امریکہ کا 2014 کے بعد افغانستان میں 9800فوجی رکھنے کا اعلان ، 2016 کے اختتام تک افغانستان میں امریکی فوجی مہم کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا، افغانستان کو محفوظ بنانا امریکا کی ذمے داری نہیں،وہ اپنا کام ختم کررہا ہے‘صدر اوباما ، پاکستانی اور افغان فوجی قیادت امریکی فیصلے سے مطمئن ہیں ، جنرل مارٹن ڈیمپسی

جمعرات 29 مئی 2014 07:44

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29مئی۔2014ء)امریکی صدر بارک اوباما نے 2014 کے بعد افغانستان میں 9 ہزار 800 فوجی رکھنے کا اعلان کردیا۔ جنرل مارٹن ڈیمپسی کا کہنا ہے کہ پاکستانی اور افغان فوجی قیادت امریکی فیصلے سے مطمئن ہے۔ وائٹ ہاوٴس میں گفتگو کے دوران صدر اوباما نے کہا کہ 2014 کے اختتام تک زیادہ تر امریکی فوجی افغانستان سے واپس بلالیے جائیں گے۔

2014 کے بعد وہاں تقریباً دس ہزار امریکی فوجی موجود رہیں گے جو افغان فورسز کی تربیت اور دہشت گردی کے خلاف آپریشنز پر توجہ مرکوز کریں گے۔انہوں نے کہا کہ 2016 کے اختتام تک افغانستان میں امریکی فوجی مہم کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔ صدر اوباما نے کہا اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ افغانستان مکمل طور پر مثالی جگہ نہیں ہوگا اور اسے ایسا بنانا امریکا کی ذمہ داری نہیں لیکن مشکل سے حاصل کیے گئے امن کو قائم رکھنے میں افغانستان کی مدد کریں گے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ تقریباً دس ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رکھنے کے فیصلے پر افغان اور پاکستانی فوجی قیادت نے اطمینان ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل راشد محمود کو فیصلے سے آگاہ کردیا ہے ، جنرل راشد کا کہنا ہے کہ وہ امریکی فیصلے پر مطمئن ہیں، جنرل راشد محسوس کرتے ہیں کہ غیریقینی کی صورتحال کا خاتمہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کیلئے اہم ہے۔

جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بتایا کہ افغان آرمی چیف جنرل شیر محمد کریمی بھی امریکی فیصلے پر مطمئن ہیں۔ ادھر امریکی صدربراک اوباما نے وائٹ ہاوٴس کے روزگارڈن سے تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کو امریکا پر دہشت گردی کے حملوں کو ایک ماہ کے اندر ہی امریکی فوج کو افغانستان بھیج دیا گیا تھا۔اس نے القاعدہ کی قیادت کو نشانہ بنایا، اسامہ بن لادن کو ختم کردیا اور افغانستان کو امریکا کے خلاف ایک اڈا نہیں بننے دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ''ہم امریکیوں کی توقع سے بڑھ کر افغانستان میں مقیم رہے ہیں لیکن ہم نے جس کام کا آغاز کیا تھا،اب اس کو ختم کرنے جارہے ہیں''۔ اوباما نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلائکی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سال کے اختتام تک امریکا کا جنگی مشن باضابطہ طور پر ختم ہوجائے گا اور پھر وہاں قریباً دس ہزار فوجی ہی رہیں گے جو افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔

انھوں نے کہا:''اب وقت آگیا ہے کہ گذشتہ ایک عشرے سے جاری خارجہ پالیسی کے صفحے کو پلٹ دیا جائے جس کے دوران ہماری توجہ کا محور افغانستان اور عراق میں جنگیں رہی ہیں۔ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ افغانستان ایک مکمل طور پر پْرامن جگہ نہیں بن سکتا اور وہاں قیام امن کی ذمے داری امریکا کی نہیں ہے۔افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں ہی کو کرنا چاہیے۔

اوباما کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلائامریکا کی خارجہ پالیسی میں ایک نیا باب ہوگا۔اس سے ان جنگوں کے خاتمے سے دستیاب ہونے والے وسائل ہم دہشت گردی کے تبدیل ہوتے ہوئے خطرے کے مقابلے کے لیے صرف کرسکیں گے''۔انھوں نے خیال ظاہر کیاکہ امریکی یہ بات جان گئے ہیں کہ جنگوں کو شروع کرنے سے انھیں ختم کرنا زیادہ مشکل ہے''۔انھوں نے کہا کہ ان کے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے منصوبے کا انحصار دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخطوں پر ہے''۔

واضح رہے کہ موجودہ افغان صدر حامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جبکہ دونوں صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی نے اپنی اپنی کامیابی کی صورت میں اس معاہدے کی منظوری کا عندیہ دے چکے ہیں۔امریکی صدر کے اعلان کردہ منصوبے کے تحت اس وقت افغانستان میں موجود بتیس ہزار امریکی فوجیوں میں سے دوتہائی سے زیادہ کو اگلے سال کے آغاز تک واپس بلا لیا جائے گا اور وہاں صرف نوہزار آٹھ سو فوجی تعینات رہیں گے۔

وہ لڑاکا مشنوں میں شریک نہیں ہوں گے بلکہ صرف افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کا کام کریں گے۔جنوری 2017ء میں جب براک اوباما وائٹ ہاوٴس سے رخصت ہوں گے تو اس کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکی فوج کا ہرطرح کا مشن مکمل ہوجائے گا اور باقی ماندہ فوجیوں کو بھی واپس بلا لیا جائے گا۔امریکی فوج کے ساتھ نیٹو فوجی بھی چند ایک ہزار کی تعداد میں افغانستان میں تعینات رہیں گے اور آیندہ سال کے آغاز کے موقع پر نیٹو اور امریکی فوج کی کل تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔یادرہے کہ افغانستان میں گذشتہ تیرہ سال کے دوران جنگی کارروائیوں میں قریباً دو ہزار دو سو امریکی فوجی مارے گئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مزاحمت کاروں کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہوئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :