موٹاپے سے متاثرہ ممالک میں پاکستان نویں نمبر پر آ گیا ، دنیابھر میں 2 ارب سے زائد افراد موٹاپے کاشکارہیں‘دنیا کے ہر تیسرے بالغ اور ہر چوتھے بچے کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے جس سے صحت عامہ کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے،کسی ملک نے موٹاپے کی بڑھتی ہوئی شرح پرقابوپانے کے لیے اقدامات نہیں کیے، رپورٹ

جمعہ 30 مئی 2014 05:52

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30مئی۔2014ء)ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کی تیس فیصد آبادی یعنی دوارب سے زیادہ افراد موٹاپے کاشکارہیں اورگذشتہ تین دہائیوں سے کسی ملک نے موٹاپے کی بڑھتی ہوئی شرح پرقابوپانے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ایک طرف دنیا میں خوراک کی قلت کا رونا رویا جارہاہے اورافریقہ کے قحط زدہ ملکوں میں لوگ بھوکوں مررہے ہیں تو دوسری جانب ایک نئی تجزیاتی رپورٹ میں یہ حیرت انگیزبات سامنے آئی ہے کہ یہ میڈ میڈ ورلڈ اب فیٹ فیٹ ورلڈ میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔

تحقیق کاروں کے مطابق دنیا کے دو ارب سے زیادہ افراد فربہ یا بھاری بھرکم ہیں۔رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ لحیم شحیم افراد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں رہتے ہیں،جہاں 60 فیصد مرد اور65 فیصد خواتین موٹاپے میں مبتلا ہیں۔

(جاری ہے)

دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں موٹے امریکا میں بستے ہیں جو امریکی آبادی کے 13 فیصد حصے پرمشتمل ہیں، جبکہ چین اوربھارت میں مجموعی طورپر15 فیصد افراد موٹاپے کاشکارہیں۔

دنیا کے ہر تیسرے بالغ اور ہر چوتھے بچے کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہے جس سے صحت عامہ کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے.

لانسیٹ‘ نامی طبی جریدے میں واشنگٹن یونیورسٹی کے ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالوئیشن ادارے کے محققوں کی ٹیم نے کہا کہ کہ دو ارب سے زیادہ افراد مجموعی طور پر یا موٹے ہیں یا پھر معمول کے وزن سے زیادہ ہیں۔اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1980 کے بعد سے کوئی بھی ملک اس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔

ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے عصر حاضر میں عوامی صحت کو درپیش مسائل کا اب تک کا جامع مطالع کیا ہے جو سنہ 1980 اور 2013 کیدرمیان 188 ممالک سے حاصل کیے جانے والے اعدادو شمار پر محیط ہے۔عام طور پر اب تک اس کا تعلق کھاتے پیتے خوش حال گھرانوں سے سمجھا جاتا تھا لیکن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے موٹے لوگوں میں سے 62 فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک میں ہیں۔

چین دوسرے نمبر پر ہے تو بھارت تیسرے نمبر پر۔ موٹاپے سے متاثر ملکوں میں پاکستان نویں نمبر پر جبکہ امریکہ نمبر ایک پر ہے۔ روس چوتھے، برازیل پانچویں، میکسیکو چھٹے، مصر ساتویں، جرمنی آٹھویں، اور انڈونیشیا دسویں نمبر پر ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موٹاپا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو سستے، چربی دار، میٹھے، نمکین اور زیادہ کیلری والے جنک فوڈ اور آرام طلب طرز زندگی سے بڑھتا ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انسٹیٹیوٹ آف ہلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوئیشن کے ڈائرکٹر کرسٹوفر مرے کا کہنا ہے کہ ’موٹاپا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر عمر اور آمدنی کے لوگوں کو دنیا بھر میں متاثر کر رہا ہے۔

گذشتہ تین دہائیوں میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے موٹاپے کی شرح کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو۔انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر عوامی صحت کے اس بحران کے تدارک کے لیے فوری طور پر اقدام نہیں کیے گئے تو کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں آمدنی میں اضافے کے ساتھ اس میں متواتر اضافہ ہوگا۔

‘سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ وزن والے لوگوں کو ہمیشہ دل کی بیماریوں، کینسر، ذیابیطس، گٹھیا اور گردے کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے موٹاپے میں اضافے سے ان عارضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے ہیلتھ کیئر نظام بڑے دباوٴ میں ہے۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بچوں میں یہ رجحان مشرق وسطیٰ کے ممالک اور شمالی افریقی ممالک میں نظر آتا ہے اور بطور خاص لڑکیوں میں زیادہ ہے۔

امریکہ میں 13 فی صد بچے موٹے ہیں اور اگر معمول سے زیادہ وزنی بچوں کا شمار کیا جائے تو یہ شرح 30 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔موٹاپے کی جانب مائل خواتین کی شرح سب سے زیادہ مصر، سعودی عرب، عمان، ہونڈوراز اور بحرین میں ہے تو مردوں میں یہ رجحان سب سے زیادہ نیوزی لینڈ، بحرین، کویت، سعودی عرب اور امریکہ میں ہے۔موٹاپا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو سستے، چربی دار، میٹھے، نمکین اور زیادہ کیلوری والے جنک فوڈ اور آرام طلب طرز زندگی سے بڑھتا ہے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کویت، لیبیا، قطر اور سماوٴ میں 50 فی صد سے زیادہ خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔

متعلقہ عنوان :