آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کیس، رفیق راجوانہ اور سیکرٹری تحفظ خوراک کو عوام الناس کو اشیائے ضروریہ کی فراہمی بارے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عملی اقدامات پر رپورٹ 9 جون کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت،غریب بھوکوں مر رہے ہیں اور کسی کو اس کا احساس تک نہیں‘جسٹس جواد ایس خواجہ، حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز وہیں قائم کئے ہیں جہاں غریب رہتے ہی نہیں،حکومت‘ ججز، وکلاء سب کا مشترکہ مقصد ہے کہ غریب تک بنیادی ضروریات پہنچائی جائیں، سسی سوتی رہ گئی اور پنوں کو اس کے بھائی لے گئے ایسا نہیں ہونا چاہئے،ریمارکس

جمعرات 29 مئی 2014 07:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29مئی۔2014ء) سپریم کورٹ نے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے جماعت اسلامی کی درخواست کی سماعت کے دوران عدالتی معاون رفیق راجوانہ اور سیکرٹری وزارت تحفظ خوراک و تحقیق کو ہدایت کی ہے کہ عوام الناس کو اشیائے ضروریہ کی فراہمی بارے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عملی اقدامات پر رپورٹ 9 جون کو عدالت میں پیش کی جائے‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز وہیں قائم کئے ہیں جہاں غریب رہتے ہی نہیں‘ حکومت بتائے کہ کیا غریب کا علاج اس کا مر جانا ہے‘ لمحہ فکریہ ہے غریب بھوکوں مر رہے ہیں اور کسی کو اس کا احساس تک نہیں‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو زندگی بسر کرنے کیلئے ضروری اشیاء دستیاب نہیں‘ حکام کی آنکھ کیسے لگ جاتی ہے ہمیں تو نیند نہیں آتی‘ حکومت‘ ججز اور وکلاء سب کا یہ مشترکہ مقصد ہے کہ غریب تک بنیادی ضروریات پہنچائی جائیں‘ سسی سوتی رہ گئی اور پنوں کو اس کے بھائی لے گئے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران لیاقت بلوچ خود بھی موجود تھے۔ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے لیاقت بلوچ کے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جواد نے کہا کہ کاغذ میں لکھ دیا گیا ہے کہ لوگوں کو فی کس روزانہ 2300 کیلوریز ملنی چاہئیں۔ انہوں نے عدالتی معاون سے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے کافی بحث کی تھی آپ نے معاونت کا بیڑا اٹھایا ہے تو رفیق راجوانہ ہم چاہتے ہیں کہ معاملات واضح ہوجائیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ کو سابقہ حکم پڑھنے کا کہا گیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم اس قوم کے پسے ہوئے عوام الناس کی بہتری کیلئے ایک ہیں‘ کوئی سیاست نہیں‘ لیاقت بلوچ اپوزیشن جماعت میں ہیں۔ تمام پارٹیاں ہماری ہیں ہم کسی میں تفریق نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں لکھا ہوا ہے کہ جو تفریق کرتے ہیں ان کیساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ ہم سب کیساتھ انصاف کریں گے۔

لیاقت بلوچ کی اخبار میں تصویر دیکھی تھی اس پر لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہم آپ کو باالمشافہ بھی خود کو دکھا دیتے ہیں۔ اس دوران عتیق شاہ نے آرڈر پڑھ کر سنایا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے ایک تحقیق کرائی تھی ہمیں نہیں معلوم کہ دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے۔ ایک قانون سازی آج سے چھ ماہ قبل ہوئی تھی وہ بھی اس میں شامل کردی گئی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ قانون سازی کس حد تک موثر ہوگی۔

فوڈ سکیورٹی نہیں کے۔ غلہ اور اناج نہیں مل رہا۔ بہت سے لوگ پریشان ہیں۔ ایک علاج نکالا گیا ہے اور قانون سازی کی گئی ہے۔ سیکرٹری فوڈ سیرت اصغر بھی موجود ہیں۔ حکومت نے تو کچھ نہیں کیا لیکن درخواست گزار کی وجہ سے ہمیں اس معاملے تک رسائی ہوئی۔ اگر ہم سب کی دلچسپی عوام تک غلے کی رسائی ہے تو سیکرٹری صاحب آپ کی تجاویز آئی تھیں تجاویز تو ہم بھی دے سکتے ہیں۔

میرے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میں تجاوز کررہا ہوں لیکن جس قدر میں اس معاملے میں کرسکوں گا کروں گا۔ یہ ہو کیا رہا ہے؟ یہ اسلامی مملکت پاکستان ہے‘ پچاس مرتبہ کہہ چکا ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی مرگیا تو اس بارے میں عمر سے پوچھا جائے گا۔ کیا کیا جائے۔ غریب بچے خودکشی پر مجبور نہیں ہوں گے اس حوالے سے اقدامات بتائیں۔

سیکرٹری فوڈ سکیورٹی نے ایک رپورٹ جمع کروائی‘ جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ بتائیں۔ سیکرٹری نے بتایا کہ حکومت نے اقدامات کئے ہیں۔ 18 فیصد لوگوں کو 1200 فی کس کے حساب سے 55 لاکھ خاندانوں کو بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت 70 کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔ یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد 6 ہزار ہے انہیں بڑھارہے ہیں۔ ان سٹورز کو امدادی قیمت دی جاتی ہے اور غریبوں کو کم نرخوں پر اشیائے ضروریہ ملتی ہیں۔

یہ وفاق کا ادارہ ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ان سٹورز پر غریبوں کی خریداری کو کیسے یقینی بناتے ہیں؟ آپ نے تو بھوکا مرنے والوں کو دیکھنا ہے کہ ان کو کیسے غذا پہنچانی ہے۔ آپ اور ہم تو بھوکے نہیں مر رہے۔ سیکرٹری نے کہا کہ اسلام آباد میں ایسی جگہوں پر یوٹیلٹی سٹور ہیں جہاں غریب لوگ رہ رہے ہیں‘ ہماری مشکل ہے کہ ہم لارجر بنچ کی وجہ سے مصروف رہے ہیں۔

اس کیس کی ہم ترجیحی بنیادوں پر سماعت کررہے ہیں۔ غریب کا علاج اس کا مرجانا ہے تو بتایا جائے۔ یہ افسوسناک ہے کہ غریب مر رہے ہیں اور ان کا احساس کرنے والا کوئی نہیں۔ ہم آفس کو ہدایت کردیتے ہیں کہ انسانی حقوق کے مقدمات ایک ایک کرکے لگائے جائیں۔ اس کیس کی سماعت 9 جون کو کریں گے۔ اگلی سماعت پر حکومت کو کوئی خوشخبری دے دیں گے کہ ہم نے غریبوں کی مدد کردی ہے۔

رفیق راجوانہ نے کہا کہ سبسڈی ان لوگوں کو دی جارہی ہے جن کو ضرورت نہیں اور جن کیلئے ہے انہیں کچھ نہیں مل رہا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگلی سماعت پر اس کا جائزہ لیں گے اور عدالت نے سماعت 9 جون تک ملتوی کردی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آنکھ ان حالات میں نہیں لگنی چاہئے ”سسی ستی رہ گئی اور پنوں کے بھائی اس کو آکر لے گئے“ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

متعلقہ عنوان :