محسود طالبان گروپ کا کالعدم تحریک طالبان سے علیحدگی کا اعلان ،تحریک طالبان کا انتظام سازشی ٹولے کی وجہ سے نادیدہ ہاتھوں میں چلاگیا ہے، اب اکٹھے رہنا ممکن نہیں ، تحریک طالبان باہر سے پیسے لے کر اجرتی قاتل بنی ہوئی ہے،ترجمان محسود طالبان گروپ اعظم طارق

جمعرات 29 مئی 2014 07:34

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29مئی۔2014ء) محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے خان سید عرف خالد سجنا گروپ نے تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کر تے ہو ئے کہا کہ تحریک طالبان کا انتظام سازشی ٹولے کی وجہ سے نادیدہ ہاتھوں میں چلاگیا ہے، اب اکٹھے رہنا ممکن نہیں رہا ۔۔ جنوبی وزیرستان کے نامعلوم مقام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سیاسی شوریٰ کے رکن اور خان سید عرف خالد سجنا گروپ کے ترجمان مولانا اعظم طارق نے کہا کہ تحریک طالبان کا انتظام سازشی ٹولے کی وجہ سے نادیدہ ہاتھوں میں چلاگیا ہے، مسلک، عقائد و نظریات کے پرچارسے دوسرے حلقوں کے طالبان بدظن ہوئے ہیں، ہم نے تحریک طالبان میں اصلاح و اتحاد کی کوشش کی، ہماری کوششوں کے باوجود سازشی ٹولہ کامیاب رہا۔

(جاری ہے)

موجودہ تحریک طالبان پاکستان باہر سے پیسے لے کر اجرتی قاتل بنی ہوئی ہے، موجودہ نظام کے لوگ خفیہ تنظیموں کے آلہ کار ہیں، یہ لوگ مدارس سے رقوم کے مطالبے، عوامی مقامات پردھماکوں، ڈاکا زنی اور بھتا خوری میں ملوث ہیں،مسلک اور عقائد و نظریات کے پرچار کی وجہ سے دوسرے حلقوں کے طالبان ان سے بدظن ہوگئے ہیں۔

مولانا اعظم طارق کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں ہم نے تحریک طالبان میں اصلاح و اتحاد کی کوشش کی لیکن ہماری کوششوں کے باوجود سازشی ٹولہ کامیاب رہا، طالبان کے نام پربھتہ خوری کی اجازت نہیں دے سکتے،گروپ کی موجودہ صورت حال اور نظریات اسلام مخالف اور ہمارے ایجنڈے کا حصہ نہیں، اس لئے امیر خالد محسود کی قیادت میں محسود طالبان گروپ تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہے۔

اب ان کا گروپ تحریک طالبان جنوبی وزیرستان کے نام سے جانا جائے گا اور ہم امارات اسلامی افغانستان کے قائدین کی ہدایات پر آگے بڑھیں گے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے سجنا گروپ کے ترجمان اعظم طارق نے کہا ہے تحریک طالبان اپنے بانی رہنما بیت اللہ محسود کے مقرر کردہ اصل اہداف اور مقاصد سے ہٹ گئی تھی جس کی وجہ سے وہ علیحدگی پر مجبور ہوئے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ نامعلوم مقام سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ ان کی شوریٰ مناسب غور و خوض کے بعد کرے گی۔ اعظم طارق نے تحریک طالبان اپنے اس مقصد سے ہٹ گئی تھی۔ تحریک میں چند ایسے عناصر آ گئے جنہوں نے جہادی مقاصد چھوڑ کر ایسی کارروائیاں شروع کیں جنہوں نے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

تحریک کے ہی سائے تلے ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، علماء کی شہادت، مدارس سے بھاری رقوم کا تقاضہ، پیسے لے کر عوامی مقامات پر دھماکے کرنا اور مختلف ناموں سے ذمہ داری قبول کرنا اور خاص کر امارت اسلامی افغانستان کے خلاف پروپگنڈا کرنا، ایسی گھناونی سازش تھی جسے ہم بار بار کی کوششوں کے باوجود روک نہیں سکے یہی وجوہات تھیں کہ ہم نے بڑے سوچ بچار کے بعد الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔

اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ اس سوال پر کہ ان مسائل کے حل کے لیے اندرونی طور پر کیا کوششیں کی گئیں، ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ شوریٰ میں یہ معاملہ کئی مرتبہ اٹھایا گیا لیکن بہتری کی کوئی راہ نہیں نکلی۔ انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ اختلافات کی وجہ کوئی عہدہ یا کرسی تھی ’بلکہ اختلاف نظریات کا تھا۔ایک اور سوال پراعظم طارق کا کہنا تھا کہ انھوں نے الگ ہونے کا فیصلہ محسود قبیلے کی بنیاد پر ہی کیا ہے لیکن ’ہر کسی کو ہمارے ساتھ آنے کی دعوت دی ہے۔

‘ شہریار محسود کے ساتھ لڑائی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ تو چھوٹا سا مسئلہ تھا حل کر لیا گیا ہے اور باقی سب ناراض ساتھیوں کی طرح انھیں بھی شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کے حوالے سے تحریک کی پالیسی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ ان کی شوری بعد میں کرے گی اور ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔اعظم طارق سے جب پوچھا گیا کہ اس فیصلے سے تحریک کمزور نہیں ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ آنے والے دن ہی بتائیں گے لیکن وہ اپنے جہادی نظریے کو ماضی کی طرح مستقبل میں بھی لے کر چلیں گے۔

واضع رہے کہ اعظم طارق کو ستمبر سنہ 2009 میں مولوی عمر کی گرفتاری کے بعد ٹی ٹی پی کا مرکزی ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔ بعد میں انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس نئے گروپ میں انھیں ترجمان کا عہدہ دیا گیا ہے جبکہ مولانا ولی الرحمان کے سابق نائب خالد محسود عرف سجنا امیر مقرر کیے گیے ہیں۔

متعلقہ عنوان :