹیکس ریلیف پیکیج سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور جو سرمایہ کار اپنی رقم وزیراعظم ٹیکس ریلیف پیکیج کے تحت ظاہر کردیں گے ان سے اس رقم کے ذرائع کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :