ایران اسرائیل بارے مبہم کردار خلیج تعاون کونسل کو امریکہ سے دور‘ پاکستان کے قریب کرتا جارہا ہے‘ امریکی رکن کانگریس،خلیجی ممالک ایران کے دیگر ملکوں میں اثرو رسوخ‘ شیعہ ازم کے فروغ اور امریکی خاموشی پر نالاں ہیں‘ اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے دوہری امریکی پالیسی بھی خلیجی ممالک میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دے رہے ہیں‘سینیٹر الینا روز لیتھینن

جمعہ 30 مئی 2014 05:52

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30مئی۔2014ء) امریکی کانگریس نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کے ایران اور اسرائیل کے حوالے سے مبہم کردار کے باعث سعودی عرب اور اس کے علاقائی اتحادی واشنگٹن سے دور ہوکر پاکستان کے قریب ہوتے جارہے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو خطے میں امریکی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکی ایوان کی مشرق وسطیٰ اور افریقہ بارے سب کمیٹی کی خاتون چیئرمین الینا روز لیتھینن نے کمیٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے اپنے ان تحفظات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ خلیج تعاون کونسل ایران کے حوالے سے امریکی کردار پر کافی پریشان ہے اور وہ اس بات پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں کہ امریکہ کیساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ خلیج تعاون کونسل تہران کیساتھ بھی اپنے تعلقات پر نظرثانی کررہی ہے جس سے خلیجی خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

(جاری ہے)

روز لیتھینن نے خبردار کیا کہ جی سی سی کے چھ رکن ممالک امریکہ سے دوری اختیار کررہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ امریکہ نے ایران اور اسرائیل کے حوالے سے دوہری پالیسی اختیار کررکھی ہے۔

اگر امریکہ نے اپنے اس اقدام پر نظرثانی نہ کی تو نہ صرف خطے کے ان اتحادیوں سے محروم ہوسکتا ہے بلکہ علاقے میں اسلحے کی دوڑ بھی شروع ہوجائے گی۔ روز لیتھینن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے نائب ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز نے حال ہی میں امریکی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں جن میں انہوں نے ایران کے حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے حوالے سے امریکہ نے کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کررکھی یہی وجہ ہے کہ ایران عرب خطے کے دیگر ممالک لبنان‘ عراق‘ شام‘ کویت‘ بحرین اور یمن سمیت دیگر ملکوں میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کیلئے شیعہ ازم کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہے۔

مقرن نے یہ بھی واضح کیا کہ ایران جی سی سی کی حکومتوں کو عدم استحکام اور خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے شیعہ کو استعمال کررہا ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے پاسداران انقلاب کی جانب سے شیعہ انتہاء پسندوں کو تربیت فراہم کرنے کے علاوہ ان کے جاسوسی کے نیٹ ورک بھی پھیلائے گئے ہیں جنہیں حال ہی میں یمن‘ بحرین اور کویت میں بے نقاب کیا گیا اس کے علاوہ متعدد دہشت گردانہ حملوں کا تعلق بھی ایرانی دہشت گرد نیٹ ورک سے ملا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر جو معاہدہ کیا جارہا ہے یہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اس کو اس بات سے مشروط نہ کیا جائے کہ ایران دہشت گردی کا تعاون ختم کرے اور یمن سمیت مشرق وسطیٰ کے ممالک میں دخل اندازی بند کرے۔ امریکی رکن کانگریس کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات نے جی سی سی میں خدشات کو جنم دیا ہے اور وہ اب پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں کیونکہ پاکستان واحد ملک ہے جو فوجی اور دفاعی طور پر مربوط تصور ہوتا ہے اور اس کے ایٹمی اثاثے اس چیز کو مزید تقویت دیتے ہیں اسلئے جی سی سی بھی ان امور کو سنجیدگی سے مدنظر رکھے ہوئے ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے ان کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق نہ رہے۔

امریکی رکن کانگریس کا یہ بھی کہنا تھا کہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک میں یہ بھی تحفظات پائے جاتے ہیں کہ امریکہ کا اسرائیل کے حوالے سے رویہ یکسر مختلف ہے۔ اس کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی میں بھی کوئی شفافیت نہیں۔ جہاں اس نے ایران کے ایٹمی پروگرام اور شام کی خانہ جنگی کے حوالے سے دوہری پالیسی اختیار کررکھی ہے وہاں پر اسرائیل کو بھی اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔